تصور حکمرانی: تاریخ اسلامی کی روشنی میں

ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی

انسان کی زندگی دو باہم مربوط و منضبط حصوں یعنی دنیا و آخرت میں بٹی ہوئی ہے۔ اول الذکر مرحلہ کو دار المحن اور موخر الذکرمنزل کو دار الجزا کہا جاتا ہے۔ ہماری زندگی کے پہلے مرحلے میں ہم کو جزوی آزادی دی گئی ہے کہ ہم ہمارے جذبات، احساسات، تخیلات اور تفکرات کو عملی جامہ پہنائیں۔ ہمارے ان افعال و اعمال کی جزا و سزا ہم کو ہماری زندگی کے دوسرے مرحلے یعنی آخرت میں ملے گی۔ اللہ تعالی نے ہر بندے کو دنیا کی تمام نعمتوں سے سرفراز نہیں فرمایا بلکہ بعض نعمتیں عطا فرمائی ہیں تو بعض انعامات و اکرامات سے محروم رکھا ہے۔ سنت الہی کے اس پہلو پر سطحی نظر ڈالنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہی تفاوت نعمت ہے جو تمام برائیوں کی اساس ہے مثلاً کسی سارق سے چوری کی وجہ دریافت کریں کہ آپ چوری کیوں کرتے ہیں تو عموماً ہر اس شخص کا جواب (جو اس بدترین گناہ میں مبتلا ہے) یہی ہوگا کہ میرے پاس بنیادی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے جس مال و زر کی ضرورت تھی وہ بھی نہ ہونے پر میں نے یہ انتہائی اقدام کا ارتکاب کیا ہوں لیکن بہ نظر غائر اگر ہم غور و فکر تدبر و دانشوری سے اس گتھی کو سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالی کی اس سنت کا منشا و مقصد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنا ہے یعنی عوام الناس کے جم غفیر میںسے ان لوگوں کو ممتاز و مکرم بنانا ہے جو انسانیت کے علمبردار ہیں چنانچہ اللہ تعالی اسی لطیف نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا { ولنبلونکم بشیئٍ من الخوف والجوع و نقص من الاموال والانفس والثمرٰت و بشر الصٰبرین الذین اذآ اصابتھم مصیبۃ قالوآ انا للہ و انآ الیہ رٰجعون}(2/155,156) ترجمہ:۔ اور ہم ضرور آزمائیں گے تمہیں کسی ایک چیز کے ساتھ یعنی خوف اور بھوک اور کمی کرنے سے (تمہارے) مالوں اور جانوں اور پھلوں میں  اور خوشخبری سنایئے ان صبر کرنے والوں کو جو کہ جب پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں بے شک ہم صرف اللہ ہی کے ہیں اور یقینا ہم اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے واضح انداز میں بیان فرمایا کہ حرمان نعمت الہی اور مصیبتوں سے صرف ہماری اخلاقی آزمائش مقصود ہے چنانچہ خود خالق کائنات نے ارشاد فرمایا جو لوگ ان حالات میں صبر جیسی اخلاقی خوبی کے حامل ہوں گے ان کے لیے خوشخبری ہے۔ ورنہ اگر وہ بعض لوگوں کو اپنے انعامات و اکرامات سے محروم رکھے تو نہ اس کے خزائن رحمت میں کوئی ازدیاد ہونے والے اور نہ ہی اگر وہ تمام لوگوں کو اپنی نعمتوں سے یکساں لطف اندوز ہونے دے تو اس کی دریا رحمت میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع ہونے والی ہے بلکہ ہم پر تو یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ {وقالت الیھود ید اللہ مغلولۃ غلت ایدیھم و لعنوا بما قالوا بل یدہ مبسوطتٰن ینفق کیف یشآئُ}(5/64) ترجمہ:۔ اور کہا یہود نے کہ اللہ کا ہاتھ جکڑا ہوا ہے۔ جکڑے جائیں ان کے ہاتھ اور پھٹکار ہو ان پر بوجہ اس (گستاخانہ) قول کے بلکہ اس کے تو دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے۔ کسی کو نعمتوں سے سرفراز کرنے اور کسی کو محروم کرنے میں اگر کوئی حکمت پوشیدہ ہے تو وہ صرف ہماری آزمائش و امتحان ہے تاکہ اس دل سوز، جاں گداز راہوں سے گذر کر ہمارے کردار میں وہ جواہر پیدا ہوجائیں جو انسانیت پرور و آدمیت نوازی کی بنیاد  ہیں۔

چونکہ اللہ تعالی نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے جلیل القدر کام کی ذمہ داری انبیاء و مرسلین کے بعد اس امت مسلمہ کو عطا کی ہے تو یہ ضروری تھا کہ امت وسط کے کردار میں وہ تمام محاسن انسانیت جمع کردیے جائیں جو ایک مبلغ اور داعی اسلام کے لیے حتمی و ضروری متصور کی جاتی ہیں اور یہ مقصد ہم کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا جب تک کہ ہم مصائب و آلام کی کٹھن راہوں کو سر نہ کرلیں اس حقیقت کو واشگاف کرنے کے لیے اللہ تعالی نے فرمایا {احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنا و ھم لا یفتنون  ولقد فتنا الذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوا ولیعلمن الکٰذبین} (29/2,3) ترجمہ:۔ کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہیں ہم ایمان لے آئے اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا اور بیشک ہم نے آزمایا تھا ان لوگوں کو جو ان سے پہلے گزرے پس اللہ تعالی ضرور  دیکھے گا انہیں جو (دعوائے ایمان میں) سچے تھے اور ضرور دیکھے گا (ایمان کے) جھوٹے (دعویداروں) کو۔

گو یا اس آیت مبارکہ میں اس کی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وسائل زندگانی کی فراوانی و قلت کی وجہ و علت صرف اور صرف ہماری اخلاقی خوبیاں کی جانچ ہے نہ کہ یہ ہم کو برائیوں کی طرف لے جانے کا سبب، پائے استقامت کو متزلزل کرنے والی آفات و بلائیات سے بھری اس راہ میں وہی لوگ بے راہ روی کا شکار ہوتے ہیں جو اخلاق سے عاری ہوں  چنانچہ جو لوگ مالی دشواری کو دور کرنے کے لیے چوری کو بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں وہ پورے معاشرے میں ذلت و رسوائی کی زندگی گذارتے ہیں اور یہ لوگ {اولئک کالانعام بل ھم اضل}(7/179) ترجمہ:۔ وہ حیوانوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ۔ کا مصداق بن جاتے ہیں ۔اس آیت کریمہ میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ مشکلوں و پریشانیوں میں سیدھی راہ پر چلنا انسانیت کا تقاضہ ہے اگر ایسے مرحلہ پر غلط روش اختیار کریں تو ہم نہ صرف حیوان بلکہ ان سے بھی زیادہ بدتر زمرہ میں شمار ہوں گے۔

چونکہ معاشرہ میں بعض لوگ ایسے بھی رہتے و بستے ہیں جو جانوروں سے انسیت رکھتے ہیں لیکن کوئی انسان ایسا نہیں ملے گا جو چور کی تعریف کرتا ہو یا اس کے کام کی ستائش کرتا ہو اس کو اپنا محبوب سمجھتا ہو۔ مذہب اسلام نے ایسے افراد کے متعلق اپنی ناراضگی و مغبوضیت کا اظہار کرتے ہوئے حاکم وقت کو اختیار دیاکہ وہ اس کا ہاتھ کاٹ دے برخلاف اس کے وہ شخص جو مصیبتوں و پریشانیوں کے دشوار کن مرحلوں میں پامردی ،ہمت و استقلال، ضبط و تحمل اور برباری و استقامت کے ساتھ ان کے سامنے سینہ سپر ہوجاتا ہے اور ان کا دیوانہ وار مقابلہ کرتا ہے تو اس شخص کی تعریف نہ صرف معاشرہ کرتا ہے بلکہ خالق کائنات بھی ایسے برگزیدہ و نیک طینت بندوں کو خوشخبری دینے کا حکم فرماتا ہے جیسا کہ محولہ ذیل آیت کریمہ سے صراحت ہوتی ہے۔ فرمایا گیا { و بشر الصٰبرین }(2/156) ترجمہ :۔اور خوشخبری سنایئے صبر کرنے والوں کو ۔ اسباب و مبادی کمالات اگرچہ سخت اور انتہائی تلخ ہوتے ہیں لیکن اس کے ثمرات، عواقب و نتائج اور اثرات اتنے ہی ثمر آور ، اور قلبی راحت و سرور کا باعث ہوتے ہیں یہی وہ تلخ اسباب و مبادی ہے جس کے باعث انسان صدق و صفائی، انصاف و میانہ روی، سخاوت و فیاضی، شجاعت و بردباری،  مسامحت و اعلیٰ ظرفی ، طلاقت و خوش مزاجی ، قوت برداشت و ثابرت قدمی، حسن تدبیر و خودداری، بصارت و دقت نظری، خلوص و دیانت داری، ایثار و حق پسندی، متانت و سنجیدگی، رعایت و رعایا پروری ،شرم و حیا، صلح و درگزی، صبر و رضا،عفت و پارسائی، قناعت و توکل، جیسے خصائل مرضیہ سے متصف ہوکردنیا و آخرت میں معزز و مکرم بن جاتا ہے۔یہ تو اللہ تعالی کی آزمائش کا ایک پہلو تھا کہ وہ اپنے بندوں کو اپنی نعمتوں سے محروم رکھ کر آزماتا ہے دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ بعض دفعہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو اپنی نعمتوں کی فراوانی و ازدیاد سے بھی آزماتا ہے چنانچہ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ اس روئے زمین پر ایسے بھی افراد گذرے ہیں جن کے پاس مال و زر، جاہ و ہمشت کی کوئی کمی نہ تھی  لیکن اس کے باوجود انہوں نے عوام الناس پر ظلم و استبداد کی انتہا کردی تھی جس کے باعث لوگ انہیں متنفر نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور جب بھی ان کا چرچہ لوگ کرتے ہیں توانہیں ظالم و جابر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

مذکورہ بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ نیکیوں اور برائیوں کا دار و مدار وسائل زندگی کی موجودگی یا عدم پر نہیں بلکہ اخلاق پر ہے اگر انسان میں اخلاق ہو تو وہ ہر دو حالت میں راہ راست پر گامزن رہے گا ۔جہاں مذہب اسلام ہمیں خدائے تعالی کی عبادت کرنے کا حکم دیتا ہے وہیں اخلاق کے تمام محاسن و خوبیوں کو اپنانے کی تاکید بھی کرتا ہے۔ چنانچہ رسول اکرمﷺ نے اپنی بعثت کا ایک عظیم مقصد یہ بھی بیان فرمایا کہ ’’انما بعثت لاتمّ مکارم الاخلاق‘‘ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اس کی کسوٹی پر کھرا اترنے والے کی نشاندہی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ’’ اکمل المومنون احسنھم خلقا‘‘ یہی وہ اخلاق ہے جو کسی شخص کے کردار کا لازمی جز بن جائے تو اپنوں ہی میں نہیں بلکہ غیروں میں بھی ممتاز ہوجاتا ہے اور اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ نبی کریمﷺ سے اشد مخالفت کے باوجود بھی مخالفین نے آپﷺ کے کردار و اخلاق کی مداح سرائی میں کبھی تعصب سے کام نہیں لیا بلکہ واضح الفاظ میں آپﷺ کو صادق و امین کے لقب سے مخاطب کیا۔ رحمت عالم ﷺ کی اسی خوبی کی مدح سرائی کرتے ہوئے خالق دو جہاں نے  فرمایا { وانک لعلیٰ خلق عظیم } (68/4) ترجمہ :۔ اور بے شک آپ عظیم الشان خلق کے مالک ہیں۔ یوں تو اخلاق کی ضرورت انسان کو زندگی کے ہر مرحلے پر لاحق ہوتی ہے لیکن اس کی اہمیت و افادیت میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے جب انسان کو حکمرانی کے تاج سے نوازا گیا ہو چونکہ یہ وہ نازک مقام  ہے جہاں پر اس کے ہر عمل کے اثرات اس کی ذات تک محدود نہیں رہتے بلکہ اس کے اثرات تمام رعایا پر مرتب ہوتے ہیں حکمرانی کے جوہر کو اس وقت تک نہیں نکھارا جاسکتا جب تک کہ اس میں عدل و انصاف کا پہلو شامل نہ ہوجائے چونکہ حکمرانی اور عدل وانصاف لازم و ملزوم ہیں۔

چنانچہ قرآن حکیم نے اس ضمن میں  ایسے رہنمایانہ اور حیات آفرین اصول و ضوابط متعین فرمائے ہیں کہ اگر اس پرآج کا ہر حکمراں تعصب کے نظریہ کو پس پشت ڈال کر حقیقت پسندی کو مد نظر رکھتے ہوئے عمل پیرا ہوجائے تو دنیا کے جو دگرگوں و مضطرب حالات ہیں وہ یکسر سکون و راحت اور امن و آشتی میں تبدیل ہوجائیں گے جس کا انتظار ہر سکون پسند، آدمی پرور، انسانیت نواز شخص شدت سے کررہا ہے۔ایوان عدل و انصاف کے در و دیوار شیشے سے زیادہ نازک ہوتے ہیں اور قدرتی آبشاروں اور پانی کے قطروں کی طرح شفافیت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ اگر اس میں رمق برابر بھی مفاد پرستی ، خودپرستی ،عیش پرستی، نفس پرستی،فرقہ پرستی، مذہب پرستی، تحفظ ذہنی  اور تعصب پسندی وغیرہ کی آمیزش ہوجائے تو عدل و انصاف کی سلطنت کا شیرازہ پاش پاش ہوکر بکھرجاتا ہے۔ چونکہ خالق کائنات فطرت انسانی سے کامل ترین شناسائی رکھنے والی بابرکت ذات ہے تو اس نے ان تمام ممکنات کا سد باب کردیا جو عدل و انصاف کے قلعہ کو خارجی یا داخلی طور پر کھوکھلا کرسکتے تھے اور ایسے اصول و ضوابط ،قوانین و تحدیدات اپنے بندوں پر لازم فرمائے جو عدل و انصاف کو استحکام بخشنے اور حکمرانی کے جوہر کو نکھارنے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔

چنانچہ خالق کائنات نے قرآن حکیم کی ابتدائی آیات میں فرمایا تمام تعریفیں اللہ رب تبارک و تعالی کے لیے مختص ہیںاور بطور دلیل کے خالق کون و مکاں و صناع ارض و سما نے اپنی جن صفات قدسیہ کا تذکرہ فرمایا وہ رحمن ، رحیم اور عدالت ہے  جس سے مذہب اسلام میں عدل و انصاف کی اہمیت و افادیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی کو عدالت کس قدر محبوب ہے۔چونکہ صلاحیت ِحکمرانی اور اس کی بہتری کا مدار عدل و انصاف پر منحصر ہے اس لیے قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر عدل وانصاف کی حیات آفریں و روح پرور جھلکیوں سے عالم انسانیت کو روشناس کروایا ہے اور اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اللہ تعالی کے عدل و انصاف کی کیا کیفیت ہوگی تاکہ اس کے بندے ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کے تحت اسی روش و ڈگر کو اختیار کریں تاکہ عالم انسانیت امن و سکون راحت و مسرت کے ساتھ زندگی گذارسکے۔ چونکہ انسان خطا و نسیان کا مرکب ہے اسی لیے بسا اوقات انسان سے نادانستہ طور پر معمولی گناہ سرزد ہوجاتا ہے اور بعض وقت بحالت مجبوری نہ چاہتے ہوئے بھی انسان چھوٹے موٹے گناہوںکا ارتکاب کر بیٹھتا ہے عدل و انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے انسان کو ایک موقع دیا جائے تاکہ وہ اپنے گناہوں سے تائب ہوکر دوبارہ جادہ حق پر گامزن ہوجائے۔ اسی لیے اللہ تعالی ایسے نازک موقعوں پر عفو و درگذری سے کام لینے کا حکم دیا ہے ۔بعض مقامات پر عفو و درگذری کو تقوی کے قریب قرار دیاگیا ہے۔ { وان تعفوا اقرب للتقویٰ} (2/237)ترجمہ :۔عفو و درگذری تقوی سے قریب تر ہے ۔ چونکہ عفو و درگذری سے ہوسکتا ہے کہ مجرم اپنے جرم پر نادم ہوجائے اور اس جرم کو ترک کرنے پر آمادہ ہوجائے اسی لیے عفو و درگذری کو تقوی کے قریب قرار دیا گیا ہے چونکہ تقوی کا لب لباب اور مقصود اصلی بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان گناہوں سے اجتناب کرے اور نیکیوں سے قریب ترہوجائے۔ اگر کوئی عفو و درگذری کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے تو اس وقت عدل و انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ اس مجرم کو صرف اسی جرم کی سزا دلوائیں جس کا ارتکاب اس نے کیا ہے اور یہی سنت الہی ہے۔

چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے {ووضع الکتٰب فتری المجرمین مشفقین مما فیہ و یقولون یویلتنا مال ھذا الکتٰب لا یغادر صغیرۃ ولا کبیرۃ الا احصٰھا و وجدوا ما عملوا حاضراً و لا یظلم ُ ربک احداً} (18/49) ترجمہ :۔پس تو دیکھے گا مجرموں کو کہ وہ ڈر رہے ہونگے اس سے جو اس میں ہے اور کہیں گے صدحیف! اس نوشتہ کو کیا ہوگیا ہے کہ نہیں چھوڑا اس نے کسی چھوٹے گناہ کو اور نہ کسی بڑے گناہ کو مگر اس نے اس کا شمار کرلیا ہے اور (اُس دن) وہ پالیں گے جو عمل انہوں نے کیے تھے اپنے سامنے اور آپ کا رب تو (اے حبیبؐ) کسی پر زیادتی نہیں کرتا۔ اس آیت پاک میں عدل و انصاف کی حقیقی کیفیت و صورت کو بیان کیا گیا کہ جو مجرم جس جرم میں ماخوذ ہوگا اس کو اسی کی سزا دی جائے گی اس پر کسی اور جرم کی سزا کو مسلط نہیں کیا جائے گا چونکہ یہ سراسر ظلم ہے اور اللہ تعالی ظلم کرنے سے پاک ہے۔ عصر دوراں میں اکثر دیکھا جارہا ہے کہ جب کبھی حالت میںکشیدگی پیدا ہوجاتی ہے تو بلا وجہ بے قصور افراد کو گرفتار کرلیا جاتا ہے اور اس کو احتیاط کا نام دے دیا جاتا ہے۔ ہمارا یہ غیر دانشمندانہ احتیاطی اقدام کبھی کبھی سادہ لوح انسان کو گناہوں کی غار میں ڈھکیلنے کا سبب بھی بن جاتا ہے۔اس لیے ہم پر لازم ہے کہ مجرم کو یقینا کیفر کردار تک پہنچائیں لیکن ساتھ ساتھ اس بات کی بھی بھرپور کوشش کریں کہ کسی شخص کو اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا نہ ملنے پائے ورنہ عدل و انصاف کے استحکام کے بجائے نقض امن اور افراتفری ہی کو فروغ ملے گا۔

سورۃ انبیاء کی آیت نمبر 47 سے بھی اس بات کا درس ملتا ہے فرمایا گیا { ونضع الموٰزین القسط لیومِ القیٰمۃ فلا تظلم نفس شیئاً وان کان مثقال حبۃٍ من خردلٍ اتینا بھا } ترجمہ :۔اور ہم رکھ دینگے صحیح تولنے والے ترازو قیامت کے دن پس ظلم نہ کیا جائے گا کسی پر ذرہ بھر۔ اور اگر (کسی کا کوئی عمل)  رائے کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو ہم  اسے بھی لاحاضر کریں گے۔سورۃ یٰس کی آیت نمبر 54 میں بروز محشر عدل وانصاف کے تمام تر تقاضوں کو کس طرح پورا کیا جائے گا اس کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا گیا { فالیوم لا تظلم نفس شیئاً و لا تجزون الا ما کنتم تعملون } ترجمہ :۔پس آج نہیں ظلم کیا جائے گا کسی پر ذرہ بھر اور نہ ہی بدلہ دیا جائے گا تمہیں مگر ان اعمال کا جو تم کیا کرتے تھے۔  عدل و انصاف کو قائم کرنا انتہائی نازک ترین مرحلہ ہے اسی لیے خالق کائنات نے عدالت کو تقوی کے قریب تر قرار دیا ہے ۔ فرمایا گیا {یایھا الدین ء امنوا کونوا قوّامین للہ شھدآء بالقسط ولا یجرمنکم شنئان قوم علی الا تعدلوا اعدلوا ھو اقرب للتقوی واتقوا اللہ ان اللہ خبیر بما تعملون } (5/8)ترجمہ :۔ اے ایمان والو! ہوجائو مضبوطی سے قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے انصاف کے ساتھ اور ہرگز نہ اُکسائے تمہیں کسی قوم کی عداوت اس پر کہ تم عدل نہ کرو عدل کیا کرو یہی زیادہ نزدیک ہے تقوی سے اور ڈرتے رہا کرو اللہ سے بے شک اللہ تعالی خوب خبردار ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔

اس آیت پاک میں صراحت کے ساتھ اس با ت کا حکم ملتا ہے کہ وہ اپنے ہوں یا غیر ہر کسی کے ساتھ عدل و انصاف کا سلوک روا رکھیں ۔ کہیں ایسا نہ ہونے پائے کہ عداوت اور بغض کے پتھر سے عدل و انصاف کا شیشہ چکنا چور ہوجائے بلکہ ہر حال میں ہر کسی کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کریں یہی عدالت و انصاف کا تقاضہ ہے اور یہی عدل و انصاف تم کو حقیقت میں تقوی کے قریب کرنے والا ہے اس حکم کی عملی تصویر اس روایت میں ملتی ہے جس میں رحمت عالم ؐ نے ذمیوں کے حقوق اور مراعات بیان فرمائے ہیں۔ ذمی اس شخص کو کہتے جو اسلامی سلطنت میں جزیہ (Poll or Capitation Tax)دیکر آباد ہو اور اس کا مذہب اسلام نہ ہو ۔ نجران، ایلہ، اذرح، اذرعات یہ وہ قبائل ہیں جن پر حضور اکرم ؐ نے 8ھ میں سب سے پہلے جزیہ مقرر فرمایا (فتوح البلدان صفحہ نمبر 268)۔ سرور دوجہاں، رحمت عالماں ؐ فرماتے ہیں کہ اگر چہ کہ ذمی دامن اسلام سے وابستہ نہیں ہیں لیکن عدل و انصاف کی بنیاد پر ان کو یہ حقوق ومراعات حاصل رہیں گے ۔ (1) کوئی دشمن حملہ ان پر کرے تو اس کی مدافعت کی جائے گی (2) ان کو ان کے مذہب سے بیزار نہیں کیا جائے گا (3) جزیہ ادا کرنے کے لیے محصل کے پاس جانا نہیں پڑے گا  (4) ان کی جان محفوظ رہے گی (5) ان کا مال محفوظ رہے گا (6) ان کی زمین محفوظ رہے گی (7) ان کے قافلے اور تجارت محفوظ رہیگی (8) تمام چیزیں جو ان کے قبضہ میں ہیں بحال رہیں گی (9)مورتیوں اور صلیبوں کو نقصان نہیں پہنچایاجائے گا  (10) ان سے عشر نہیں لیا جائے گا (11) ان کے ملک میں فوج نہیں بھیجی جائے گی  (12) پادریوں کو ان کے عہدوں سے برطرف نہیں کیا جائے گا(13) ان کے کسی بھی حق ملکیت کو زائل نہیں کیا جائے گا (14)ان کے مذہب اور عقیدہ کو جبری طور پر نہیں بدلا جائے گا (15) یہ احکام ان کو بھی شامل ہیں جو اس وقت حاضر نہیں ہیں ۔ (مقالات شبلی صفحہ نمبر 192 مطبوعہ 1930ء) ۔

تاریخ شاہد ہے کہ ہندو آرین ہوں یا رومن یا کوئی دیگر فاتح قوم کسی نے بھی مفتوح اور مغلوب قوم کے ساتھ انسانیت کا برتائو نہیں کیا بلکہ ان کے ساتھ جانوروں جیسے سلوک کو روا رکھا اس کے برخلاف دولت اسلامی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس میں فاتح و مفتوح،   غالب و مغلوب، حاکم و محکوم میں کوئی فرق نہیں کیا گیا بلکہ ہر دو کے ساتھ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کیا گیا ۔ چونکہ فاروق اعظمؓ کے مبارک دور میں اسلامی سلطنت کا دائرہ وسیع تر ہو گیا یہاں تک کہ یمن، بحرین، عمان، عدن ، مصر، عراق عجم، اصفہان، دینور، سیمرہ، سیروان، ہمدان، ماہین، جرجان، طبرستان ، واجرود، ابہر، برقہ، طرابلس، آذربائجان، موقان، خراسان، توج، اصطخر، سجستان، مکران، بیروذ، جزیرہ تینس، آرمینیہ وغیرہ مفتوح ہوگئے اور یہاں پر اسلامی سلطنت کا قیام عمل میں آیا اور اسی دور میں غیر مسلموں سے اکثر تعلقات قائم ہونے شروع ہوئے اس پس منظر میں اگر ہم عہد فاروقی کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ تاجدار عدل و انصاف نے باوجود رعب و دبدبہ اور حکومت و سلطنت کے اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کا برتائو روا رکھا کسی قسم کا کوئی تعصب نہیں برتا گیا ۔ چنانچہ مورخین اسلام نے لکھا ہے کہ بکر بن وائل کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے حنین نامی مسلمان نے حیرہ کے ایک عیسائی کو قتل کردیا جب اس کی اطلاع خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کو ملی تو آپ نے قصاص لینے کا حکم جاری فرمایا ۔(زیلعی تخریج ہدایہ مطبوعہ دہلی صفحہ نمبر 338,339 بحوالہ مقالات شبلی)

ایسا ہی ایک واقعہ عمر بن عبدالعزیز (جو عمر ثانی کے نام سے جانتے جاتے ہیں) کے دور میں بھی پیش آیا تو آپ نے بھی اس معاملہ میں فاروق اعظمؓ کی پیروی کی۔فاروق اعظم ؓ کے بڑے صاحبزادے عبید اللہ نے فیروز (فاروق اعظمؓ کا قاتل جو مجوسی النسل اور عیسائی تھا) کے بیٹے جفنیتہ اور ہرمزان نامی شخص کو والد کے قتل کی سازش میں شامل ہونے کے شبہ میں قتل کردیا اس معاملہ کو سلجھانے کے لیے جب حضرت سیدنا عثمان غنیؓ نے مشاورت کے لیے اجلہ صحابہ کرام کو مدعو کیا تو تمام صحابہؓ  بشمول  حضرت سیدنا علی مرتضیؓ نے بیک زبان ہوکر کہا ان سے قصاص لیا جائے ۔ عہد عثمانی ؓ میں کوفہ کے بہت بڑے محدث اور مشہور تابعی حضرت سیدنا جندب بن کعب ازدی ؓ جن کے تبحر علمی اور جلالت شان کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کے متعدد روایتیں جامع ترمذی میں موجود ہیں۔

آپ نے ایک مرتبہ ایک عیسائی کو دیکھا کہ وہ شعبدہ بازی میں مصروف ہے اور لوگوں کو لہو و لعب میں مبتلا کرکے ان کی تضیئع اوقات کررہا ہے تو آپ نے اس کو طمانچہ رسید کیا اور وہ وہیں پرڈھیر ہوگیا جب اس کی اطلاع خلیفہ سوم حضرت سیدنا عثمان غنی ؓ کو ملی تو آپ نے کوفہ کے گورنر ولید بن عقبہ ؓ  کو لکھ بھیجا کہ ان سے قصاص لیا جائے ۔ خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی مرتضی ؓ کے عہد زریں میں ایک یہودی نے آپ پر زراہ کا دعوی کیا تو آپ نے امیر المومنین ہونے کے باوجود عدالت میں حاضری دینے کو عار نہیں سمجھا بلکہ آپ نے عدالت میں حاضر ہوکر قانون کے وقار اور بالا دستی کو نمایاں فرمایا  اور عدل وانصاف کی بنیادوں کو مستحکم فرمایا جو تعلیمات اسلامی ہی کا اثر تھا۔ بعض روایتوں میں حضرت علیؓ کا یہ قول بھی ملتا ہے کہ آپ نے فرمایا ذمیوں کا خون ہمارا خون اور ان کا خون بہا ہمارا خون بہا ہے۔ اسلامی حکمرانی دورکے اس سرسری جائزہ سے یہ بات اظہر من الشمس وابین من الامس ہوجاتی ہے کہ مسلم حکمرانوں نے عدل و انصاف کو قائم کرنے میں بڑی مستعدی اور جانفشانی سے کام لیا ہے اس میں کسی قسم کا بھید بھائو پیدا ہونے نہیں دیا جو تعلیمات اسلامی کا لب و لباب اور خدا اور اس کے رسول ذی حشم ﷺ کی رضا و خوشنودی کا سبب ہے ۔  چونکہ غیروں کے ساتھ عدل و انصاف کرنا فطرت انسانی کے لیے انتہائی دشوار کن مرحلہ ہے لیکن ایسے نازک موڑ پر بھی عدل و انصاف کو اللہ تعالی نے یہ کہتے ہوئے استحکام بخشا کہ عدالت تقویٰ سے قریب ہے۔ تقوی تقرب الہی کا واسطہ ، فلاح و کامرانی کا ضامن، قبولیت اعمال کا ذریعہ ، رشدو ہدایت کا باعث، گناہوں کی بخشش کا موجب، دخول جنت کا وسیلہ ، حکمت و دانائی کی اساس،  شرافت و بزرگی کی بنیاد، توبہ و استغفار کا معیار، صاحب ایمان ہونے کا شعار، حصول رحمت کردگار کی وجہ ، خوف و دہشت ، حزن و ملال سے چھٹکارے کا مژدہ جانفزا،  منتہائے کامیابی میں  مددگار،  ولایت و معیت کردگار کی کسوٹی، حسنات کا محافظ، سیئات کا دشمن، اسوۃ صالحین کا تابناک پہلو ہے۔تقوی کے ان محاسن کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے کردار میں عدل و انصاف کا عنصر بدرجہ اتم موجود رہے۔ پیر طریقت حضرت العلامہ ابو القاسم شاہ سید عبدالوہاب حسینی القادری الملتانی ؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’عدل و انصاف کرنے میں مظلوم سے کہیں زیادہ  خود منصف کا فائدہ ہے ایک تو یہ کہ اس کے کردار میں پاکیزگی اور شفافیت پیدا ہوجاتی ہے دوسرے یہ کہ وہ غیروں کے ظلم و استبدادسے محفوظ ہوجاتا ہے چونکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم کسی پر ظلم نہیں کروگے تو تم پر کوئی ظالم حکمراں کو مسلط نہیں کیا جائے گا۔اور ایک سالک کے لیے عدل و انصاف اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ تقوی سے قریب ہے اور تقوی تصوف کی بنیاد ہے اس کے بغیر جادہ طریقت پر گامزن ہونا ایک خام خیالی ہے‘‘۔ عدل و انصاف کرنے والوں کی اہمیت و فضیلت نہ صرف مسلم ہے بلکہ ان متبرک ہستیوں کو اگر کوئی قتل کرے تو اللہ تعالی نے ان کے لیے  عذاب الیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔  ارشاد ربانی ہے  {ویقتلون الذین یامرون بالقسط من الناس فبشرھم بعذاب الیم } اور قتل کرتے ہیںان لوگوں کو جوحکم کرتے ہیںعدل وانصاف کا لوگوں میں سے تو خوشخبری دو انہیں دردناک عذاب کی۔

اس آیت پاک سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عدل وانصاف کرنے والے کی نہ صرف دنیا معترف ہوجاتی ہے بلکہ اس کے خالق کائنات کی مدد و نصرت شامل حال رہتی ہے آج کی مادی ترقی یافتہ دنیا میں سب کچھ ہونے کے باوجود امن و سکون کے نہ ہونے کی اگر کوئی وجہ ہے تو ان اصول و ضوابط سے روگردانی ہے ۔ بعض اوقات حاکم وقت کے دھوکہ دینے کے لیے عوام الناس مختلف حیلہ اور بہانے اختیار کرتے ہیں جس کے عدل و انصاف کو زبردست ٹھیس پہنچتی ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم نے عوام الناس کو ان حرکات سے باز رہنے کا حکم فرمایا ہے ارشاد ربانی ہے { ولا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل و تدلوا بھآ الی الحکام لتاکلوا فریقاً من اموال الناس بالاثم و انتم تعلمون } (2/188)ترجمہ :۔ اور نہ کھائو ایک دوسرے کا مال آپس میں ناجائز طریقہ سے اور نہ رسائی حاصل کرو اس مال سے (رشوت دیکر) حاکموں تک تاکہ یوں کھائو کچھ حصہ لوگوں کے مال کا ظلم سے حالانکہ تم جانتے ہو (کہ اللہ نے یہ حرام کیا ہے)۔ آئے دن ایسے کئی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں کہ حاکم وقت کو تحائف و ہدایا یا رشوت دیکر اس بات کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح حقیقت ملتبس ہوجائے تاکہ حقدار کو حق ملنے نہ پائے جو عدل و انصاف کے سراسر مغائر ہے اسی لیے اللہ تعالی نے ان تمام انسانیت سوز سرگرمیوںپر پابندی لگا دی تاکہ معاشرے میں عدل و انصاف رائج ہوجائے ۔ ایک مجلس عام میں سرور کائناتؐ  تقریر  فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ پہلے کی بہت سی قومیں صرف اس سبب سے ہلاک و تباہ ہوگئیں کہ وہ غریبوں کے لیے سخت قوانین کو نافذ کرتی تھیں اور امراء  کے ساتھ نرم برتائو کیا کرتی تھیں (بخاری شریف)۔

مذکورہ بالا سطور میں ان امور کی صراحت کی گئی ہے جو عدل و انصاف کے آئینہ کو خارجی طور پر نقصان پہنچاسکتے تھے لیکن اس سے کہیں زیادہ ایک حساس پہلو وہ ہے جو داخلی طور پر نظامِ حکومت کے ارکان و اساطین اور عدل و انصاف کی عمارت کو متزلزل کردیتا ہے اور وہ ہے نفس ۔ اسی لیے اللہ تعالی نے فرمایا { یاداود انا جعلنٰک خلیفۃ فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولا تتبع الھویٰ فیضلک عن سبیل اللہ ان الدین یضلون عن سبیل اللہ لھم عذاب شدید} (38/26) ترجمہ :۔ اے دائود ہم نے مقرر کیا ہے آپ کو (اپنا) نائب زمین میں پس فیصلہ کیا کرو لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ اور نہ پیروی کیا کرو ہوائے نفس کی وہ بہکادے گی تمہیں راہ خدا سے بیشک جو لوگ بھٹک جاتے ہیں راہ خدا سے ان کے لیے سخت عذاب ہے۔اس آیت پاک میں  فیصلہ سازی اور انصاف پسندی میں خواہشات نفس کی دخل اندازی و آمیزش سے منع کیا گیا اگر کوئی شخص عدل و انصاف میں اپنے نفس سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالی فرماتا ہے کہ وہ نہ صرف راہ راست (جس پر چلانے کی خواہش ہم خدا سے ہر نماز میں کرتے ہیں)سے بھٹک جائے گا بلکہ وہ سخت عذاب میں گرفتار ہوجائے گا۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے جسٹس پیر محمد کرم شاہ ازہری رقمطراز ہیں کہ ’’سربراہ مملکت کے لیے اسلام نے بادشاہ، سلطان، چیئرمین وغیرہ کلیمات پسند نہیں کیے کیونکہ ان میں خودسری اور انانیت کی بو آتی ہے بلکہ خلیفہ کا لفظ تجویز کیا ہے جس کے معنی خود سراور مختار کے نہیں بلکہ نائب اور قائم مقام کے ہیں۔

یہ لفظ ہی بتا رہا ہے کہ مملکت اسلامیہ کا سربراہ اپنے رب کا نائب ہے اور نائب کا کام اپنے آقا کے احکام کی تعمیل کرنا ہے اور اس کے ارشادات کے مطابق اس کے دیے ہوئے اختیارات کو استعمال کرنا ہے ۔ یہ وہ فرق ہے جو دنیا کے دوسرے نظاموں اور اسلام کے نظامِ سیاست میں بنیادی اہمیت کا مالک ہے‘‘ (ضیاء القرآن )۔ محولہ بالا آیت کریمہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حاکم وقت بننا بڑی بات نہیں ہے بلکہ حکمرانی کے فرائض انجام دینا یہ بہت بڑی بات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام جن کو {رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ}  کا مژدہ جانفزا اور ’’عدول‘‘ کا تمغہ بے نظیر ملنے کے باوجود بھی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے سے گھبراتے تھے چنانچہ  حضرت معقل بن یسارؓ کوجب فخر موجودات ؐ نے قبیلہ مزنیہ کا قاضی مقرر کرنا چاہا تو آپ نے یہ کہتے ہوئے معذرت خواہی کی کہ میں نہ اس ذمہ داری کو سنبھالنے کی اہلیت رکھتا ہوں اور نہ ہی اچھی طرح فیصلہ کرسکتا ہوں ۔ جب لسان نبوت سے  یہ سنا کہ خدا قاضی کے ساتھ اس وقت تک رہتا ہے جب وہ عمداً ظلم و ناانصافی نہیں کرتا تب آپ کو قلبی اطمینان ہوا اور آپ نے قاضی بننا قبول فرمایا (مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ نمبر 577)۔

حکمرانی کے اس نہج اور طریقہ کو فروغ دینا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس دور کو مادی ترقی و دیگر وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی ’’خیر القرون‘‘ کہا گیا چونکہ یہ حقیقت ہے کہ انسان کی پہچان اس کے اخلاق سے ہے نہ کہ مادی ترقیات سے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تمام وسائل بشمول جدید عصری آلات، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا وغیرہ ہونے کے باوجود بھی نظامِ سیاست میں بے شمار خرابیاں موجود ہیں جس کا سد باب تعلیمات اسلامی پر عمل پیرائی  ہی سے ممکن ہے۔ لیکن صدحیف کے قومی حکمرانی ہو یا بین الاقوامی  حکمرانی ہر دو کا طرز ان اصول سے یکسر عاری ہے جس پر طنز کے نشتر برساتے ہوئے پروفیسر سید عطاء اللہ حسینی القادری الملتانی فرماتے ہیں۔

کس نے یہ کہا تم سے، بھلائی کرلو

ہوجائے جو ممکن، وہ برائی کرلو

کیا بندے بنے پھرتے ہو تم نادانو!

کرسی جو ملی ہے تو خدائی کرلو

تبصرے بند ہیں۔