انتخابی نتائج اور ہمارا لائحہ عمل

بشری ناہید

  ہم اقلیت میں ہیں، اس لئے انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے ملک میں دن بدن فرقہ پرستی بڑھ رہی ہیں ہماری ہار یقینی ہے – حالیہ پارلیمانی نتائج  بتاتے ہیں کہ یہ ایک کڑوی حقیقت ہے  –  اور اسی فرقہ پرست طاقتوں کے ظلم و جبر کے باعث عرصہ دراز سے ہم نام نہاد سیکولر طاقتوں کو سپورٹ کرتے اور ووٹ دیتے چلے آرہے ہیں حالانکہ ان سیکیولر کہلائی جانے والی پارٹیوں نے بھی ہماری معصومیت سے صرف فائدہ اٹھانے کا  اور پس پردہ ہمیں نقصان پہنچانے کا ہی کام کیا ہے –

اب ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانے کی  اور آئندہ کے لئے ابھی سے حکمت عملی کے طور پر کچھ چیزیں اختیار کرنے اورکچھ تر ک کرنے کی ضرورت ہیں –

اور اسی کی روشنی میں مستقبل کا لائحہ عمل بنانے کی بھی ضرورت ہیں-

ایک فکر ایک جذبہ اور تڑپ آپس میں پیدا کرنے کی ضرورت ہیں آج  جو لوگ اقتدار میں ہیں ان کی فکری ہم آہنگی’ مضبوط تنظیمی نظام ‘ آپس کا تال میل اور اتحاد باطل کی کامیابی کے لئے  کڑی محنت و جد و جہد ہے جس کے نتائج ہم دیکھ رہے ہیں –

سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ لوگ جھوٹ کے ساتھ  فریب اور دھوکہ دہی کے لئے اتنی کڑی محنت کرتے ہیں تو  ہم سچ کے ساتھ حق اور عدل و انصاف کے لئے ایسی محنت کیوں نہیں کر سکتے ؟

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ موجودہ نتائج میں کوئی دھاندلی نہیں ہوئی تب بھی واضح ہے کہ اکثریت خلاف ہیں صرف بی جے پی کو %38 اور  این ڈی کو ملا کر % 45  سیٹیں ملی ہیں یعنی % 55 فیصد لو گ مخالفت میں ہیں اور جن کی حمایت سے یہ اقتدار میں آئی ہیں وہ اب بھی تناسب کے اعتبار سے کم ہے-  لہذا  ہمیں مایوس ہو کر کسی خوف میں پڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ جو مخالف اکثریت ہے اسکو مذہبی منافرت ‘ تعصب،  عصبیت و عناد کے عناصر سے  انکے ذہن کو پراگندہ ہونے سے بچایا جائے اور اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کی مخالصانہ کوشش کی جائے –

اب برسوں سے چلی آرہی غلامانہ سوچ کو بدل کر نئے لائحہ عمل کے ساتھ آئندہ کی منصوبہ بندی ہمیں کرنی ھوگی-

اس کے لئے انفرادی و اجتماعی سطحوں پر  کچھ باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہیں جیسے

مسلم تنظیمیں ہو یا پارٹیاں نام نہاد سیکولر طاقتوں کی تائید کرنا، اور انکے لئے ووٹنگ کی اپیل کرنا، اس کو ہرانے کے لئے اسکو ووٹ دو کہنا اور  باقاعدہ ان کا اعلان کرنا بند کردینا ہوگا-

فاشسٹ یا فسطائی طاقتیں کہنا چھوڑ دیں اور اس تعلق سے اجتماعی اشاعت بند کر نی ہوگی –

ہم عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کسی پارٹی یا شخص کی حمایت کریں نہ کہ کسی ہرانے کے لئے –

حکومت پر تنقیدیں کرنا بھی بند کرنا ہوگا ساتھ ہی اقلیتوں پر کئے جانے والے مظالم کے واقعات کی کسی بھی طرح سے کی جانے والی تشہیر کو روکنا ہوگا اسطرح ہم ان اکثریت کو فائدہ پہنچانے کا کام غیر شعوری طور پر کر دیتے ہیں اور فرقہ پرستی کو فروغ ملتا ہے اسطرح کے مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے بجائے قانونی کاروائی کرکے  پھر اس کی اشاعت کرنی چاہیئے تاکہ ظالمانہ ذہنیت کے لوگوں کے حوصلے پست ہو جائے-

  کچھ سال سیاست پر بحث و مباحثہ نہ ہی کریں تو بہتر ھوگا

 اس کے بجائے عملی میدان میں قدم رکھا جائے تو یہ نتیجہ خیز ہو گا –

 ڈاکٹر سلیم خان صاحب ا پنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ کسی پارٹی کو جیتانا ہماری ذمہ داری نہیں ہیں لیکن دعوت دین ہمارا دینی فریضہ ہے لہذا اپنی ا صل ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کریں بالفاظ دیگر نظام کانگریس کو قائم کرنے کی کوشش کے بجائے نظام مصطفی قائم کرنے کے لئے دعوت کالازمی فریضہ انجام دینے کی کوشش کرنا چاہیئے۔

آج ضرورت ہیں کہ ملت اپنے اندر فکری ہم آہنگی پیدا کریں اور دیگر پسماندہ سماج سے مضبوط سماجی روابط استوار کریں جسطرح اور نگ آباد میں امتیاز جلیل صاحب نے کیا اور کامیاب ہوئے- یہی اورنگ آباد پیٹرن پورے ملک میں مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقات نے مل کر اختیار کرنا چاہیئے انشاءاللہ  اسکے بہتر اور مثبت نتائج ہم مستقبل میں دیکھ سکے گیں-  اس کا  فائدہ یہ ھوگا کہ باطل کے مقابل ایک مضبوط اجتماعیت تیار ہوگی  اور ہماری دعوت کے نتیجے میں اللہ ان ہی میں سے اسلام کے محافظوں کو اٹھائے گا انشاءاللہ-

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔