تقوی کے ظاہری و باطنی پہلو (آخری قسط)

محمد عبد اللہ جاوید

 آپ جانتے ہیں کہ روزہ دار کو‘ تقوی کے حوالے سے تین خوبیاں میسر آتی ہیں‘اللہ تعالیٰ کی محبت کا احساس‘اس سے خوف کرنے والا دل اورنتیجتاً ہر عمل کو حسن وخوبصورتی سے انجام دینے کا جذبہ وسلیقہ۔ان خوبیوں کے ساتھ ساری زندگی گزارنا دراصل وہ کمال ہے جس تک پہنچنے کی ہرروزہ دار کی کوشش ہونی چاہئے۔ کمال تک پہنچنے کی یہ کوشش قرآن مجید سے گہرے تعلق کی ایک اہم بنیاد ہو ‘پھر متذکرہ خوبیاںپروان  چڑھانے کی غرض سے اسکاگہرا مطالعہ‘آیات پرتدبر اور تسلسل کے ساتھ عمل کااہتمام بھی۔

 قرآن اور احساس محبت

پہلی خوبی‘ احساس محبت کو لیجئے۔روزہ کے دوران اللہ تعالیٰ کی محبت کا بکثرت اظہارہوتا رہتا ہے۔ روزہ دار کی شب وروز کی عبادات اور مختلف معاملات‘ اسی محبت کا عکس ہواکرتی ہیں۔ اس محبت کی تازگی اوراس کا ہمیشہ باقی رہنا قرآن مجید سے ایک خاص قسم کا ربط وتعلق چاہتا ہے۔جب محبت کے اس پہلو کے پیش نظر قرآن مجید کا مطالعہ ہو توبلاشبہ یہ غالب تاثر بنے گا کہ یہ کتاب  محبت کی انتہائی دلکش اوردل موہ لینے والی دنیا پیش کرتی ہے۔اس کا آغازرب ذوالجلال والاکرام کی ذات بابرکت کے انتہائی حسین وجمیل تعارف سے ہوتا ہے۔وہ سراپارحمت ومحبت‘ جودوکرم اور اعلی مرتب ہستی ہے جواپنی ذات میں آپ محمود اور بندوں کیلئے انتہائی شفیق و مہربان ہے۔

محبت کے تناور درخت کا اگنا‘ تعارف ہی کے بیج سے ممکن ہوتا ہے۔بغیر تعارف کے اجنبیت کے پردے‘ محبت کی راہ میں زبردست رکاوٹ بن جاتے ہیں۔اسلئے قرآن مجید اللہ کا تعارف مختلف جہتوں اور زاویوں سے کراتا ہے‘ان میں سے چند ایک  کی مختصروضاحت ذیل میں درج ہے:

رب کی بابرکت ذات کاتعارف

وہ اللہ ہی کی ہستی ہے جسکی طاقت سب سے بالاتر اور جسکی حکمت نظام عالم میں کارفرما ہے۔)سورہ آل عمران: ۶۲(۔

اسی کے لئے حمد ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔(سورہ القصص: ۷۰)۔

اللہ تمہارا رب ہے ہر چیز کا خالق‘ اسکے سوا کوئی معبود نہیں ۔  (سورہ المومن: ۶۲)۔

وہی ہے جس نے سورج کو اجیالا بنایا اور چاند کو چمک دی  اور ان کیلئے منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور حساب معلوم کرلیا کرو۔(سورہ یونس: ۵)۔

وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا ہے۔ (سورہ الزخرف: ۸۴)……وغیرہ

رب کی صفات کو قرآن مجید ہمارے سامنے اس تاکید کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ انہیں کے ذریعہ اس کو پکارنا چاہئے۔ایک ایک صفت‘ رب کی عظیم ہستی کے بڑے ہی دلکش پہلو ظاہر کرتی ہے

اس کے سوا کوئی تمہاری خبر گیری کرنے والا اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں۔(سورہ البقرہ: ۱۰۷)۔

یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق اور رحیم ہے۔(سورہ البقرۃ: ۱۴۳)۔

یقینا اللہ سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے۔(سورہ النساء: ۱۱)

بڑی برکت والا ہے تیرے رب جلیل و کریم کا نام ۔(سورہ الرحمن: ۷۸)۔

وہی اوّل بھی ہے اور آخر بھی ، اور ظاہر بھی ہے اور مخفی بھی اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔(سورہ الحدید: ۳ )۔ ……وغیرہ

رب کے کمالات وقدرت کے کرشموں کے دل نشین ذکرسے قرآن مجیدہمارے دل موہ لیتاہے

وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گرتا۔(سورہ الحج: ۶۵)۔

اللہ ہی نے تمہارے لئے یہ مویشی جانور بنائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی پر تم سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ۔(سورہ المومن: ۷۹)۔

وہی ہے جس نے تمہارے لئے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایاتاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو۔(سورہ الزخرف: ۱۲)۔

وہی رات کو دن میں اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔(سورہ الحدید:۶)۔

کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر تمہارے کنوؤں کا پانی زمین میں اتر جائے تو کون ہے جو اس پانی کی بہتی ہوئی سوتیں تمہیں نکال کر لادیگا؟(سورہ الملک: ۳۰) ……وغیرہ

پھریہ کتاب رب کے عظیم احسانات ونعمتوں کے ذریعہ اس کی عظمت وجلال کے کئی پہلو منکشف کرتی ہے

وہ اللہ ہی ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹ میں تمہاری صورتیں جیسی چاہتاہے بناتا ہے۔(سورہ آل عمران: ۶)۔

کشتی کو تمہارے لئے مسخر کیا کہ سمندر میں اسکے حکم سے چلے اوردریاؤں کو تمہارے لئے مسخر کیا۔(سورہ ابراہیم ؑ: ۳۲)۔

وہی آسمان کو اس طرح تھامے ہوئے ہے کہ اس کے اذن کے بغیر وہ زمین پر نہیں گرتا۔(سورہ الحج: ۶۵)۔

کتنے ہی جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے‘ اللہ ان کو رزق دیتا ہے اور تمہارا رازق بھی وہی ہے۔(سورہ العنکبوت: ۶۰)۔

وہی ہے جس نے تمہارے لئے اس زمین کو گہوارہ بنایا اور اسمیں تمہاری خاطرراستے بنادیے تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پاسکو۔(سورہ الزخرف: ۱۰)……وغیرہ

اسکے بعدقرآن مجید دنیا میں آنے والی انتہائی برگزیدہ ہستیاں حضرات انبیا علیھم السلام کی زندگیاں پیش کرتا ہے جو اپنے رب سے بے پناہ تعلق کو یہ کہہ کرواضح فرماتے ہیں کہ میرا اجر تو ربّ العالمین کے ذمّہ ہے (إِنْ أَجْرِیَ إِلَّا عَلَی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ… سورہ الشعراء: ۱۰۹) اور مخاطبین کو اے میری قوم کے لوگو کہہ کر ان سے محبت وخیر خواہی کے جذبات ظاہر فرماتے ہیں۔حضرات انبیاعلیھم السلام کی زندگیوں کے یہ تعلق باللہ اور تعلق بالخلق کے پہلوقرآن مجید مختلف انداز سے واضح کرتا ہے۔یوں تو جابجا ان کا ذکر ملتا ہے تاہم سورہ ھود‘ سورہ مریم‘ سورہ الشعراء اور سورہ الصافات  وغیرہ کا بطور خاص مطالعہ مفید رہے گا۔

اس تسلسل کوبرقرار رکھتے ہوئے قرآن مجید ایمان کامل اور ایمان مجمل کی ایک لازمی شرط کے طور پر محبت کوپیش کرتے ہوئے اعلان کرتا ہے کہ ایمان لانے والے نہ صرف سب سے بڑھ کراللہ تعالیٰ سے شدید محبت کرتے ہیں بلکہ ان کی یہ محبت حبیب خداﷺ کیلئے بھی اسی تسلسل کے ساتھ قائم ودائم رہتی ہے(فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ…. سورہ آل عمران: ۳۱)۔ یہ دونوں محبتیں ان کی ایمانی زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ان کے پیش نظر یہ ارشاد نبوی ﷺ کا یہ فرمان ہوتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کیلئے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی محبت دنیا کی تمام چیزوں سے بڑھ کر ہونی چاہئے۔( مَنْ کَانَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أَحَبُّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَا ہُمَا…مسلم)۔

آخر میں قرآن مجید اس محبت کو ان تمام اعمال کا اصل محرک بتاتا ہے جو اللہ واسطے انجام دیئے جاتے ہیں‘ جن کا ذکر اوپر گزرچکا ہے…….. محبت آمیز اعمال اپنی کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔ حتی کہ یہ محبت‘رب کی رضا کیلئے ساری زندگی ہی لٹا دینے کا محرک بن جاتی ہے۔( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ…. سورہ البقرہ:۲۰۷)۔جب اہل ایمان ایسی محبت کے ساتھ استقلال سے عمل صالح انجام دیتے ہیں تو بدلے میں خدائے رحمن لوگوں کے دلوں میں ان کے لئے عزت وتکریم اور دلی محبت کے جذبات ودیعت فرمادیتا ہے۔( …سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا…. سورہ مریم: ۹۶)۔لوگوں کے دلوں کو جیتنے اور ان کی محبتوں کو پانے کا بس یہی ایک صحیح اور سچا طریقہ ہے اس کے علاوہ کوئی اور نہیں۔فی زمانہ قیادت کے نام پر جو نمودونمائش اورہرطرح کے مکر وفریب سے کام لیا جاتا ہے وہ وقتی کامیابی کا تو ذریعہ بن سکتا ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ عوام اپنے ان نام نہاد قائد ین کو دل سے چاہیں اور ان کی زندگیوں کو اپنے لئے آئیڈیل مانیں۔

اللہ واسطے سے ہوکر بندوں کے دلوں تک پہنچنے والی یہ محبت ہی وہ معیار ہے جس پر کھرا اترتے ہوئے قومیں سربلند ہوتی ہیں۔جن افراد کی زندگیاں اللہ کی محبت کی آئینہ رہی ہوں‘ ان کے اعمال کا عکس نہ صرف ان کے اپنے زمانے میں بلکہ بعد کیلئے بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑجاتا ہے۔اور یہ حقیقت واضح کرجاتا ہے کہ ماضی اورحال کا ہر عمل یا واقعہ تاریخ نہیں بنتا جب تک کہ اس کو انجام دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت کا ثبوت انتہائی اخلاص‘دیانت داری اور فرض شناسی سے نہ دیاجائے۔

امت محمدیہ ﷺ کے لئے سیدنا ابراہیم ؑ اور ان کے اہل وعیال کی زندگیوں کو آئیڈیل اس لئے بتایا گیا (قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ… سورہ الممتحنہ:۴) کہ ان کی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی محبت کی مجسم رہیں۔ قرآن مجید اعلان کرتا ہے کہ سیدنا ابراہیم ؑاور سیدنا اسماعیل ؑ کی قربانی یاد گاراس لئے رہی کہ انہوں نے احسان کی روش اختیار کی تھی…. لہذا صاف صاف واضح کردیا کہ:

وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الآخِرِينَ oسَلامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَoكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ

ابراہیمؑ کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیمؑ پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔( سورہ الصافات:۱۰۸ تا۱۱۰)۔

یوں قرآن مجید میں اللہ کی محبت کے فاتح عالم ہونے کی حقیقت پر تصدیق کی خدائی مہر ثبت کردی گئی۔

اگر کسی زمانے میں رہنے بسنے والے افراد ملت صبر واستقلال اور اعمال صالحہ کے ذریعہ اللہ سے ایسی محبت کا ثبوت نہ دیں توپھر اللہ تعالی کوئی دوسری قوم لے آئے گا وہ اس سے محبت کرے گی اوراللہ بھی اس سے محبت کرے گا۔(سورہ المائدہ: ۵۴)۔

گویا روزہ اور تقوی کے ذریعہ رب کریم ہمارے اندر اپنی وہ لازوال محبت پیدا فرماتا ہے جس سے نہ صرف چند دن بلکہ ساری زندگی صراط مستقیم پر گزرے‘ ہر عمل دنیا وآخرت میں عزت وسربلندی کا ذریعہ بنے۔اور بحیثیت مجمومی افراد ملت زمانہ میں اپنے انمٹ تاریخی نقوش چھوڑنے میں کامیاب ہوں۔ روزوں سے حاصل ہونے والے تقوی کیلئے اللہ کی محبت کا یہ پہلو‘ اس کی تمام کیفیات کا مکمل شعور اور انہیں باقی رکھنے کا عزم اگرہدف بن جائے تو بقیہ زندگی‘ تقوی کی زندگی ہو…یہ عین ممکن ہے۔

 قرآن مجید اور اللہ کا خوف

اہل ایمان کیلئے اللہ کا خوف‘ محبت ہی کا ایک پہلو ہے جومختلف انداز سے ظاہر ہوتا ہے جبکہ عام انسانوں سے اللہ سے ڈرنے کا مطالبہ اس فطرت کی بنا کیا گیا ہے جس پر ان کی تخلیق کی گئی ہے۔ہر انسان کی شرست میں خدا کی عظمت وجلالت اور اس کی بزرگی و تقدس ودیعت کردی گئی ہے۔عام انسانوں سے اسی فطری حقیقت کے پیش نظر خدا سے ڈرنے کامطالبہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں کہا گیا کہ خدا سے اسی طرح خوف کرنا چاہئے جیسا کہ اس سے خوف کرنے کا حق ہے۔یعنی خوف ایسا جو دنیا کے ہر قسم کے خوف اور تحفظات سے بڑھ کر ہو‘ہر قسم کے نقصانات اور خدشات سے بالاتر ہو۔دنیا کے مختلف مقامات پر مختلف زمانوں میں آنے والےپیغمبروں اور رسولوں نے اپنی قوم سے اسی خوف خدا کا مطالبہ کیا ہے جو نفس پرستی‘ خدا بیزاری‘ بے راہ روی اور تمام ترشرکیہ اعمال سے ایک طرح سے برات کا اعلان رہا۔اس لئے تقریباًتمام ہی پیغمبروں اور رسولوں کی دعوت کامشترک کلمہ – اے میری قوم کے لوگو، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارے لیے کوئی معبُود نہیں ہے، کیا تم اس سےڈرتے نہیں ہو؟ – رہا ہے۔ سورہ المومنون:۲۳۔

اہل ایمان سے اللہ سے ڈرنے کا مطالبہ‘اس کی عظمت وہیبت کے علاوہ ان تمام کیفیات کے پیش نظر کیا گیا ہے جن سے اللہ سے محبت‘ اور ان کے دلوں میں موجوداس کی بزرگی وجلال کا تصور ظاہر ہوتا ہے۔یعنی اللہ کے بندے اللہ سےڈرتے ہیں اس لئے کہ وہ:

سچے ایمان والے ہیں۔(سورہ المائدہ: ۵)۔

عقل والے ہیں۔(سورہ المائدہ: ۱۰۰)۔

اسکو ایمان کا تقاضہ سمجھتے ہیں۔(سورہ التوبہ: ۱۱۹)۔

اس کے علاوہ اہل ایمان کےاللہ سے ڈرنے کی مختلف کیفیات میں سے چند یہ ہیں:

عذاب آخرت کا خوف۔(سورہ ھود: ۱۰۳)۔اللہ تعالیٰ کی وعید سے خوف۔(سورہ ابراھیم: ۱۴)۔اللہ کے سامنے کھڑے رہنے کا خوف۔(سورہ النازعات: ۰ ۴)۔رب کی نافرمانی کا خوف۔(سورہ الانعام: ۱۵)۔بے دیکھے رحمان سے ڈرنا۔(سورہ یس:۱۱)۔اللہ سے ڈرنا جیسے ڈرنےکا حق ہے۔(سورہ التوبہ: ۲ ۱)۔اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور اس کے سامنے اعمال پیش کرنے کا ڈر۔(سورہ البقرہ: ۳ ۲۲)۔اس بات سے ڈرنا کہ اللہ تعالیٰ کوہر چیز کا علم ہے۔(سورہ البقرہ: ۲۳۱)۔ رب کے حضور پیش ہونے کے یقین کے ساتھ نافرمانی سے ڈرنا۔(سورہ المائدہ:۸۸)۔معاملات میں آسانی کیلئے اللہ کا ڈر اختیار کرنا۔(سورہ الطلاق: ۵)۔وغیرہ۔

رب کے خوف کے ایک ہمہ گیر تصور کے ساتھ گزرنے والی زندگی‘ سراسراخلاص اورعمل پرمبنی زندگی ہوتی ہے۔ اللہ سے ڈر کا یہ پہلو‘ اس سے ملاقات کا انتہائی گہرا یقین ظاہر کرتا ہے۔کسی کا نیک بنے رہنا اور نیک روش پر صبر واستقلال کے ساتھ چلتے رہنا‘ رب کاخوف اور رب سے ملاقات کے گہرے یقین کی بڑی واضح دلیل ہے۔( فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلا صَالِحًا…. سورہ الکہف:۱۱۰

رب سے محبت اور خوف کی ملی جلی کیفیات‘ جنہیں قرآن نے خوف وطمع اور رغبت ورہبت سے بھی تعبیر کیا ہے‘فرد کی زندگی کو تقوی کی زندگی میں ڈھال دیتی ہیں۔

قرآن مجید اور حسن بندگی

اللہ کی محبت اور خوف کے مثالی اوصاف کی بنا‘ اہل ایمان کی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیاں‘بندگی رب کے بڑے ہی دلکش نمونے پیش کرتی ہیں۔یوں کہئے کہ قرآن مجید محبت اور خوف کے انسانی زندگی پر اثرات ‘ بندگی کے انتہائی خوبصورت طریقوں کے ذریعہ واضح کرتا ہے۔یعنی اہل ایمان کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت‘ ان کی عبادات میں خشوع وخضوع‘ ان کے ذکر و اذکار میں گریہ وزاری‘ ان کی دعاؤں میں دلجمعی ویقین‘ ان کی گفتگو میں نرمی و متانت‘ ان کے معاملات میں شفافیت‘ ان کی انسانوں سے خیر خواہی… یوں معلوم ہوتا ہے حسن بندگی کے ان تمام مظاہر سے کبھی ان کے دلوں میں موجود اللہ کی محبت تو کبھی اس کا خوف جھلک رہاہے۔اور وہ مثالی بندگی کی آئینہ دار زندگی کے امین ہیں۔

یوں توقرآن مجید میں بندگی کے مختلف پہلوؤں پر بڑی تفصیلات موجود ہیں‘ لیکن ہم یہاں مختصرا محبت اور خوف کے حوالے سے ان اعمال صالح کا ذکر کررہے ہیں‘ جن سے حسن بندگی کے مختلف پہلو واضح ہوتے ہیں:

اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے نماز قائم کرنا آسان ہے۔(سورہ البقرہ:۴۵)۔اللہ کی محبت‘دن رات اسے پکارنے اور اسکی خوشنودی کیلئے تگ ودو کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔(سورہ المائدہ:۵۲)۔اللہ کی رضا پیش نظر ہو توجان لڑادینا آسان ہوجاتا ہے۔(سورہ البقرہ:۲۰۷)۔اللہ کا ڈر‘ شیطان کی اکساہٹوں سے پناہ چاہنے کا محرک بنتا ہے۔(سورہ المومنون: ۹۷)۔برائی اورظلم سے بچنا‘ اللہ کے خوف ہی سے ممکن ہے۔(سورہ النساء:۱۱)۔اللہ سے محبت‘ اللہ پر توکل کا محرک بنتی ہے۔(سورہ ھود:۶ ۵)۔اللہ سے محبت‘ شرک سے بچنے کا ذریعہ ہے۔(سورہ الکہف:۸ ۳)۔اللہ کا خوف‘ اللہ سے مزید ڈرنے کا محرک ہوتا ہے۔(سورہ التوبہ: ۳ ۱)۔اللہ کی سخت گرفت کا خوف‘ اس کے حضور گڑگڑانے کا سبب بنتا ہے۔(سورہ ھود: ۷ ۴)۔اللہ سے خوف‘ اللہ سے امید کی راہ ہموار کرتا ہے۔(سورہ الشعراء: ۸۲)۔اللہ سے محبت‘غم سے نجات دلاتی ہے۔(سورہ التوبہ: ۴۰)۔اللہ تعالیٰ کی محبت‘ ہر طرح کے خوف سے محفوظ رہنے کا سبب بنتی ہے۔(سورہ طہ: ۴۶)۔اللہ سے محبت‘ اللہ سے التجا کا ذریعہ بنتی ہے۔(سورہ النساء: ۷۵)۔اللہ سے محبت‘ حق کی سربلندی کے لئے عزم وحوصلہ پیدا کرتی ہے۔(سورہ النساء:۷ ۸)۔رب سے محبت‘ رب سے امید کا سبب بنتی ہے۔(سورہ الصافات:۹۹)۔اللہ کی محبت‘مال خرچ کرنے کا محرک بنتی ہے۔(سورہ الروم: ۹ ۳)۔اللہ کی محبت‘مایوسی سے بچاتی ہے۔(سورہ مریم:۴)۔رب کا خوف‘رب سے مغفرت طلب کرنے کی ترغیب دلاتاہے۔(سورہ القصص: ۱۶)۔رب سے محبت‘ مال سے محبت کی وجہ بنتی ہے۔(سورہ ص:۲ ۳)۔اللہ سے محبت‘صبر سے کام لینے کا محرک ہے۔(سورہ الطور: ۴۸)۔

تقوی کے ان ظاہری اورباطنی پہلوؤں میں سے اللہ تعالیٰ کی محبت‘اس کا خوف اور نتیجتا سراپا اخلاص وعمل پر مبنی زندگی… وہ بیش بہا نعمتیں ہیں جو ہر روزہ دار کو رب کریم کی جانب سے عطا ہوتی ہیں۔ان نعمتوں کا شعور‘ ماہ رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے دامن بھرلینے کا محرک بنتا ہے۔اور اگر حقیقی معنوں میں ان نعمتوں کا ادراک ہوجائے توبعید نہیں…. ساری زندگی ہی مومنانہ زندگی میں تبدیل ہوجائے۔پھردینا‘ لینا‘منع کرنا‘ محبت کرنا اورکسی سے دشمنی کرنا‘ سب کا سب اللہ ہی کی خاطر ہوجاتا ہے۔تقوی کے ذریعہ ایمان کی تکمیل کے مراحل ایسے ہی طے ہوتے  ہیں۔( مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِ یْمَانَ  ۔ بخاری ومسلم)۔

٭٭٭

1 تبصرہ
  1. Sayeed کہتے ہیں

    Assalamualaikum
    Yeh tehreer Quran se phir ek baar apney taalluq ko pakka karne ka sabab hai.

    Allah apney Noor se humarey dilon ko munnawar farmaye

    Aameen

تبصرے بند ہیں۔