چار دریاؤں کی پکار (2)

سید شجاعت حسینی

اس تحریر کا پہلا حصہ ( چار دریاؤں کا تحفہ)   قدرت کےعطا کردہ  تحفہ کے ساتھ انسانی برتاؤ کا  کربناک منظرنامہ تھا۔ اسے پڑھ کرفطری طور پر ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ سیاست کی بلندیوں سے مچی   اس  کھسوٹ کے چلتے  میری کیا بساط۔ بھلا میں کیا کرپاؤں۔ ؟؟

لیکن سچ یہ ہے کہ آج  یہی تحفہ یعنی ریاست کےسوکھتے سمٹتے  دریا اپنی خاموش زبان سے ہم سب کووقت رہتے  اپنا ہر ممکن  رول ادا کرنے کی التجا  کرتے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی، ہر دو رول۔!

یہ اس لئیے  کہ اگر اب نہ کروگے تو شائد پھر کرنے کے لئیے کچھ نہ بچے گا، جیسے ماہرین ماحولیات پہلے ہی وارننگ دے چکے ہیں کہ مصنوعی خشک سالی اس بڑے علاقے کو ناقابل رہائش بنادیگی۔ ہم اسی التجا کو سبھی فکرمند شہریوں کی خدمت میں ان”  چار دریاؤں کی پکار "کہیں گے۔ آئیے اس عملی  پکارکو سنیں  جو ہم سب سے  سنجیدہ منصوبے اور اقدام کی التجا کرتی ہے۔

1) عوامی جدوجہد

یہ ندیاں اپنی زندگی کے لئیے  وسیع عوامی جدوجہد چاہتی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مہاراشٹر کی خشک سالی بڑی حد تک غیر متوازن پالیسیز کا نتیجہ ہے۔ سیاسی نیتا  خشک سالی کا الزام قدرت پر تھوپ کر بارش کی کمی کے بہانے پلہ جھاڑ لیتے ہیں۔ ڈاؤن ٹو ارتھ جرنل (11 March 2019) میں شائع ایک تحقیق کے مطابق خود حکومتی اداروں کے اعداد و شمار اس بہانے کی چغلی کھاتے ہیں۔ (حسب ذیل ٹیبل ملاحظہ فرمائیں 15 )

بات بالکل واضح ہے۔  2014 میں، جب 14 فیصد بارش کی کمی ریکارڈ کی گئی تھی  تب  بڑے  ڈیمس میں 58 فیصد پانی تھا، لیکن 2018 میں جب نسبتًا بہتر بارش ہوئی اور فیصد کمی صرف 9 رہی  اس وقت ڈیمس کا اسٹوریج گھٹ کر 16 فیصد ہوگیا اور کہیں زیادہ گاؤں قحط سالی کا شکار ہوگئے۔ سوال یہ کہ بارش  بہتر ہونے کے باوجود ڈیمس کا پانی کہا ں گیا ؟

بمبئی ہائیکورٹ نے اپنے اکٹوبر 2016 کے فیصلہ میں واضح طور پر واٹر ریگولیٹری ایکٹ 2005 کے مطابق پانی کی منصفانہ تقسیم کی ہدایت دی تھی، لیکن شکر اور شراب کے صنعتکاروں نےتقریبا 22  اپ اسٹریم ڈیمس کے ذریعہ پانی روکنے کی خاطر ملک کے نامور وکیل اور قومی سیاستداں کپل سبل کے توسط سے اسٹے پیٹیشن ڈالی اور سلجھتے مسئلہ کو الجھادیا۔  لابیاں ایسے ہی کام کرتی ہیں۔ اس استحصالی گورکھ دھندے کے باوجود نہ سیاستدانوںکا کچھ بگڑتا ہے  اور نہ ہی سفید پوش ساقیوں کی نیک نامی پر حرف آتا ہے۔جگر کے بقول

گرچہ اہل شراب ہیں ہم لوگ

یہ نہ سمجھو خراب ہیں ہم لوگ

استحصالی سیاست کا کاروبار، شکر اور شراب لابی اور سیاستدانوں کا گٹھ جوڑ اب ختم ہونا چاہیے۔   اولین ضرورت سیاسی فیصلوں کی اصلاح ہے۔ مضبوط  عوامی مطالبات  اور جمہوری ذرائع اسکا حل ہیں۔ ذات پات، پارٹی حدبندیوں سے اوپر اٹھ کر اسے انسانی مسئلہ کی حیثیت سے سمجھنے اور منصفانہ سیاسی فیصلہ  ڈھونڈھنے کی ضرورت ہے۔ عوامی جدوجہدہی  اسکا راستہ ہے۔ ہماری سماجی تنظیموں کو اس کام کا بیڑہ اٹھا نا چاہیئے۔

2) غذائی ترجیحات

گذشتہ مضمون میں شکر کے کرتوت پڑھ کر ہمارے ایک کرم فرما نےبڑا پر لطف تبصرہ اور اس دلچسپ  عزم کا اظہار فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے شراب تو دور کی بات ہے چائے بھی بنا شکر کی پیتا ہوں۔مضمون پڑھ کے سوچتا ہوں اب بنا پانی کی چائے پینا شروع کردوں، کچھ تو پانی کی بچت ہو۔ اس مختصر تبصرہ میں عمدہ مزاح اور کرب دونوں کا تناسب محسوس فرمائیں۔

تفنن برطرف، اس تحریر کے ذریعے ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری صراحیوں اور چائے کی کیتلیوں میں پانی کی صاف اور معقول  مقدار قائم رہے  ۔  سو پانی بغیر، چائے جیسی کڑی  ریاضت کی قطعا ضرورت نہیں بس چند غذائی ترجیحات کا  رویو اور نفاذ کافی ہے۔

ہم شکر کا استعمال  کم کردیں، یہ بھی اس سماج پر پر بڑا کرم ہوگا۔ حسب ذیل گراف بتلاتا ہے کہ ہماری غذائی ترجیحات کس تیزی سے بگڑ رہی ہیں۔ ( بشکریہ : سوشو اکنومک سروے آف مہارشٹرا -2013-14)

شائد ہم ان ترجیحات کو سلیقہ سے  بدل دیں تو عین ممکن ہے کہ،

* قحط کے مارے بے بس لوگوں کی زندگیوں میں شائد دریاؤں کے 72 فیصد پانی کے کچھ بچ جانے والے حصہ سے شائد ہلکی مسکراہٹ لوٹ آئے۔

* دیگر غذائی لوازمات ( اناج، دالیں، پھل وغیرہ  کی پیداوار بڑھے۔ غریب لوگوں کی غذائی ضرورت بہتر انداز میں پوری ہو انھیں دال اور اناج کا منصفانہ بھاؤ نصیب ہو اور معاشرہ مزید صحتمند ہو

*اضافی شکر کی پیداوار کم ہو اور قیمت بڑھے، کم از کم اس ذریعے سےہر نکڑ پر آباد ہزارہا چائے خانوں کی شبانہ روزلاحاصل محفلیں کنٹرول ہوں۔ بچ جانیوالے اوقات میں ہمارے نوجوانوں کو دیگر پروڈکٹیو کاموں اور اپنی بے پناہ  صلاحیتوں کا ادراک ہو۔ اور شائد جواں صلاحیتوں کے بل پر  معاشرہ ترقی کی نئی اڑان بھرے۔

 *مسائل ہی وسائل کا پتہ دیتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان حالات میں ہر گلی اور نکڑ پر چائے خانوں سے جڑے بے شمار "بزنس مینس ” کوکام کے  کئی  نئے میدانوں کا انکشاف بھی ہو، اور عین ممکن ہے کہ کئی "چائے والوں "کی قسمت جاگ اٹھے.

(آخری دو امکانات کو آپ خوش فہمیاں قراد دیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میں انھیں خوش فہمیوں کے بجائے آرزوئیں کہنا پسند کروں گا۔ )

جہاں تک شراب کا معاملہ ہے، نشہ بازوں کے نزدیک انکے  اپنے پیمانوں کے مطابق  مہاراشٹر ایک "خشک ” ریاست ہے ۔ سچ پوچھئے تو ہمارے لئیے "خشک سالی ” کا یہ ماڈل ایک  اعزاز ہے۔

اس اعزاز کی دلچسپ وجہ  یہ ہے کہ مہار اشٹرصرف  ساقیوں کا گہوارہ ہے ورنہ  میخانے تو ریاست کی سرحدوں سے باہر پھیلے ہیں۔ مطلب یہ کہ پیتے نہیں صرف پلاتے ہیں۔ شائد کنور مہندر سنگھ کا یہ فرمان دل سے  مانتے ہوں کہ۔

مے کا پینا حرام ہو کہ نہ ہو

نہ پلانا  حرام   ہے   ساقی

دی ہندو کی ایک رپورٹ ( انڈیاز بِگیسٹ ڈرنکرس 23 اگست 2014) کے مطابق ہر قسم کی شراب کے حوالے  سے ڈرنکرس کی درجہ بندی میں مہاراشٹر کا مقام انتہائی غنیمت  ہے۔ یہاںایک ہفتہ میں  فی نفر شراب کے استعمال کی شرح 19 ملی لیٹر ہے اور پڑوسی ریاست آندھرا ، کرناٹک اورگوآ میں  بالترتیب 104، 102 اور 108 ملی لیٹر ہے۔

ہماری تحریکات حکومت سے یہ واجبی سوال کرسکتی ہیں  کہ جس خباثت کو یہاں کی عوام بالعموم ٹھکراتی ہے  اسے اپنوں کا پیٹ کاٹ کر اس اعلی پیمانے پر ڈھال کر پڑوسیوں کی خدمت فرمانے کا کیا تک ہے۔ (16)

3) مساجد سے اصلاح کی تحریک

میں اکثر کہتا ہوں کہ ہماری مساجد ہر نوعیت کی عمدہ روایات کی تربیت گاہ ہونی چاہئیے۔ یہاں پہنچنے والےلوگ   اعلی ترین اخلاق، آداب اور اعمال ( پریکٹیسز) کا سبق سیکھ کر لوٹیں۔ نفاست، شائستگی ، نان کنزیومرزم، سادگی، ماحول دوستی، اسلامی وقار وغیرہ وہ اقدار ہیں جنکی مستقل  تربیت گاہ اور عملی نمونہ ہوسکتی ہیں ہماری مساجد۔ بشرطیکہ کمیٹیاں کھلی سوچ کی حامل ہوں اور روایت پسندی کی لکیر پیٹنا دین و مذہب کا حصہ نہ سمجھیں۔

پانی کے حوالے سےبھی  جو اہم کام ہم مساجد میں انجام دے سکتے ہیں وہ ہے وضو گاہوں کا مثالی نظم۔

اس سلسلے میں ایک کارآمد تحقیق اپلائیڈ واٹر سائنس کے شمارے ( ستمبر 2017) میں مصری محقق روبی  الزائید ی نے  شائع کی۔ جو کئی دلچسپ و حیرت انگیز نکات کا احاطہ کرتی ہے۔ (17)

مختلف حوالوں سے یہ ثابت کیا گیا کہ نبی کریم ﷺ کے وضو کے پانی کی اوسط مقدار 650 تا 680  ملی لیٹر ہوا کرتی تھی۔ جبکہ عام طور پر ہماری مساجد میں فی وضو پانی کے استعمال کی شرح اوسطا ساڑھے تین لیٹر اور کچھ مقامات پر 6 تھا 7 لیٹر ہوتی ہے۔ دیگر کئی سنتوں پر اصرار کرتے ہوئے نہ جانے کیوں ہم اتنی اہم ترین سنت کو بآسانی فراموش کرجاتے ہیں  کہ ہماراوضو بھی ساڑھے چھ سو ملی لیٹر کی حد نہ پھلانگے۔

 ہماری وضوگاہیں ( اوپر درج شرح کے مطابق) پانی کے ضیاع کا بڑا ذریعہ ہیں۔ اے سی، قالینوں اور قمقموں کی سجاوٹ  سے کہیں اہم ضرورت یہ ہے کہ کیسے ہماری وضوگاہیں مسنون و ماحول دوست بن جائیں۔ اس تحقیق کے دوران100  افراد کے وضو کی  ویڈیو ریکارڈڈ اسٹڈی کی گئی جس  کے مطابق، وضو کے دوران 47 فیصدصاف  پانی بنا چھوئے بہتے ٹیپ سے راست ڈرین ہوکر ضائع ہوتا ہے۔  باقی 53 فیصد جو استعمال ہوتا ہے وہ بھی ضرورت سے کافی زیادہ ہوتا ہے جس میں بچت کی بھرپور گنجائش ہوتی ہے۔ واٹر ری سائیکلنگ، واٹر ہارویسٹنگ، اور زیادہ بہتر ٹیکنیک والے ٹیپس کا استعمال اس نقصان کو کم کرسکتے ہیں۔

یہ بھی دیکھا گیا کہ بستی میں پانی کا شور مچا ہے اور ہمارے اونچے کنسٹرکشنس معمول کی  رفتار سے جاری ہیں۔ ہمارے اپارٹمنٹس اور  مساجدسے  بے حسی کا  ایسا کوئی  خاموش پیغام عام نہ ہو  اس بات کو بھی ہمیں یقینی بنانا چاہیئے۔

4) مثالی  ماڈلس کاعملی تعارف

سب سے  بڑی بات یہ کہ  خدا کی نعمتوں کا ادراک اور انکی قدر کا جذبہ ہر فرد میں بیدار ہو۔ سماج میں ایسے انفرادی و اجتماعی  ماڈلس  ابھریں تو اچھی اقدار کا نفاذ ایک آٹو میٹک پراسیس بن جاتا ہے۔ ان ماڈلس کی قدر بھی ہو تعارف بھی ہو اور انکے تجربات عام بھی ہوں۔

تھریسور ( کیرالا ) کے مؤذن شرف الدین نے اپنی مسجد کی وضو گاہ کو ایک ٹینک سے جوڑ دیا۔ جس میں پانی جمع ہوتا اور یہاں سے راست کاشت کے لئیے استعمال ہوتا۔

کوئمبٹور کے عبدالحکیم صاحب نے مقامی مسجد کی وضو گاہ  کی اسٹڈی کی تو اندازہ ہوا کہ ہر نماز سے قبل 10000 لیٹر پانی وضو کے ذریعے استعمال ہوتا ہے۔ انھوں نے جماعت اسلامی ہند کے اپنے دیگر رفقا ء کے ساتھ ملکر واٹر ہارویسٹنگ کاپلانٹ تعمیر کیا۔ اس کامیاب تجربے سے تحریک پاکر مزید پانچ مساجد نے انھیں اس منصوبے کی دعوت دی۔ اب100 مساجد انکے پلان کا حصہ ہیں۔  (18)

ممبئی کے فیصل اور جاوید کی ڈزائین کردہ واٹر ٹیپس کی نئی ٹیکنیک مقبول ہوئی جارہی ہیں۔ مینوفیکچررس کا دعویٰ ہے کہ ان واٹر ٹیپس کو انھوں نے مولڈیڈ والوس اور جوائے اسٹیک کے ساتھ بہت کم قیمت میں یوں تیار کیا کہ وہ  سینسر والوس کاکام انجام دیتے ہیں ۔ ناگپاڑہ مسجد کے ذمہ داران بھی  کہتے ہیں کہ ان ٹیپس کی تنصیب سے ہمیں بھاری فائدہ ہوا۔ پہلے روزانہ 26000 لیٹر پانی صرف ہوتا تھا  اب ہمیں بمشکل 8000 لیٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ یعنی کم و بیش 70 فیصد بچت۔

 ممبئی کے84 سالہ بزرگ  عابد سورتی  کارٹونسٹ ہیں، اسکرین رائٹر ہیں، آرٹسٹ ہیں، جرنلسٹ اور کئی زبانوں میں 80 سے زائد کتابوں کے  مصنف ہیں، ہندی ساہتیہ کے قومی ایوارڈ یافتہ اور گجرات گورو انعام سے سرفراز ہیں۔

ان کی بزرگی، شہرت اور اعلی پروفائیل انکی بےلوث خدمت کے آگے  کبھی رکاوٹ نہ بنی۔ آج بھی وہ ایک پلمبر کے ہمراہ ہر اتوار صبح تا دوپہر گھر گھر پہنچ کر ٹوٹتی ٹپکتی ٹوٹیاں بالک مفت رپیئر کرتے ہیں۔ مقصد یہ کہ بے وجہ ٹپکتی بوندبھی ضائع نہ ہو۔ کسی  کے ذاتی افکار ہمار موضوع نہیں، لیکن  انکی بے لوث خدمات ہمارے لئیے قابل قدر ہیں۔ ان کا عام ہونا ضروری ہے۔

عالمی سطح پر ملیشیا، ترکی، انگلینڈ، عمان اور کئی دیگر ممالک میں ایسے دلچسپ و مفید ماڈلس ہیں۔

 ایسے ماڈلس اگر گلی گلی عام  ہوں تو ممکن ہے  ہمارے دریاؤں کی رونقیں اور زیر زمین پانی کے روٹھے خزانے شائد دوبارہ لوٹ آئیں۔

اس سلسلے کے مزید مضامین:

چار دریاؤں کا تحفہ

نواز جنگ کا سوکھتا وطن

تبصرے بند ہیں۔