انتظارحسین:حکایت تمام شد!

معاصرادبی منظرنامے کاایک تاب ناک ترین نام،اردوافسانہ،ناول اورکہانی کو نئی بلندیوں،اونچائیوں اور ظفرمندیوں تک پہنچانے والے اورعالمی سطح پراپنی ادبی دراز قامتی کی دھاک بٹھانے والے انتظارحسین اپنی عمرِ مستعارکے 92سال گزار کر2فروری 2016ء کولاہورکے ایک اسپتال میں وفات پاگئے،3فروری کوان کی تجہیزوتکفین ہوئی،جنازے میں حکومتِ پاکستان کے اعلیٰ افسران ، علماء اورعطاء الحق قاسمی،مستنصرحسین تارڑ،امجداسلام امجد، مسعوداشعر،اصغرندیم سیداورعابدحسن منٹوسمیت اُدباکی ایک بڑی جماعت نے شرکت کی۔انتظارصاحب کی شخصیت ایسی ہمہ گیر،ہمہ جہت اور اردو والوں کے لیے اتنی قابلِ قدرتھی کہ ان کی وفات سے ادبِ اردواور اس سے تعلق رکھنے والے طبقے کو زبردست دھچکالگاہے،انتظارحسین یوں توپاکستان کی شہریت رکھتے تھے،مگر فی الحقیقت وہ زمان و مکان کی تمام تر حدبندیوں سے ماوراتھے،ان کی ذات میں کئی ذاتیں اوران کی شخصیت میں کئی شخصیتیں منضم تھیں، انھوں نے اپنے قلم،فکر اور فن کے ذریعے پوراایک جہان بسایا،بنایا،سنوارااوراردوزبان و ادب کی ایسی خدمت کی کہ زندگی میں ہی انھوں نے بین الاقوامی سطح پراعزازوامتیازکے کئی نشان چُھوے،وہ پوری دنیا میں ادبِ اردو کے سفیراور اردوزبان کی علامت و شناخت تصور کیے جاتے تھے۔
انتظارحسین کی تاریخِ پیدائش کا اندراج اکثر جگہوں پر 21 دسمبر 1925 ء اوربعض مقامات پر1923ء ہے،جاے پیدایش ڈبائی ،ضلع بلند شہر ہے، بعد میں ان کا خاندان ہاپوڑ،میرٹھ منتقل ہوگیاتھا،ان کی تعلیم میرٹھ میں ہوئی،انتظار حسین کے والد کا نام منظر علی اور دادا کا نام امجد علی تھا، انتظار حسین کی والدہ کا نام صغریٰ بیگم اور نانا کا نام وصیت علی تھا۔انتظار حسین نے 1942 ء میں آرٹس کے مضامین میں انٹرمیڈیٹ اور 1944 ء میں بی اے کی سند حاصل کی، پھر پنجاب یونیورسٹی سے اردووانگریزی میں ایم اے کیا۔1947ء میں ہندوستان آزادبھی ہوااوردولخت بھی،اسی دوران انتظارحسین لاہورچلے گئے، تب اُن کی عمر اکیس بائیس برس تھی،ان کا خیال وہاں رہنے کانہیں،صرف اپنے کچھ پسندیدہ ادیبوں،شاعروں،افسانہ نگاروں سے ملنے اور تاریخی مآثرومقامات کی سیرکرکے واپس ہندوستان لوٹنے کاتھا،مگر ایسا نہیں ہوسکا،وہ لاہورسے لوٹ کر ہندوستان نہیں آسکے ،پھران کے گھروالے بھی پاکستان منتقل ہوگئے۔
سید شہزادناصرنے انتظارحسین کی زندگی میں ہی ان کے حالاتِ زندگی پر اپنے ایک مضمون (ط:جسارت میگزین)میں لکھاہے کہ انتظار حسین اپنی عملی زندگی کے سرآغازمیں افسانہ نگاری کی بجاے شاعری کرنا چاہتے تھے،اسی طرح تنقید نگاری کوبھی وہ مستقل طورپراپناناچاہتے تھے،اسی زمانے میں انھوں نے ن م راشدکی’ماورا‘کامطالعہ کیااور اس سے گہرااثرقبول کرتے ہوئے نثری نظمیں لکھنے کا آغاز کیا،مگر پھر جلد ہی وہ شاعری کوچھوڑکرافسانہ نگاری کی طرف آگئے۔ان کے اساتذہ میں کرارحسین اور محمد حسن عسکری کے نام نمایاں ہیں،جن سے انھوں نے گہرااثرقبول کیا۔
پاکستان آنے کے بعد انتظار حسین نے ابتداء اً ہفت روزہ ’’نظام‘‘ میں مدیر کے طور پر ملازمت اختیار کی، اس کے بعد سے ان کا ذریعۂ معاش بڑی حد تک صحافت ہی رہا،اُنھوں نے مختلف سن و سال میں جن اخبارات مین ملازمت کی ،ان کی تفصیل یہ ہے:روزنامہ ’’امروز ‘‘ لاہور بہ حیثیت سب ایڈیٹر 1949 ء تا 1953 ء،روزنامہ ’آفاق‘‘ لاہور بہ حیثیت سب ایڈیٹر او رکالم نگار 1955 ء تا 1957 ء،روزنامہ ’’مشرق‘‘لاہور بہ حیثیت کالم نگار 1963 ء تا 1988 ء،ماہ نامہ ’’ادبِ لطیف‘‘ کی ادارت اس کے علاوہ ہے۔ انتظار حسین کی طویل ترین وابستگی روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے رہی، جہاں وہ شہر کے حوالے سے مستقل کالم اور ادبی فیچر لکھاکرتے تھے۔ 1988 ء میں وہ روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے ریٹائر ہوگئے اور اس کے بعد آزاد صحافی و ادیب کے طور پر تاحیات کالم نگاری کرتے رہے۔
انتظارحسین نے اردوکے علاوہ انگریزی میں بھی کالم لکھا، پہلے 1962 ء میں لاہور کے روزنامہ’’Civil and Military Gazzette‘‘ میں ’’دیوجانس‘‘(Diogenes) کے نام سے لکھا، روزنامہ ’’مشرق‘‘ سے علیحدہ ہونے کے بعد لاہور کے روزنامہ’’ Frontier Post ‘‘میں 1989 ء سے فروری 1994 ء تک ہفتہ وار کالم لکھتے رہے، اس کالم کا عنوان’’ Point Counter Point‘‘ تھا۔ 1994 ء سے انھوں نے کراچی کے روزنامہ’’ Dawn ‘‘ کی ہفتہ وار اشاعت کے لیے ’’Point of View ‘‘کے عنوان سے مستقل کالم لکھنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ تقریباً آخری وقت تک جاری رہا، اس عنوان کے تحت وہ ادبی مسائل ،نئی کتابوں اور اہم شخصیات کے حوالے سے لکھاکرتے تھے۔اس کے علاوہ اردوروزنامہ’’ایکسپریس‘‘میں بھی وہ مسلسل لکھ رہے تھے،عام طورپرادبی موضوعات یا شخصیات ہی ان کا موضوعِ تحریرہوتاتھا۔
جیساکہ مذکورہواانتظارحسین نے ابتداء اً شاعری کی راہ اختیار کرنا چاہی،مگر پھر اسے چھوڑکر افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے اور اس کے بعد پھر پوری زندگی انھوں نے افسانے ہی لکھے،البتہ بیچ بیچ میں وہ متعددناول،تنقیدی مضامین،سفرنامے اور اپنے سوانحی حالات بھی تحریرکرتے رہے۔ان کاپہلا افسانوی مجموعہ’گلی کوچے‘1953ء میں شائع ہوا۔ایک اندازے کے مطابق انھوں نے اپنی عملی و قلمی زندگی میں 130سے بھی زائد افسانے اور کہانیاں تحریرکی ہیں، ان کے افسانوں کی کئی کلیات شائع کی گئیں ،مجموعۂ انتظارحسین کے ذریعے بھی ان کی تحریروں کویکجاکیاگیا،اِس وقت سنگِ میل پبلکیشنز لاہوراور آکسفورڈیونیورسٹی پریس کراچی سمیت ہندوپاکستان کے متعددناشرین ان کی کتابیں چھاپ رہے ہیں،ان کے افسانوی مجموعے جومختلف ناموں سے شائع ہوئے،ان میں ’’گلی کوچے‘‘،’’کنکری‘‘،’’آخری آدمی‘‘،’’شہرِ افسوس‘‘،’’کچھوے‘‘،’’خیمے سے دور‘‘،’’خالی پنجرہ‘‘،’’شہرزادکے نام‘‘ ،’’نئی پرانی کہانیاں‘‘ ،’’سمندراجنبی ہے‘‘،’’ہندوستان سے آخری خط‘‘ اور’’ جاتکاکہانیاں ‘‘شامل ہیں۔انتظارحسین نے بچوں کے لیے بھی کہانیاں لکھیں،جن کامجموعہ’’کلیلہ دمنہ‘‘کے نام سے شائع ہوا۔ان کاآخری افسانوی مجموعہ ’’سنگھاسن بتیسی‘‘تھاجو2014ء میں شائع ہوا۔ناولوں میں’’چاندگہن‘‘،’’دن اور داستان‘‘، ’’بستی‘‘،’’تذکرہ‘‘ اور’’آگے سمندر‘‘ہے شامل ہیں۔افسانوی تراجم میں’’ نئی پود‘‘،’’ناؤ‘‘،’’سرخ تمغہ‘‘،’’ہماری بستی‘‘،’’گھاس کے میدانوں میں‘‘،’’سعید کی پراسرار زندگی‘‘ اور’’ شکستہ ستون پر دھوپ ‘‘شامل ہیں۔دیگرتراجم میں ’’فلسفے کی تشکیل‘‘،’’ماؤزے تنگ‘‘،’’اسلامی ثقافت ‘‘ہیں۔انھوں نے بہت سی کتابیں مرتب بھی کیں،جن میں رتن ناتھ سرشارکی’’ الف لیلہ‘‘ ،انشاء اللہ خان کی ’’دوکہانیاں‘‘،’’سن ستاون میری نظرمیں‘‘،’’پاکستانی کہانیاں‘‘،’’عظمت گہوارے میں‘‘،’’کچھ توکہیے‘‘اور’’ سوالات و خیالات‘‘ (کرارحسین)شامل ہیں۔تنقیدی مضامین بھی لکھے اور ان کے مجموعے’’ علامتوں کا زوال‘‘،اور’’ نظریے سے آگے‘‘ اشاعت پذیر ہوئے ۔اخبارات کے کالموں کے مجموعے’’ ذرے‘‘،’’ملاقاتیں‘‘،’’بوندبوند‘‘کے نام سے طبع ہوئے۔’’نئے شہر پرانی بستیاں‘‘ اور’’زمیں اورفلک اور ‘‘کے نام سے سفرنامے قلم بند کیے۔تذکرہ اور آپ بیتی میں’’ دلی جو ایک شہر تھا‘‘،’’اجملِ اعظم ‘‘اور اپنی سوانح عمری’’ چراغوں کا دھواں‘‘اور’’جستجوکیاہے؟‘‘لکھا۔ان کے افسانوں اور ناولوں کا انگریزی ترجمہ بھی ان کی زندگی میں ہی شائع ہوا،’’آگے سمندرہے‘‘کاترجمہ ہندوستان کی معروف خاتون قلم کاررخشندہ جلیل نے کیاہے،مشہورترین ناول’’بستی‘‘کا ترجمہ فرانسس پریچٹ نے اورکہانیوں کے ترجمے محمد عمرمیمن اورالوک بھلانے کیے ہیں۔انتظارحسین کو 2013ء میں معروف ترین بین الاقوامی بکرپرائزکے لیے شارٹ لسٹ کیاگیا،2014ء میں حکومتِ فرانس کی جانب سے اعلیٰ ترین شہری اعزازدیاگیا،پاکستان حکومت نے انھیں ’’ستارۂ امتیاز‘‘اور اکادمی ادبیاتِ پاکستان کی جانب سے سب سے بڑا ادبی اعزاز’’کمالِ فن‘‘ ایوارڈدیاگیا،ہندوستان کے متعددادبی اداروں نے بھی انھیں اعزازات سے نوازا۔الغرض انتظارحسین نے جہاں اپنی طویل تر عملی زندگی میں تخلیق و تحریرکے گوناگوں نقوش قائم کیے ،وہیں اُنھیں ان کی خدمات پرقو می و عالمی پیمانے پرقدردانیاں بھی حاصل ہوئیں۔
ا نتظارحسین کے افسانوں کاامتیازجس نے اُنھیں ایک مخصوص وموقرشناخت دلائی اور جس کی وجہ سے ان کی تحریروں کوپے درپے مقبولیتیں حاصل ہوئیں،اس کا تعلق ان کے اسلوبِ تحریرہے جوبہت ہی عام فہم،شستہ،شگفتہ اورسہل المنال ہے،لفظوں کے انتخاب سے لے کر جملوں کے دروبست تک میں وہ کمالِ چابک دستی کا مظاہرہ کرتے ہیں،افسانوں میں عام طورپران کا اسٹائل مکالماتی اورداستانوی ہے،اس سے پڑھنے والے کوایسا محسوس ہوتاہے کہ وہ کہانی کوپڑھ نہیں رہاہے؛بلکہ وہ پیش آمدہ واقعے کودیکھ رہاہے اور خود بھی اس کا حصہ ہے،ایک خاص قسم کی پراسراریت بھی انتظارحسین کی کہانیوں کا خاصہ ہے،قاری جوں جوں پڑھتاجاتاہے،اس کے ذہن و دماغ میں تجسس کی کیفیت بڑھتی جاتی ہے،کہانی شروع ہونے سے ختم ہونے تک پڑھنے والے کومکمل طورپراپنا اسیر کیے رکھتی ہے اوردل دماغ مکمل طورپراس کہانی میں ضم ہوجاتے ہیں،ناقدین کہتے ہیں اور انتظارحسین کے افسانوں اور کہانیوں کوپڑھتے ہوئے شدت سے یہ محسوس بھی ہوتاہے کہ ان کے یہاں روایت پسندی ہے،اسطوریت ہے،ماضی کی طرف لوٹنے اور اس میں سماجانے کی شدید خواہش اور موجودہ فرضی چمک دمک والی تہذیب و معاشرت سے ایک مخصوص نوع کی وحشت ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ انتظار حسین نے اپنی 92سالہ زندگی میں کئی نسلوں کودیکھا،برتا اور پرکھاتھا،ان کی نگاہوں کے سامنے کئی منظربنے ،روشن ہوئے اورکئی ایک کجلاگئے تھے،تخریب وتعمیرکے کئی ادوارکے وہ عینی شاہد تھے،انھوں نے متحدہ ہندوستان میں آنکھیں کھولی تھیں،ان کا شعوربھی اسی ماحول میں جوان ہواتھا،جب نہ پاکستان کا کوئی وجودتھا،نہ بنگلہ دیش نامی کوئی ملک عالمی جغرافیے پر ہویداہواتھا،پھر دیکھتے ہی دیکھتے منظرنامہ بدلا،ہندوستان حصولِ آزادی کی کشمکش سے جب باہر آیا،تونتائج کچھ عجیب و غریب تھے، آزادی بھی ملی تھی،مگر اس کی قیمت ایسی تھی اور اتنی تھی کہ حساس طبیعتیں آزردہ و افسردہ ہوکر رہ گئیں،سیاسی احوال سے انتظارحسین کو کوئی ذاتی دلچسپی نہ تھی، مگرآزادی اور پھر تقسیمِ ہندکے بعدہمہ گیریت کے ساتھ جوحالات پیداہوئے،ان سے وہ بچ نہیں سکتے تھے،سو وہ بھی ان کی چپیٹ میں آئے،ہندوستان کے آزاد ہونے اور پاکستان کے وجودپذیر ہونے کے بعداُنھوں نے لاہورکی جانب جورختِ سفرباندھاتھا،وہ محض وقتی تھا اوربعض خاص مقاصدکے پیشِ نظروہ سفرکیاگیاتھا؛لیکن ان کی یہ ہجرت دائمی نقلِ مکانی میں بدل گئی اور پھر وہ میرٹھ نہیں،لاہورکے باسی ہوکر رہ گئے،مگرتاعمراُن کا دل اپنے وطن میں اٹکارہا،اپنے سوانح کے دوسرے حصے’’جستجوکیاہے؟‘‘میں انھوں نے اپنی ماقبل آزادی یاماقبل ہجرت کی رودادہی قلم بندکی ہے،وہ پاکستان کے شہری تھے، مگرانھیں جوایک والہانہ اور قلبی و نسلی تعلق میرٹھ اور ہندوستان سے تھا،وہ ان کی تحریروں میں چھلک چھلک جاتاتھا،اسی وجہ سے بعض دفعہ یہ بھی کہاگیاکہ انتظارحسین کا دل ہندوستان میں اور جسم پاکستان میں ہے،وہ دونوں ملکوں،وہاں کی تہذیبوں اور عوام کے درمیان ایک مضبوط پل تھے اور اپنی اس خصوصیت و حیثیت کی چھاپ وہ اپنی کہانیوں،افسانوں اورناولوں میں بخوبی طورپرچھوڑتے تھے۔اردوفکشن میں انتظارحسین کا مقام نہایت ہی بلندہے،اتنابلندکہ ان
کے جانے کے بعدشایدہی اس خصوصیت و قامت کا افسانہ نگار اردوکومل سکے،اُنھیں جدیداردوفکشن کے رجحان سازوں میں شمارکیاجاتاہے،جن کے یہاں افسانے کی تمام ترمعنویت ایک مخصوص ،جاذب و پرکشش لباس میں جلوہ طرازہے،انتظارحسین کے افسانے میں حسن ہے،جمال ہے،فن کاری ہے،پرکاری ہے،اداسی ہے،معاشرے کے انتشار وبکھراؤکا ماتم ہے،اعلیٰ تہذیبی قدروں کی نشان دہی اور ان کے ناپید ہونے کا افسوس ہے،ہندوستان کی تقسیم کے تناظرمیں ہجرت کے عوامل و نتائج کا آئینہ ہے،ہجرت کا کرب اور نقلِ مکانی کی اذیتیں ہیں،داخلی شعورکی گیرائی اور باطن کانورہے۔معروف ادیب ونقاد شمیم حنفی نے فروری2013ء میں آرٹس کونسل آف پاکستان کی جانب سے منعقدہ پروگرام ’بے مثل ادیب انتظار حسین‘میں اپنے خصوصی لیکچرکے دوران اردوفکشن کی تاریخ کے حوالے سے کہاتھاکہ’’اردوکے جدید فکشن کے تین اہم دورہیں،پہلا دورپریم چندہیں جن سے عالمی داخلے کا راستہ ملتاہے، دوسرا سعادت حسن منٹوہیں ،جبکہ تیسرا اور اہم دور قرۃ العین اور انتظار حسین کاہے،یہ دورانتہائی تبدیلیوں اورآشوب کا دورہے اور اس دورکی تمام تر تبدیلیوں کا سراغ ہمیں ان ہی دوکے ہاں ملتاہے‘‘۔اوران کی یہ بات بالکل برحق تھی!
انتظارحسین اپنے افسانوں میں کرداروں کونہیں لکھتے تھے،معاصرمعاشرے میں پائے جانے والے حقائق کواُبھارتے اوراُجالتے تھے،ان کے جانے سے قارئین کوشدت سے یہ احساس ستارہاہے کہ اب وہ ایک ایسے کہانی کار و افسانہ نگار سے محروم ہوگئے ہیں،جواُنھیں لکھاکرتاتھا،اُن سے ،اُن کی باتیں کیاکرتاتھا،اُن کے جانے سے تہذیب و ثقافت کی ایک صدی اورادبِ اردو کا ایک قرن رخصت ہوگیاہے،رہے نام اللہ کا!

تبصرے بند ہیں۔