انتقادِ فکر اور اسلام 1

خالقِ حقیقی نے کائنات کی ہر شے کو ضابطوں میں جکڑ رکھا ہے اور بہت بڑی تخلیق یعنی آسمان ِ دنیا، جس کے نیچے اربو ں کھر بوں تیز متحرک اجرام ِ فلکی اپنی تخلیق سے تاحال بلکہ تادم قیامت اسی تیز رفتاری سے غیر متعینہ منزل کی طرف دوڑتے رہنے میں مصروف ہیں اور رہیں گے، بھی بغیر ستون کے کھڑے رہنے کے ضابطے میں بندھا ہوا ہے۔ زمین اپنے محور کے گرد روٹیشن کے علاوہ نہ صرف سورج کے گرد گردش میں بلکہ ٹرانسلیٹری موشن میں بھی مصروف ِ عمل ہے گویا حضرت ِ انسان کے لئے دن و رات لانے اور موسموں کی تبدیلی لانے وغیر ہ کا کام دے رہی ہے۔ اس کو کشش ثقل (گریوی ٹیشنل فورس ) عطا کر کے انسانو ں کے لئے اس کے سینے پر چلنے پھرنے کابندوبست فرما دیاوگرنہ وسیع حجم اور بے پناہ کثافت کا یہ انسان پہاڑوں جیسا بھاری بھرکم اپنی زندگی نہ جانے کیسے بسر کر پاتا ۔ علاوہ ازیں اس کی مٹی کو ان تمام تر خا صیتوں اور صلاحیتوں سے پوری طرح لیس فرما دیا جو جناب ِ انسان کی خوراک کے انتظام کے لئے کافی ہوں ۔ قدرتِ کاملہ نے اس پر انسانوں کا میلہ سجانے کے لئے بیش بہا انتظامات کی تکمیل کے سلسلے میں کائنات کی ہر شے کو ان ضابطوں میں جکڑ دیا ہے۔ لہٰذا نظام فطرت یا قانون فطرت کائنات میں پائی جانے والی باقاعدگیوں کا نام ہے جن میں تغیر و تبدل انسانی مقدرت اور عقلی بساط کے دائرہ کار سے باہر ہے ۔ باالفاظ دیگر انسان نہ ان قوانین کو توڑ سکتا ہے ، نہ ہی ان کو کسی بھی اعتبار سے بدل سکتا ہے اور نہ ہی ان کے نفاذ پر کمند ڈالنے کی جسارت کر سکتا ہے ۔ ان قوانین فطرت کو اللہ واحد نے اس طرح وضع فرمایا ہے۔اے گروہ ِجنات و انسان! اگر تم میں آسمان و زمین کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو!۔۔۔(الرحمٰن33)کہہ دیجئے! کہ دیکھو تو سہی اگر اللہ تعالیٰ تم پر رات ہی رات قیامت تک برابر کر دے تو سوائے اللہ کہ کون معبود ہے جو تمھارے پاس دن کی روشنی لائے ؟ کیا تم سنتے نہیں ہو؟ پوچھئے! کہ یہ بھی بتا دو کہ اگر اللہ تعالی ٰ تم پر ہمیشہ قیامت تک دن ہی دن رکھے تو بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود ہے جو تمہارے پاس رات لے آئے ؟ جس میں تم آرام حاصل کرو، کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو؟ (القصص(71-72 ) اس پیرائے میں حوالے کے طور پر بہت سی آیات مبارکہ موجود ہیں ۔ فلسفہ کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے یہ کہنے میں باک محسوس نہیں کرتا کہ جہاں تک نظام ہستی کے وہ تما م ضابطے اور قوانین جو انسان کی سائنسی و فلسفیانہ بساط سے باہر ہیں، سائنس و فلسفہ مذہب سے اتفاق کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس بودو ہستی کے مقصد کو سمجھ سکنے سے سائنس تو یکسرہی قاصر ہے اور فلسفہ تاحال کسی متفقہ حتمی نتیجے پر نہ پہنچ سکا ہے۔ کیوں کہ یہ کوئی ایمپیریکل ، ریاضیاتی سوال نہیں جو مشاہدہ ، کیلکو لیشن ، سائنسی آلہ یا طریقہ کار سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ سائنس کے ساتھ یہ مسئلہ کیوں ہے ؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے جس کو سمجھنے میں قرآن حکیم ہماری بھر پور رہنمائی کرتا ہے۔ زمین و آسمان کے بنانے والے نے انسان کو کائنات اور اس کے مظاہر میں غور و تدبر کی نہ صرف دعوت دی ہے بلکہ انسان سے غورو تدبر نہ کرنے کی شکایت بھی کی ہے۔ یہیں سے تسخیر ِ کائنات کی راہیں کھلتی ہیں بلکہ جا بجا مظاہر کائنات کی تخلیق و دائرہ عمل میں چھپی نشانیوں اور ان کھلے رازوں کی طرف اشارے فرما کر تسخیر کائنات کی منازل آسان فرما دی ہیں ۔ یہاں پر یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ سائنس کیا ہے ؟ تسخیر کائنات کا ماحصل کیا ہے؟ کیا سائنس کائنات کی تسخیر کے مقصد کوسمجھ سکتی ہے یا محض فروع و جزیات تک محدود ہے ؟ سائنس روایات پر مبنی کوئی مسودہ نہیں بلکہ حقائق کوتجربات کی بنیاد پر جاننے کالامتناہی سلسلہ ہے جو ارتقائی و تدریجی ہے ، یہاں کچھ حتمی نہیں کیوں کہ کسی تحقیق کو حتمی مان لینااہمیت کے حامل بہت سے حقائق سے محروم رہنے کے مترادف ہے اور یہی سائنس کی معراج ہے۔ اسی اصول کے پیش نظرانسان نے کائنات کے بہت سے رازوں سے پردہ ہٹایا ہے ۔ اور خوب سے خوب تر کی جستجو نے آج کے انسان کو سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت بلند مقام پر لا کھڑا کیا ہے ۔ اس سب کو سائنس کی ترقی تو کہہ سکتے ہیں لیکن انسانیت کی معراج نہیں کہہ سکتے ۔ کیوں کہ کم قسمتی سے سائنسی ایجادات محض کاروبار ِ معاشرہ کی تمام تر ضروریات یعنی آرائش و زیبائش، انتظام و انصرام کی سہولیات ، زرعی ، ابلاغی ، آمدورفت کی سہولیات، دفاعی اور دیگر شعبہ ہائے جات کی تمام ترضروریات کے گرد محو گردش ہے ۔ گویا ایسا ہی ہے جیسے ایک مسافر منزل پر پہنچنے کی بجائے راستے کی تعمیرو تزین اور سفر میں تلذذ و راحت کی فکر میں منہمک ہو جا ئے اور منزل و مقصود کو یکسر بھول جائے ۔ تسخیر کائنات سے استفادہ دراصل اس کا فروع و جز ہے اس کو اصل قرار دینا حماقت ہے اور اس سے انکار جہالت ہے ۔ اسلام کاروبار معاشر ہ کے لوازمات کی دستیابی و حصول کے لئے اسباب اور علم و فنون کے حصول کونہ صرف مستحسن قرار دیتا ہے بلکہ ترک اسباب اور مذکورہ علوم و فنون سے بے اعتناعی کو جہالت قرار دیتا ہے۔ افراد اپنی اپنی بساط ،دلچسپی ، مفاد اور معاشرے کی نت نئی ضروریات کے پیش نظر مختلف شعبہ ہائے جات کا چناؤ کر لیتے ہیں اوریہی کاروبار ِ معاشرہ کا تقاضہ ہے۔ یعنی معاشرہ افراد سے تقسیم کی بنیادپر ان امور کا متقاضی ضرور ہے لیکن تخصیص کی بنیاد پر ہرگز نہیں یعنی کسی فردیا جماعت پر قدغن نہیں کہ وہ مخصوص شعبے کا چناؤکرے ۔ دور ِحاضر میں یہ تمام امور چوں کہ سائنس کی مرہون ِ منت ہیں تو سائنس بھی کس فرد ، جماعت ، قو م یا نظریے سے تخصیصی بنیاد پر اپنے علوم و فنون کے حصول کا تقاضہ نہیں کر سکتی ۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو مقصد کی طرف گامزن کیا ہے نہ کہ ضروریات میں الجھانے کی جانب ۔ اور سائنس جن حقائق تک رسائی حاصل کر پائی ہے وہ دراصل وہی تسخیر کائنات ہے جو ایسے سائنسی حقائق کا مجموعہ ہے جو کاروبار ِ معاشرہ کی مذکورہ بالا محض فروع و جز یات پر مشتمل ہے۔ لیکن خالق کائنات نے جس تسخیر کائنات کی دعوت دی ہے وہ در حقیقت معرفت ِ الہٰی کی دعوت ہے ۔ اسی تسخیر کے نتیجے میں سائنسی حقائق درحقیقت ایک خالق کا پتہ دیتے ہیں ۔

آیات ذیل میں خالق کائنات سلسلہ تخلیق آدم اور اپنے منصب ِربوبیت کے شایانِ شان بنی نوع انسان کے لئے اسباب پرورش کی تخلیق کو بیان فرماتے ہیں۔ یقینا ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا ، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کر دیا ۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں ، پھر ہڈیوںکو ہم نے گوشت پہنا دیا ، برکتوں والا ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے ۔ اس کے بعد پھر تم سب یقینا مر جانے والے ہو۔ پھر قیامت کے دن بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤگے۔ ہم نے تم پر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم مخلوقات سے غافل نہیں ہیں ۔ ہم ایک صحیح انداز سے آسمان سے پانی بر ساتے ہیں ، پھر اسے زمین میں ٹھہرادیتے ہیں، اور ہم اس کے لے جانے پر یقینا قادر ہیں ۔ اسی پانی کے ذریعے ہم تمہارے لئے کھجوروں اورانگوروں کے باغات پیدا کر دیتے ہیں ، کہ تمھارے لئے اس میں سے بہت سے میوے ہوتے ہیں انہیں میں سے تم کھاتے بھی ہو ۔ (المومنون12-19 )
صفت تخلیق مخلوق کی پرورش و نگہداشت کی بھی متقاضی ہے جیسے ماں بچے کو اپنے جسم سے جنم دیتی ہے توقدرت کاملہ نے اس نومولود کی ابتدائی پرورش کاانتظام بھی اسی جسم سے اس طرح فرمایا کہ ماں کے سینے سے دودھ کا انتظام فرمایا ہے ۔ اللہ ذوالجلال اپنی صفت ربوبیت کے قرآن مجید میں زبردست مدعی ہیں اور مخلوق کے تمام تر اوصاف کا خالق کی طرف سے عطا کردہ ہونا یقینی امر ہے۔ تخلیق کا عبث ہونا خالق کے شایان شان نہیں ہو سکتا، انسان و جن کی پیدائش کا مقصد اپنی عبادت (معرفت) متعین فرما کر اس کی بخوبی وضاحت بھی فرما دی گئی۔ سورہ مومنون کی مذکورہ آیات میں پیدا ئش ، افزائش اور پرورش کے اسباب کا ساتھ منزل ِموت کا تذکرہ اسی مقصد کی نشان دہی ہے ۔ یہاں یہ امر انتہائی قابل غور ہے کہ کائنات کی تمام تر تخلیقات میں سے کوئی بھی تخلیق ،برائے تخلیق نہیں ہو سکتی ۔ او ر وہ تما م تر مظاہر جو اس کے سائنسی دائرہ فہم و ادراک سے باہر ہیں ، سے بھی بہر حال انسان مستفید تو ہو ہی رہا ہے ۔ انسان کی عقل و شعور کا تقاضہ ہے کہ وہ کوئی بھی کام عبث نہیں کرتا بلکہ اپنی عقلی و نقلی بساط کے مطابق اپنی سمت کو درست خیال کرتا ہے۔ نباتات ، حیوانات اور جمادات میں سے کسی بھی مخلوق کا جب سائنسی تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہو تی ہے کہ اس میں موجود مادہ بے شمار صفات ، خوبیوں اور فوائدکا حامل ہے گویا اس کی تخلیق کا ضرور کوئی مقصد ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان تما م تر صفات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ استفادہ انسان ہی کیوں کرتاہے؟ ایسی کیا وجہ ہے کہ یہ تمام تر مخلوقات حضرت ِ انسان سے پیچھے ہیں؟ اور انسان کو ان پر فوقیت کیوں حاصل ہے؟ جواب یہ ہے کہ تمام ترمظاہر کائنات کا مقصد خدمت انسانی ہے اور سائنس ان مظاہر سے استفاد کی کلید ہے جوکہ اس کا جز ہے اور اس کی اصل انسان کو تخلیق کائنات کی حقیقت اور مقصد کو سمجھنے میں عقلی دلائل فراہم کر کے معرفت الٰہیہ کا حصول ہے۔

تبصرے بند ہیں۔