’ادبی کہکشاں ‘کی طرف سے شعری مقابلہ و نشست کا انعقاد

جو بار بار یہ دعویٰ کرے کہ تیرا ہے اے میرے یار تو اپنا اسے کبھی مت جان

کامران غنی صبا
پٹنہ/ جمشیدپور28 نومبر(پریس ریلیز) واٹس اپ گروپ ادبی کہکشاں کے ایڈمنز مجاہد سلیم ، اور زارا فراز نے پچھلے دنوں ایک بہت ہی دلچسپ اور منفرد شعری نشست منعقد کی ۔جس میں خصوصی طور پر احمد کمال حشمی ، جمیل اخترشفیق ، کامران غنی صبا اور ڈاکٹر رئیس الرحمان مدعو تھے۔ نشست میں کہنہ مشق شعراء کے علاوہ نو آموز شعراء و شاعرات نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس موقع پر کئی ایسے نام بھی سامنے آئے جن کی ادبی دنیا میں کوئی شناخت نہیں تھی۔آئیزا کوثر،ثمر آرزو ، ذاکر انوراور فاخرہ فرح کا شمار ابھی نو آموزشعرا و شاعرات میں ہو رہا ہے ۔ ان کے علاوہ دانش اثری ، وسیم احمد فدا ، منصور قاسمی ،نہال جالب ،نور جمشید پوری ، اصغرشمیم، عمران ساغر، زارا فراز اور مدنی مجاہد سلیم نے بھی حصہ لیا ۔ تمام شعرا کے کلام پر بھرپور تنقید و تبصرے ہوئے ۔خاص طور پر وسیم احمد فدا اور دانش اثری نے ایک ایک شاعر کے کلام پر اطمینان بخش تجزیہ و تبصرہ کیا۔ نشست کئی دنوں پرمشتمل رہی۔ نشست کے اختتام پرخصوصی مہمانان کرام وجج صاحبان کے کلام بھی پیش کئے گئے ۔جج صاحبان کامران غنی صبا ، جمیل اختر شفیق اور احمد کمال حشمی کے دئیے ہوئے نمبرات کو ملا کر نتیجے کا اعلان احمد کمال حشمی نے کیا۔ اول پوزیشن نوعمر شاعر انعام عازمی ، دوم پوزیشن عمران ساغر اور سوم پوزیشن زارافراز نے حاصل کی۔ شروع سے آخر تک نشست بہت ہی کامیاب رہی۔ آخر میں تمام ہی شعراء و مہمان خصوصی صاحبان نے اپنے زریں تاثرات پیش کئے ۔ تمام شرکاء نے پوزیشن حاصل کرنے والوں کو مبارک باد دی اور ان کے تابندہ مستقبل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ۔ مجاہد سلیم کے شکریہ اور اردو شعر و ادب کی ترویج و ترقی کے وعدوں اور پختہ ارادوں کے ساتھ نشست اختتام پزیر ہوئی۔نشست اور شعری مقابلہ میں پیش کیے گئے کلام کا منتخب حصہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے:
احمد کمال حشمی
جو بار بار یہ دعویٰ کرے کہ تیرا ہے
ائے میرے یار تو اپنا اسے کبھی مت جان
جمیل اختر شفیق
ریاکاری کا چشمہ جن کے آنکھوں سے نہیں ہٹتا
انہیں ہی آج کل سب صاحب کردار کہتے ہیں
کامران غنی صبا
میں اپنی آنکھوں کو رکھتا ہوں باوضو ہردم
کہ تیرا ذکر مقدس کتاب کی مانند
رئیس الرحمان
وہ اہلِ سیاست سے ردا مانگ رہا ہے
نادان طوائف سے ردا مانگ رہا ہے
انعام عازمی
جو لوگ چاہتے ہیں مٹانا مرا وجود
ان کو خبر نہیں ہے فنا ہو گیا ہوں میں
عمران ساغر
یہ مستقبل میں کام آئے گا اس کو غور سے دیکھو
جو منظر میری ان آنکھوں کی ویرانی میں رکھا ہے
زارا فراز
یہ ترکِ محبت کا قصہ کچھ اتنا تعجب خیز نہیں
کچھ میری وفا کی بھول تھی اور کچھ اس سے خطا سنگین ہوئی
منصور عالم قاسمی
دیکھئے مل رہا ہے سنگ کہ گل
خونِ دل ہم نچوڑ آئے ہیں
ثمر آرزو
ہر جہان کے مولیٰ ہر بہار تجھ سے ہے
ذات تیری اعلیٰ ہے اور وقار تجھ سے ہے
نور جمشید پوری
اک طرف آؤ رکھیں شکوے شکایت اپنی
لطف موسم کا ابھی روٹھ کے پھیکا نہ کرو
فاخرہ فرح
جب تھک گئی ہوں راہ الم سے تو ہم نوا
راہیں ہزار نکلی ہیں رستے ہزار ہیں
نہال جالب
مجھ کو پسند آ گئی بے رنگ زندگی
اب زندگی کو پیار کی رعنائیاں نہ دے
ذاکر انور
زندگی اک عذاب ہے جیسے
میرا جینا بھی خواب ہے جیسے
اصغر شمیم
اب تو منزل پر رکے گا جا کے میرا کارواں
میں ٹھہر سکتا نہیں اپنے سفر کے درمیاں
آیزا کوثر
مری خاموشیاں مری محافظ بن ہی جاتی ہیں
کبھی جب لوگ میرے حال پر باتیں بناتے ہیں
دانش اثری
خود روٹھوں خود من جاؤ یہ جیون بھی کیا جیون ہے
اپنا چہرہ ہی زخمی ہے یا پھر ٹوٹا درپن ہے
وسیم احمد فدا
کیوں مری ہی ذات میں ہے تشنگی حد سے سوا
میرے اندر پیاس کا یہ بے کراں صحرا ہے کیوں
مجاہد سلیم
جاتے جاتے جھلستے سورج نے
رکھ دیا سارا شہر جھلسا کر

تبصرے بند ہیں۔