انتقادِ فکر اور اسلام 2

عقیدہ معرفت ہی انسانیت کی معراج ہے اور یہی حتمی علم ہے اور جس ذات نے یہ مقصد متعین فرمایا ہے اس نے اس کی تلاش و جستجو کی جو حتمی راہیں تجویز فرمائی ہیں وہی اصل ہیں جن میں سے ایک مذکورہ سائنسی طریقہ کار ہے جس پر چلنا ہر ایک کے لئے شرط نہیں اور نہ ہر فر د اپنی استعداد کی بناپر اس کا مکلف ہے جو اعلی ایمانی استعداد کے مالک ہیں انہیں عقائد میں تشکیک اورتحقیق کی جستجو نہیں ہوتی ۔ تخلیق ِ آدم سے آج تک خالق ِانسانی نے محض علم کی بنیاد پر اشرف و فائق مخلوق حضرتِ انسان کو زندگی گزارنے کا جو اسلوب عطا کیا ہے وہ دینِ اسلام ہے ۔ ختم نبوت اصل وجہ ہے تحفیظ دین کی ، اس لئے قرآن کی تحفیظ کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہ خیال کہ تھیولوجی میں سائنسی علم نا قابل تحقیق (Unascertainable)ہے ، سطحیت کی حد تک درست ہے لیکن فلسفہ جس Reasoning کا مدعی ہے یہ محفوظ ہدایت کی دعوتِ تدبر ہی تو ہے اوریہ ہدایت مظاہر کائنات کے بے پناہ راز بھی رکھتی ہے اور ان کی کھوج کی راہیں بھی دکھاتی ہے ۔ سائنس کے بر عکس فلسفہ جز کی بجائے کُل کی بات تو کرتا ہےلیکن قرآن جزیات و فروعیات سے بحث نہ کرتے ہوئے اُس اصل کا داعی بھی ہے اور اسے متعین بھی کر چکا ہے جس کی تلاش میں فلسفہ نہ جانے کب تک ادھیڑ بُن کرتا رہے گا ۔ گویا یہ ثابت ہوا کہ مذکورہ بالا (فلسفیانہ )سوال کہ بودو ہستی کا آخر مقصد کیا ہے؟ کا جواب محض انسانی عقلی بساط کے بس کی بات نہیں ۔ جب تک یہ روش قائم رہے گی تب تک ان کے لئےحقیقت مختلف آراء کی صورت میں ایک تضاد بنی رہے گی۔ صداقت ِقرآن سائنسی کسوٹی کی محتاج ہر گز نہیں لیکن ایمبریولوجی سےے لے کر آسٹرونومی تک سائنس کے بیشتر میدانوں میں انسان کو حقیقی بنیادیں فراہم کی ہیں ۔ کیاچھٹی صدی عیسوی میں ان رازوں سے پردہ ہٹانے یا یوں کہہ لیجئے کہ ان سائنسی حقائق کو جاننے کے لئےکیا سائنسدانوں کی ایک جماعت اٹھارویں ، انیسویں یا بیسویں صدی عیسوی سے مستعار لی گئی تھی ؟ کہ العیاذ باللہ الحامی دستاویز تیار کرنی ہے۔ اس کا جواب مجھے دینے کی اب ضرورت باقی نہیں رہی بلکہ یہ بات دورِ حاضر میں روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ قرآن مجید کے علاوہ کوئی آسمانی کتاب ایسی نہیں جو سائنسی علم سے تضادات اور ناممکنات کی حامل نہ ہو ۔ تفصیل کے لئے میرا مضمون ، اسلام مخالف مہم اور ترقی اسلام ملاخطہ فرمائیں ۔
یہ بات خوب اچھی طرح ذہین نشین کر لی جائے کہ علم تفسیر ، علم حدیث ، اسماءالرجال ، فقہ ، علم کلام ، منطق اور تصوف وغیرہ وہ علوم ہیں جن کی مدارس دینیہ میں تدریس کی جاتی ۔ لیکن جیسے ایک کیمیا دان سے ٹیلی کمیونی کیشن کی کچھ خاص توقع نہیں رکھی جا سکتی یا ایک آسٹرونومرسے نیوروسرجری کی توقع نہیں کی جا سکتی بلکہ اس قسم کے مطالبے کو منطقی جوا ز تک نہیں دیا جا سکتا کیوں کہ آسٹرونومی کے تمام ترمطالعے اور تحقیقات کے بعداپنے فن میں مہارت رکھنے والے اس آسٹرونومر سے یہ شکایت کرنا کہ وہ نیوروسرجری سے کیوں عاجز ہے گویا آسٹرونومی پر یہ الزام دینے کے مترادف ہے کہ آسٹرونومی کے علم کی تحصیل کے بعد نیورولوجی کے اسرار ناقابل تحقیق ہیں کیوں کہ وہ نیورولوجسٹ پیدا کرنے سے قاصر ہے یا نیورولوجی سے متعلق انسانی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی جو کہ اپنی جگہ ایک یقینی امر ہے بعینہ اسلا می تعلیمات(الحامی مسودہ یعنی قرآن و حدیث) پر الزام دینا یا علوم اسلامیہ کے فیض یافتگان سے اسی قسم کا تقاضہ کرنا بھی یہی حیثیت رکھتا ہے۔
مذہب پر یہ تنقید کہ یہ محض مذہبی اسلاف کی تعلیمات سے ماخوذ اور معاشرتی تعاملات سے تعبیرات و تاویلات کی رفتہ رفتہ اختیارکردہ حتمی شکل ہے جس میں کسی نئی سوچ ، نئی فکر اور تغیر و تبد ل کی گنجائش نہیں سراسرنا انصافی ہے آئیے نہایت منصفانہ و عادلانہ اس کا جائزہ لیتے ہیں اور حقائق تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسلام پر اس نظریے کا کلی طور پر ا طلاق کا درست ہونا ناممکنات میں سے ہے اور یہ کہنا کہ مذہب اسلام کے تمام پیروکار ۔۔۔رسومات ، توضیحات ، تاویلات اور تعبیرات سے مبرا ہیں ، بھی قطعا درست نہیں کیوں کہ اسلام نے انہیں خرافات کو بدعات سے موسوم کیا ہے ۔ لیکن یہ امر یقینی ہے کہ یہ تمام تر فرسودگی محض جہالت ہے جس کا قرآن و حدیث سے تعلق ہر گز نہیں اور اس فرسودگی کا تعلق اسلام سے جوڑنا جہل مرکب ہے۔ صداقتِ قرآن پر مزیدبحث کی یہاں ضرورت باقی نہ ہے اور حدیث مبارکہ کی سند پر اسماءالرجال سے استدلال کافی ہے جس کی بنیاد پر متواتر ، مشہور،، صحیح(متفق علیہ )، حسن ، ضعیف، موضوع کی تقسیم موجود ہے ۔ اسماء الرجال پیغمبر کی تعلیمات میں باقی اسلاف کی تعلیمات کے اضافے ، ردوبدل کے لئے ری فائنمنٹ سسٹم ہے جو کہ تحفیظ ذکر (قرآن) کا ہی حصہ ہے چوں کہ حدیث ہی قرآن کی تشر یح و تفسیر ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی تمام تعلیمات پوری سند کے ساتھ آج تک محفوظ ہیں جس کی مثال باقی تمام مذاہب عالم پیش کرنے سے قاصر ہیں حتیٰ کہ بانی مذہب کا ایک قول بھی پوری سند کے ساتھ پیش نہیں کر سکتے ۔ قرآن و حدیث نے عقائدکی وضاحت کر دی ، ضعیف احادیث کو مسائل کے استنباط میں ترجیحا کوئی دخل حاصل نہیں اور فضائل میں ضعیف احادیث کو لیا جاسکتا ہے ۔ اختلاف محض فروعی نوعیت کا ہے مثال کے طور پر تمام مسلمان ایک اللہ ، ایک رسول ، ایک قرآن ، تمام انبیاؑ ، ملائکہ ، یوم آخرت ، جنت و جہنم ، تقدیر منجانب اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز ، روزہ، حج ، زکوٰة و عشر ، پردہ ، حرمت ِ سود، شراب اور زنا وغیرہم اور دیگر تمام احکامات پر متفق ہیں اختلاف رائے طریقہ ہائے کار سے ہے ، فقہا ئے اسلام نے جس قول کو قرآن وحدیث ، صحابہ کے عمل وغیرہ کی بنیاد پرراجح سمجھا اس کو اختیار کیا ہے ۔ بودوباش میں نت نئی رسومات مثبت یا منفی تاثرات او ر رہن سہن کے جدید انداز تو ہو سکتے ہیں مذہب کا حصہ نہیں ۔
رہا نئی فکر و سوچ کا معاملہ تو کیا آپ کے مطالعہ اسلام میں اجماع و قیاس (اجتہاد ) کا پہلو نہیں گزرا ۔ جدید معاشرے کے ابھرتے ہوئے جدید مسائل کو اجتہاد و اجماع نے اپنی وسعتوں میں سمیٹ لیا ہے ۔میڈیکل سائنسز ، لیبر و ایمپلائیز لآز ، پے ، پینشن اینڈ سروسز ، اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس ، تکافل ، مضاربہ و بزنس کے حوالے سے مفتی تقی عثمانی کا ورک امت کے لئے احسان ہے ، جدید فوڈ کیمسٹر ی سے حلال فوڈز کے مسائل کا حل ، جدید فلکیات پر مولانہ موسیٰ البازی کا ورک اور جیوگرافی سے متعلق تعین سمت قبلہ اور رویت حلال کے مسائل کا حل کس امر کی دلالت کرتے ہیں۔ محقق علماء و مجتہدین کے احیائے علوم کے لئے کام پر دیانتا ً نظر ڈالی جائے تو اشکال باقی نہ رہے گا۔ لیکن دوسری جانب اصل ، جس پر امت کا اجماع ہے ، پر جسارت کرنے والوں کی ستائش کے کیا معنی ہیں؟ اصل میں رخنہ اندازی ، سنت کے کھلم کھلا انکار کو اجتہاد کیوں کر کہا جا سکتا ہے ؟ مجددین و مجتہدین امت کے محسنین ہیں ان کو حقار ت سے مُلّاں کہنے سے ۔۔۔ مُلّاں کو کوئی تکلیف نہیں لیکن جدت پسند کومتجدد نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟
اسینٹ آگسٹن ، کارل پوپراور دیگر کئی فلاسفر ز کی مذہب کے بار ے میں رائے سے متاثر کچھ متاخرین نے اس کا اطلاق کلی طور پر تمام مذاہب پرکردیا جن میں اکثر صراحتاً اسلام پر جسارت تو نہیں کرتے لیکن بادی النظر میں ان کا مذہب سے عمومی خطاب ان کی دلی تمنا کو یقینا ظاہر کر دیتا ہے ۔ اگر ان حالات و قرائن کو مدنظر رکھا جا ئے جن کے پیش نظر متقدمین نےیہ آراء قائم کی ہیں تو اسلام سے معاملہ یقینا سلجھ جائے گا ۔ اُن فلاسفرزنے حقائق کی تلاش کو مقد م رکھا ، مقدس صحائف کو سائنس کی کسوٹی پر رکھا تو تضادات و ناممکنات کے انبار نے یہ کہنے پر مجبور کر دیا تھا کہ مذہب ایک بند گلی ہے جو تاویلات و تعبیرات او ر بانی ءمذہب او ر اس کے متعلقین کی تعلیمات کا مجموعہ ہے جسے مکافات عمل کے نتیجے میں ہونے والے تعاملات نے موجودہ (حتمی) شکل دے دی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ Jean Guitton نے یہ کہا کہ ” بائبل میں سائنسی غلطیاں (دراصل ) انسانوں کی ( پیدا کردہ یا اضافہ کردہ) غلطیاں ہیں، عرصہ دراز قبل انسان سائنس سے جہالت کی وجہ سے ایک بچے کی طرح تھا "۔ لیکن قرآن کی حقانیت کو تسلیم کرنے کے لئے بڑا دل سب کے پاس موجود نہ تھا بایں ہمہ کچھ حقیقت کے حقیقی متلاشیان نے ایسا کرنے سے بھی گریز نہ کیا ۔ یہ سلسلہ چل نکلا اور آج قبول اسلام کی سب سے بڑی ظاہری وجہ قرآن کی سائنسی حقائق سے ہم آہنگی ہے ۔۔

تبصرے بند ہیں۔