مطلقہ و خلع یافتہ خواتین کے ساتھ ہمارا سلوک

کیوٹی وی پرپیش کیے جانے والے مقبول عام پروگرام ’’رحمتِ سحر‘‘میں ایک خاتون نے رندھی ہوئی آواز میں سوال کیا۔’’میری شادی ٹوٹ گئی ‘میرے افرادِ خاندان نے مجھے گھر سے نکال دیا‘میرے بھائی بہن مجھ سے بات نہیں کرتے‘میں تنہاء رہ رہی ہوں ‘میرے پاس پیسے ختم ہورہے ہیں ‘ کیادوبارہ میری شادی نہیں ہوگی‘ میرے اپنے میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہے ہیں ؟‘‘آنسوؤں میں بھیگے ہوئے اس سوال نے فضاء کو افسردہ کردیاتھا ۔ پروگرام کے اینکرنے اظہارِ دکھ کے ساتھ اس خاتون کودلاسہ دیا کہ میری بہن‘ ہمت سے کام لیجئے ‘آپ کی رندھی آواز نے ہمارے دل کو متاثرکیاہے ۔‘‘
یہ خاتون کون تھیں‘ان کی شادی کیوں ٹوٹی ‘ ان کے بھائی بہن کیوں ناراض ہیں؟انہیں تنہاء رہنے پرکیوں مجبورہوناپڑرہاہے‘کسی تحقیق کے بغیر کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ہوسکتا ہے کہ اس خاتون کی بھی کوئی غلطی ہو‘لیکن روتے ہوئے اس خاتون نے جو کچھ باتیں پروگرام کے اینکر کو فون پربتائیں وہ بڑی بوجھل کردینے والی تھیں۔
ایک جوان عورت رشتہ داروں کے ہوتے ہوئے بھی آخرکیوں کہیں تنہاء گزربسرکرنے پر مجبورہو؟آخراس نے کیا قصورکیاہے کہ اس کے افرادِ خاندان اس کے تحفظ اور سلامتی سے بھی بے نیازہوگئے ہیں؟ اس خاتون کا کہناتھا کہ میری شادی ٹوٹ گئی‘ کیادوبارہ میری شادی نہیں ہوگی؟
ہمارے مسلم معاشرے میں مطلقہ اور خلع یافتہ خواتین کے لیے طنزکے تیر‘ تنقیدکے پتھر‘تو موجود ہوتے ہیں ‘لیکن انہیں دوبارہ بسانے کی کاوشیں نہیں ہوتیں۔
زوجین میں علیحدگی انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے‘لیکن جب یہ ناگزیرہوجائے اور طلاق وخلع کی نوبت آئے تو مرد سے زیادہ عورت کی زندگی متاثرہوکررہ جاتی ہے۔ عورت کے حصے میں یہ شکوے اور طعنے آتے ہیں کہ اس کی اپنی نااہلی کی وجہ سے یہ رشتہ ٹوٹ گیا۔ سینکڑوں خواتین دکھ اوراذیت اٹھاتے ہوئے نکاح کی ڈورکوتھامے رہتی ہیں ‘وہ اسے ٹوٹنے نہیں دینا چاہتیں‘ اپنے والدین کی خاطر‘بچوں کے لیے ‘سماج کے خوف کے سبب اس رشتہ کو اگروہ بوجھ بھی بن جائے تو اسے اٹھاتی ہیں‘بہت کچھ سہہ جاتی ہیں‘ حالاں کہ شریعت نے انہیں اختیاردیا ہے کہ اگر وہ نکاح کے بندھن سے خوش نہیں ہیں تو آزادہوجائیں۔
احسن اورپسندیدہ بات تو یہی ہے کہ جو رشتہ ایک بارجڑگیا اسے اس کی تمام تر خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ اپنایاجائے۔ کامل کوئی نہیں ہوتا ‘ شوہراوربیوی دونوں کی کچھ کمزوریاں ہوسکتی ہیں‘ کچھ ناپسندیدہ عادتیں ہوسکتی ہیں‘اس کے باوجود بھی صبروتحمل‘عفوودرگذر‘سمجھداری اور معاملہ فہمی اور مہرومحبت کے ساتھ زندگی کا سفرطئے کیاجاسکتاہے۔
بے شک زوجین کی علیحدگی پسندیدہ نہیں ہے۔لیکن خدااوراس کے رسولؐ کو یہ بھی گوارا نہیں کہ شوہریابیوی ایک دوسرے سے ناخوش رہیں اور ان کاخوبصورت رشتہ ایک گھناؤنی صورت اختیارکرلے ‘اسی لیے انہیں یہ اختیار دیا گیا کہ اگر کسی صورت بات بنتی نظرنہ آئے تو دونوں عمدہ طریقے سے اور حسن سلوک کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدہ ہوجائیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگرکسی خاتون کواس کا شوہرچھوڑدے یا وہ خود مجبورہوکراپنے شوہر سے خلع حاصل کرلے توکیا اس کی زندگی کا یہیں پر خاتمہ ہوجاناچاہیے یااسے دوبارہ اپنی زندگی کو سنوارنے کا موقع ملناچاہیے؟
اگرکوئی عورت اپنی ازدواجی زندگی میں خوش نہیں ہے تو اس کے سرپرستوں کو سنجیدگی سے اس معاملے کا جائزہ لینا چاہیے ۔ان کی اپنی بیٹی اگرغلطی پرہوتواسے سمجھایاجائے‘مفاہمت کی ہر کوشش کی جائے ‘ لیکن بدقسمتی سے اگرطلاق اور خلع ہی کا راستہ اختیارکرنا پڑے تو مطلقہ اور خلع شدہ عورتوں کے ساتھ ناکارہ اشیاء کی طرح سلوک نہ کیاجائے۔ سرپرست یہ خیال نہ کریں کہ ہم تو اس کا نکاح کرکے بری الذمہ ہوگئے تھے‘پھر سے ہم پراس کا بوجھ پڑگیا۔سرپرستوں اور مسلم معاشرہ کا یہ فرض ہے کہ وہ بیوہ ‘مطلقہ اور خلع یافتہ خواتین کادوبارہ نکاح کردیں‘ اورجب تک ایسا نہ ہو وہ ان کے محافظ ‘نگران اورکفیل بن جائیں‘ انہیں تنہاء آنسو بہانے کے لیے یا کوئی اور ناپسندیدہ راستہ اختیار کرنے کے لیے بے حسی کے ساتھ چھوڑنہ دیاجائے۔

تبصرے بند ہیں۔