انجمن فروغِ ادب، بحرین کا گیارہواں عالمی مشاعرہ

انجمن فروغِ ادب، بحرین کا گیارہواں عالمی مشاعرہ بیادِ شاہد نجیب آبادی اپنی تمام تر ادبی لطافتوں کیساتھ اختتام پذیر ہوا تو مشاعرے میں شریک شعرائے کرام اور سامعین و حاضرین کے حوصلہ افزا اور تہنیتی تاثرات نے اس کی شعری افادیت کو مزید اجاگر کر دیا۔مملکتِ بحرین کے دارالحکومت منامہ کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں منعقدہ اس مشاعرے کی بنیادی غائت، بحرین و گلف کے ممتاز شاعر اور علمی شخصیت  شاہد نجیب آبادی(مرحوم و مغفور) کی جملہ خدمات کو شایانِ شان انداز میں خراج پیش کر نا تھا۔اس سے قبل بھی ۲۰۰۷ء میں کچھ ادب نواز دوست اس حوالے  سے جشنِ شاہد کا اہتمام کر چکے ہیں۔ اس عالمی مشاعرے کی صدارت، پاک و ہند کے نامور شاعر،ادیب، محقق،معلّم اور تنقید نگار ڈاکٹر پیرزادہ قاسم  صدیقی نے کی، مہمانِ خصوصی عزت مآب سفیرِ پاکستان برائے بحرین، افضال محمود تھے جبکہ مہمانِ اعزازناصر علی خان(فرزندِ شاہد نجیب آبادی) تھے۔ یہ عالمی مشاعرہ دو حصوں پر مشتمل تھا، پہلا حصہ صاحبِ مشاعرہ کی تحدیثِ خدمات اور اس حوالے سے اْن کے لئے لکھے گئے مضامین و کلام اور مہمان شعراء￿  کی شعری نگارشات ہر مبنی مجلّے اظہار کی تقریبِ اجراء، جبکہ دوسرا حصہ مشاعرے سے منسوب تھا۔ابتدائی حصے کی نظامت کے فرائض مجتبیٰ برلاس نے سر انجام دئے۔

اس عالمی مشاعرے کے ابتدائی حصے کا آغاز کرتے ہوئے، مجتبیٰ برلاس نے کہا کہ انجمن فروغِ ادب بحرین ایک تعمیری ادب کی نشوو نما کے لئے مصروفِ عمل ہے۔ادبی منظر ناموں کی تعمیرو ترویج کے حوالے سے زندہ قومیں اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتیں۔ اس حوالے سے شاہد نجیب آبادی مرحوم بحرین اور خلیج کی وہ سرکردہ شخصیت تھے کہ جن کی خدمات شعر وادب پچاس سالوں پر پھیلی ہوئی ہے۔۔اس تقریب کا تعارف پیش کر نے کے بعد انہوں نے اس عالمی مشاعرے کے روحِ رواں اور مرکزی کردار طاہر عظیم کو استقبا لیہ کلمات کے لئے سٹیج پر بلایا۔

انجمن فروغِ ادب کے کنوینر اور بحرین کے معروف شاعر طاہر عظیم نے اپنے استقبالیہ اظہارئے میں معزز شعرائے کرام اور شرکائے مشاعرہ کا شکریہ ادا کرتے ہو کہا کہ ’’ ہماری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ ہم اپنے مشاعرے ان شخصیات سے منسوب کریں جو واقعی اس کے حقدار ہیں۔ آج سے قبل اس سلسلے میں انجمن،بیادِ عطا شاد، عزم بہزاد،قابل اجمیری،سلیم احمد اور بیادِ سعید قیس، عالمی مشاعرے منعقد کر چکی ہے۔الحمد للہ کچھ سالوں سے ہمارے مشاعرے بہتر سے بہتر ہو رہے ہیں۔

مجلسِ فخرِ بحرین کے سرپرست اور بانی جناب شکیل احمد صبر حدی کی جانب سے شاہد نجیب آبادی کے بارے میں تاثراتی پیغام پڑھنے کا فریضہ خرم عباسی  نے سر انجام دیا، جناب شکیل احمد صبر حدی نے اپنے تاثراتی پیغام کا خلاصہ یوں ہے کہ،

میرے ذہن میں ہمیشہ ہی ان کی نفیس اور صلح جْو شخصیت کا ایک گہرا تاثر بنا رہا۔وہ اچھے شاعر بھی تھے، اور اس سے بڑھ کر ایک اچھے انسان تھے۔۔ شاہد نجیب آبادی سے جب بھی ملاقات ہوئی میں نے اْن کو بہت ملنسار اور منکسرالمزاج پایا۔ ان کی سوچ بڑی مثبت اور دوستانہ تھی۔وہ کبھی کوئی متنازعہ بات نہیں کر تے تھے۔وہ اپنی ذات اور شاعری میں بڑے حقیقت پسند تھے، اس حقیقت پسندی کا عکس ان کی شخصیت میں بھی نظر آتھا تھا‘‘۔

ا حمدعادل نے جناب شاہدنجیب آبادی کے قریبی دوست نورپٹھان کی یاد  داشتوں پر مشتمل تحریر پیش کرتے ہوے کہا’’سن باسٹھ میں بحرین میں دو چار ہی شاعر ہوتے تھے  جیسے شاہد بھاء ، جمیل جعفری، عزیز جعفری، شجعی جعفری۔ ان سبکو ساتھ رکھنا اور انکے فن کو زندہ رکھنا یہ شاہد بھائی کا مشن تھا۔

مہمانِ خصوصی عزت مآب سفیر پاکستان  برائے بحرین افضال محمود نے شرکائے عالمی مشاعرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، ’’  میں مشکور ہوں منتظمینِ مشاعرہ کا جنہوں نے مجھے یہاں کھڑا ہو نے کی اجازت دی، اس کے بعد میں بیحد مشکور  ہوں ان شعرا کا جو بہت سارا فاصلہ طے کر کے یہاں آئے اور اس مشاعرے کو رونق بخشی۔اس کے علاوہ میں بہت دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں پیرزادہ قاسم کا جنہوں نے اس مشاعرے کو رونق بخشی۔ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ آج یہاں موجود ہیں۔

   اس عالمی تقریب کے ابتدائی حصے کے نا ظم مجتبیٰ برلاس نے مہمانِ اعزاز، فرزندِ شاہد نجیب آبادی کو اظہارِ خیال کی دعوت دی تو انہوں نے گہرے جذباتِ تشکر کیساتھ اس عالمی مشاعرے کے انعقاد اور اس کے شاندار انتظامات پر طاہر عظیم اور دیگر تمام اراکینِ انجمن کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد شاہد نجیب آبادی کی شخصیت اور فن کے  حوالے سے ایک خوب صورت مجلے کا اجراء  عمل میں لایا گیا۔ اس مجلّے  ’’اظہار ‘‘ کی تقریب اجراء ، صدرِ مشاعرہ، مہمانِ خصوصی، مہمانِ اعزاز،پاک و ہند اور بحرین کے شعرائے کرام اور انجمن کے جملہ منتظمین کے ہاتھوں انجام پائی۔اظہار کی تقریبِ اجراء  کیساتھ ہی اس عالمی مشاعرے کا ابتدائی حصہ اختتام کو پہنچا۔اس کے بعد عالمی مشاعرے کا اغاز ہوا جس کی نظامت کے فرائض ہندوستان سے تشریف لائے ہوئے اردو غزل کے معروف شاعرمنصور عثمانی نے کی۔  اس عالمی مشاعرے کو عمدہ اور نفیس کلام کے حوالے سے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔تمام شعراء  نے بھر پور انداز میں اپنا کلام پیش کیا اور شرکائے مشاعرہ سے خوب داد وصول کی۔پڑھے گئے کلام کی نمایاں شعری جھلکیاں قارئین کی نذر ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔