اندھیری رات میں گرج چمک

میاں محمد عاقب صفدر

"۔۔۔۔۔تم کہاں ہو مجھے اپنا ہاتھ دو، ہم ایک ساتھ چلتے ہیں، اگر دونوں میں سے کسی کو ٹھوکر لگے گی تو دوسرا اس کا سہارا بنے گا۔۔۔۔تم ٹھیک کہتے ہو لیکن تم کہاں ہو مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا ۔۔۔۔۔ اس لیے میں نے تم سے کہا تھا کہ جدا نہ ہو ، دیکھنے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔”

اتنے میں ہوا کے ایک جھونکے نے نوید کو کہانی کی خیالی تجسس سے بھرپور بھول بھلیوں میں اٹکا کر رکھ دیا۔موسم کی خرابی کی وجہ سے بجلی میں پیدا شدہ خرابی اور نوید کے کمال کے کہانی کے شوق نے اس کو موم بتی کی روشنی میں پڑھنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جیسے ہی وہ ماچس کو گھپ اندھیرے میں ہاتھ سے تلاش کرنے لگاتو اسے یاد آیا کہ ماچس میں صرف ایک ہی تیلی تھی جووہ  اپنا شوق پورا کرنے کے لئے جلا چکا تھا۔ شدید گرمی کے موسم میں جہاں ہر کسی نے گرمی کی شدت میں کمی  کی دعا کی تھی اب  اس ٹھنڈی پر ہوا جو کی کسی نعمت سے کم نہیں تھی نوید کو غصہ آرہا تھا۔انہیں ملے جلے جذبات میں نوید کو یاد آیا کہ ماں نے صبح کھانا کھلاتے ہوئے اس کو ماچس لانے کے لیے پیسے دیے تھے۔

نوید ایک دس سالہ بالوغت میں قدم رکھتاہوا خوبصورت اکلوتا بیٹا ہے۔ نوید اپنے والد کی وفات سے اگلے دن پیدا ہواتھا ، نوید کی پیدائش سے قبل اس کی والدہ مکمل طور پر غم سے نڈہال تھی مگر جیسے ہی اسے پتا چلا کی اس نے ایک لڑکے کو جنم دیا ہے تو اس میں زندہ ہونے اور زندہ رہنے کی امید پیدا ہوئی یوں اس نے اپنے بچہ کا نام نوید رکھا۔ نوید کی والدہ ایک اللہ والی خاتون تھیں وہ ہر وقت نوید کی تربیت کے لیے فکر مندی کی حالت میں اللہ کے حضور دعا گو رہتی، وہ لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا گزر بسر کرتی تھی مگر نوید کو اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے لیے اسکول کے بعد شام تک ایک ہوٹل میں کام کرنا پڑتا تھا ۔ نوید کام تو کرتا تھا مگر اس کو پڑھائی سے زیادہ کہانیاں پڑھنے میں دلچسپی تھی۔ یوں جو چند روپے جو شام کو وہ کام کرنے کے بعد حاصل کرتا ان کی کہانی خرید لیتا اور رات کو اسکول کا کام کرنے کی بجائے وہ پڑھتا۔اسکول میں جب وہ اپنا کام نہ استاد کو دکھاتا تو استاد جی نوید کو الو کہتے ہوتے ڈانٹ دیتے۔

اتنے میں نوید کو یاد آیاکہ الوکو تو اندھیرے میں نظر  آتا ہے اگر وہ الو ہے تو اس کو اندھیرے میں نظر کیوں نہیں آرہا جبکہ وہ بقیہ کہانی کے لیے بے چین ہے۔ استاد جی نوید کو "الو” ، "الو” کہہ کر "الو” بنا رہے تھے اور نوید بھی اپنے آپ کو روزانہ "الو” سن سن کے خود کو "الو” ہی سمجھنے لگ گیا تھا۔

ایک طرف کہانی کا تجسس بھرا بقیہ حصہ نوید کی جان تنگ کر رہا تھا اور دوسری طرف اندھیرے کی زنجیروں نے اس کی انکھوں کو  یوں جکڑ رکھاتھا کے مکمل طور پر بے بس تھا۔ نوید کی بے چینی اس حد تک تھی کہ اس کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اس پریشانی کے دس سے پندرہ منٹ کے دورانیہ میں وہ اس فیصلہ تک پہنچا  "اس پریشانی سے تو اچھا تھا کہ وہ کہانی ہی نہ پڑھتا”۔  جیسے ہی یہ خیال نوید کے  دماغ سے گزرا اسی لمحے ایک انتہائی زور دار  گرج کے ساتھ بجلی چمکی تو نوید کی نظر کتاب پر پڑی کیونکہ نوید اب تک کتاب پر ہی نظر جمائے اپنے خیالات میں گم بیٹھا تھا۔اس خوفناک گرج سے نوید کی ماں کی آنکھ کھل گئی یہ دیکھنے کے لیے کہ کہیں اس کا بیٹا ڈر تو نہیں گیا، نوید اس وقت سے قبل بجلی کی گرج چمک سے ڈرتا تھا مگر اب وہ دوبارہ بجلی کی گرج چمک کے لیے دعا کر رہا تھا تاکہ وہ کتاب پڑھ سکے۔

صبح ناشتہ کے دوران جب ماں نے نوید کو پیسے ماچس لانے کے لیے دیے تو نوید نے چولھے کے پاس پڑی ماچس اٹھا کر دیکھا تھا تو اس میں صرف ایک ہی تیلی تھی جو کہ اس نے موم بتی جلانے کے لیے استعمال کی تھی۔ اتنے میں دوبارہ بجلی اپنی پوری گرج چمک کے ساتھ آسان میں پر ظاہر ہوتی ہے مگر اس کی روشنی سے نوید کہانی کی وہ ادھوری سطر پڑھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔، "۔۔۔۔۔۔دیکھنے کے لیےروشنی لازمی ہوتی ہے۔۔۔۔۔”  یہ جملہ نوید کے دماغ میں اٹک کر رہ گیا کیونکہ روشنی کی اہمیت اس کو معلوم ہو چکی تھی۔ اس کے ذہن میں آیا کہ اگر ماچس میں صرف ایک ہی تیلی تھی تو ماں نے شام کو آگ نہیں جلائی ہو گی اور نہ کھانا پکایا  اور نہ کھایا ہو گا۔ نوید تو شام کا کھانا ہوٹل سے کھا لیتا تھا۔ نوید کی والدہ جانتی تھی کہ نوید کو پڑھائی کی کتنی فکر ہوتی ہے کہ وہ گھر آتے ہی پڑھنا شروع کر دیتا ہے اور اسی فکر میں ماں جو سودا لانے کوبولتی تھی وہ اکثر بھول جاتا ہے، ماں کو اپنے بیٹے کے فکر کی اس حد تک فکر تھی کہ اس کو یہ خیال تھا کہ ہو سکتا ہے کہ آج میرا بیٹا ماچس لانا بھول جائے تو اگر میں نے یہ تیلی جلا لی اور رات کو لائٹ بھی نہ ہوئی تو وہ اسکول کا کام نہ کرسکے گا اور صبح استاد سے اس کو ڈانٹ پٹ جائے گی۔ شام کو جب وہ گھر آیا تو اس نے آتے ہی دیکھا کہ لائٹ نہیں تھی اس نے جلدی سے موم بتی جلائی اور کہانی کا آغاز کر دیا۔ اس کی والدہ اس اطمیںان کے ساتھ سو گئی کہ اس نے صبح اپنے بیٹے کو اسکول میں شرمندہ ہونے سے بچا لیا ہے۔

ہوٹل کے مالک نے بھی نوید کی ماں کو بتا رکھا تھا کہ نوید کام کے دوران بھی کھویا کھویا رہتا ہے کہ دھیان سے کام نہیں کر پاتا۔ اس روز بھی کچھ یوں ہی ہوا تھا کہ نوید نے کام میں کچھ غلطیاں کی اور مالک نے غصہ میں آ کر اس روز کی مزدوری نوید کو نہ دی تو نوید نے ماچس کے پیسوں سے کہانی خرید لی تھی، لیکن اب نوید دیکھ چکا تھا کہ اس نے کہانی کی بجائے اپنے لیے بے چینی ، اندھیرا ، استاد کے سامنے شرمندگی اور سب سے بڑھ کر اپنی ماں کی بھوک خریدی تھی۔

بجلی کی وہ چمک جس نے نوید کو یہ سب دکھا دیا نوید کی ماں کی دعا اور قربانی تھی جس نے نوید گمراہی سے بچا لیا یا شاید مصنوعی روشنی انسان کو وہ کچھ کبھی نہیں دیکھا سکتی جو قدرتی روشنی کی ایک کرن دکھا دیتی ہے۔

تبصرے بند ہیں۔