اندھیر نگری اور چوپٹ راج

’’شہ بے خبر کو اس سے کچھ سروکار نہیں‘‘

ترجمہ و تبصرہ: عبدالعزیز
آج کل پورے ہندستان میں مسٹر نریندر مودی کے راج میں جو کچھ ہورہا ہے، انگریزی روزنامہ ’’دی ٹیلیگراف‘‘ نے اپنے اداریہ میں اس کی تصویر کشی کی ہے‘‘۔ سب سے اچھا اور سب سے خراب‘‘ (Best and worst) کے عنوان سے وہ رقمطراز ہے:
’’کسی کی بھی حکومت ہو خواہ کوئی نظریہ یا اصول کی دعویدار ہو سرپرستی (Patronage) ہندستانی سیاست کا جزولاینفک ہوگیا ہے۔ وہ اپنے وفادار حمایتیوں اور شرپسندوں کو بطور انعام راجیہ سبھا کی ممبری دینے، یہاں تک کہ پیشہ ورانہ ادارہ کا سربراہ تقرر کرنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیتی۔ پیشہ ورانہ ادارہ کا ہیڈ یا سربراہ پیشہ ور یا ماہر کو ہی بنانا اہم اور ضروری ہے۔ لیکن جانبداری اور طرف داری کا بھلا ہو دیانتداری اور ایمانداری کی ساری حدیں آسانی سے توڑی جارہی ہیں۔ اس معاملہ میں مسٹر نریندر مودی کی حکومت نے پچھلی ساری حکومتوں کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔
معروف ماہر معاشیات جسے دنیا میں اپنے شعبہ میں مہارت حاصل ہے جو ریزرو بینک کے کام کو خوش اسلوبی سے کر رہا تھا اور بینک کی اصلاحات و ترقی کیلئے کوشاں تھا، اچانک وہ پارٹی کے شرپسندوں کے نشانے پر آگیا۔ اس کی ہندستانیت اور شہریت پر حملے ہونے لگے مگر وزیر اعظم خاموش تماشائی بنے رہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ اس سے پہلے ایک کرکٹر کو قومی فیشن ٹکنالوجی کے ادارہ کا ہیڈ مقرر کیا گیا۔ ایک گمنام اور غیر معروف شخص کو اٹھا کے لاکر پونے میں ایک فلم اور ٹیلی ویژن ادارہ (FTII) کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ یہ مودی حکومت کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ اچھا ہوا انھیں باہر جانے کا دروازہ دکھا دیا گیا۔
ایک ایسے شخص کو جو دیو مالائی تصور رکھتا ہے جو کہتا ہے کہ رزمیہ نظموں اور پرانوں کو جو ادبی انداز میں لکھا گیا، وہ سب صحیح اور درست ہے۔ اسے تاریخی ریسرچ کونسل کا ہیڈ مقرر کر دیا گیا۔ اس میں کوئی شک و شبہ کی بات نہیں ہے جو لوگ اپنی نا اہلیت اور نا قابلیت کے باوجود بڑے بڑے عہدوں پر مقررکئے گئے ہیں وہ بھاجپا، سنگھ اور مودی کے کٹر حمایتی ہیں، مگر ریزرو بینک آف انڈیا کا گورنر ان میں سے نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے کام کو خوش اسلوبی سے کرنے پر یقین کرتا ہے۔ اس سے ثابت ہوچکا ہے کہ مودی حکومت میں کسی مہارت رکھنے والے کو ترجیح نہیں دی جائے گی بلکہ صرف انھیں ترجیح دی جائے گی جو ہندوتو کے جھنڈے اٹھاتے ہیں یا مودی اور سنگھ کے گن گاتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس سے پیشہ ورانہ اداروں کی حیثیت اور اثر ختم ہوجائے گا۔ اور حکومت کے اچھے کاموں پر پانی پھر جائے گا، اس کا وقار مجروح ہوکر رہ جائے گا۔
سنگھ پریوار جس سے بی جے پی کا تعلق ہے تو وہ اس پریڈ یا زمانہ کو سنہرا کہتے ہیں جسے تاریخ میں ہندو پریڈ (Hindu Period) کہا جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو اس زمانہ ماضی سے جوڑتے ہیں اور اس کی وفاداری کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے کیونکہ ان کی تشریح و تعبیر نہ قبولیت کا درجہ رکھتی ہے اور نہ ہی حقیقت سے قریب ہے۔ وہ ماضی پرستی ضرور کرتے ہیں مگر ہندوؤں کے ماضی سے سبق لینے کیلئے تیار نہیں ہے۔ ہندستان کا وہ علاقہ جسے مدھیہ پردیش کہتے ہیں وہاں ایک راجہ گزرا ہے جو ہندستان کے قابل اور ماہر اشخاص کو اپنے پاس رکھتا تھا تاکہ وہ اچھے سے اچھا کام کر دکھائیں۔ اس کے دربار والوں نے اعلیٰ و ارفع قسم کی تخلیقات پیش کی ہیں اور دانشورانہ بحث و مباحثہ کی بنیاد ڈالی ہے۔ ’’ہندو انڈیا‘‘ میں تخلیقات کو پھلنے پھولنے کا بہترین موقع ملا، حساب دانی سے لے کر فلاسفی اور شاعری تک کو ترقی ملی لیکن ان پر اس وقت ہندوتو کا نہ بھوت سوار تھا اور نہ ہی وہ سب کو ہندوتو کی گرفت میں کسنے کیلئے کوشاں تھے‘‘۔ (دی ٹیلیگراف:21جون 2016ء)۔
جب سلطنت اندھیر نگری اور چوپٹ راجہ کی مصداق ہوجاتی ہے تو اس میں خواہ کچھ ہی ہوتا رہے شہ بے خبر کو اس سے سروکار نہیں ہوتا۔ وہ اپنے ارد گرد خوشامدیوں کا گھیرا بنائے رکھتا ہے۔ خوشامدی خواہ کتنے ہی شرپسند ہوں وہی اس کو راستہ دکھاتے ہیں۔ وینکیا نائیڈو مودی کو تحفہ قدرت سے تعبیر کرتے ہیں اور راج ناتھ سنگھ انھیں دیوتا سمان سمجھنے لگے ہیں۔ پیر چومنے والے تو اب ان کی پارٹی میں ہزاروں اور لاکھوں ہوگئے ہیں۔ یہی حال اس وقت کانگریس پارٹی کا تھا جب اندرا گاندھی کے امیت شاہ بروا تھے۔ وہ کہتے تھے انڈیا اندرا ہے اور اندرا انڈیا ہے۔ کانگریس خوشامدیوں کی وجہ سے قعر مذلت میں چلی گئی۔ آج اقتدار کانگریس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ تو کرپشن اور دوسری بڑی وجہ ایک خاندان کی چاپلوسی اور خوشامد ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔