حیرت انگیز قرآن- The Amazing Quran  قسط (2)

از: پروفیسر گیری ملر        ترجمہ: ذکی الرحمن فلاحی مدنی

تاریخ اسلامی کے ہر طالب علم کو یہ بات معلوم ہے کہ آپﷺ کی زندگی مشقتوں اور پریشانیوں سے بھری تھی۔آپ کی حیات میں ہی دیکھتے دیکھتے آپؐ کے کئی بچے وفات پا گئے۔ حضرت خدیجہؓ آپؐ کی محبوب و و فادارشریکِ حیات تھیں، وہ آپ کا بیحد خیال فرماتیں اور ہر مشکل گھڑی میں آپ کا سہارا بنتی تھیں۔ آزمائش وابتلاکے تاریک دور میں ہر غم کی شریک بیوی بھی انتقال فرما جاتی ہیں۔
یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ امّ المؤمنین حضرت خدیجہؓ فولادی کردار کی مالک اور بڑی دانش مند خاتون تھیں۔ احادیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺپہلی وحی کے نزول پر سراسیمگی میں تیزی سے گھر واپس لوٹے اور سارا ماجرا حضرت خدیجہؓ کو سنایا۔اس زمانے کو چھوڑیے، آج بھی ہمیں کوئی ایساعرب باشندہ نہیں مل سکے گا جو یہ اعتراف کرے کہ ’’میں فلاں موقعے پر اس درجہ خوف زدہ ہو ا کہ بھاگ کر اپنی اہلیہ کے پاس جاپہونچا‘‘عرب حضرات عام طور پر ایسا نہیں کرتے۔ لیکن یہ واقعہ حضرت خدیجہؓ کی اثرآفریں (Influential) طاقتور شخصیت کی دلیل ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺکی زندگی کے کتنے بڑے خلا کوانہوں نے پُر کیا ہو اتھا۔
یہ ان موضوعات میں سے کچھ کی مثالیں ہیں جن کے بارے میں قوی اندازہ ہے کہ انہوں نے بتقاضائے بشریت، محمدﷺ کے شفیق دل میں اپنے اثرات ضرور چھوڑے ہوں گے۔ لیکن یہ چند مثالیں ہی اپنی وز ن دار موثرانہ حیثیت سے میرے نقطۂ نظرکی بھرپور تائید کرتی نظر آتی ہیں۔ میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر قرآن کریم محمدؐ کے لا شعورانسانی ذہن کی اختراع اور ایجاد ہے، تو اس میں ضرور بالضرور ان جاں گسل واقعات کا تذکرہ یا ان کی طرف تھوڑا بہت اشارہ دکھائی پڑنا چاہیے، لیکن حقیقتِ واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے۔
قرآن کہیں پر بھی محمدؐ کے بچوں کی موت، پیاری شریکِ حیات کی جدائی اور اول وحی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خوف، جس کو آپﷺ نے باحسن طریق اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ بانٹا تھا، قرآن کہیں بھی تفصیلاً یا اجمالاً ان بشری احساسات وجذبات کا تذکرہ کرتا دکھائی نہیں پڑتا۔ نفسیاتی نقطۂ نظر سے بھی یہ بات مستبعد ہے کہ ان چیزوں نے محمدؐ کے دل ودماغ پر گہرے اثرات مرتسم نہ کئے ہوں گے۔ اب اگر یہ قرآن محمدؐ کے بشری ذہن کی ایجاد ہے تو اس میں ان واقعات کے گہرے اثرات، یا کم از کم ان کے متعلق ادنیٰ اشارہ تو ہونا ہی چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے، اور یہ نہ ہونا قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کا اٹل ثبوت ہے۔
قرآن کو علمی طور پر جانچنے کی بھی ضرورت ہے۔ قرآن علمی سطح پرہمیں ایسے خزانے عطا کر سکتا ہے جن کے عشر عشیر سے بھی دیگر آسمانی صحائف کے اوراق تہی دامن ہیں۔ آج دنیا کو قرآن کے لازوال علمی سرچشمہ کی تلاش ہے اور وہ جتنا جلد اس کو پالے اس کے لیے بہتر ہوگا۔
دنیا میں آج بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو کائناتی نظام کے بارے میں اپنے منفرد افکار ونظریات رکھتے ہیں۔ایسے لوگ ہر جگہ پایے جاتے ہیں، لیکن سنجیدہ علمی حلقوں میں ان کی گفتگو سننا تک گوارا نہیں کیاجاتا۔ ایسا کیوں ہے؟اس کا سبب یہ ہے کہ گزشتہ صدی کے اواخر سے علمی حلقوں میں کسی بھی مفروضہ یاتجربہ کے درست ہونے، نہ ہونے کے لیے ایک اصول اختبار برائے تغلیط (Falsificaion Test) متعین کر دیا گیا۔ اہلِ علم کے الفاظ میں وہ زریں اصول یہ ہے:اگر تمہارے پاس صرف کوئی تھیوری ہے تو برائے مہربانی اسے سمجھانے میں ہمارا وقت ضایع نہ کرو، البتہ اگر تمہارے پاس اس تھیوری کی صحت وعدمِ صحت کو ثابت کرنے کا کوئی عملی طریقہ موجود ہے تو ہم سننے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
اسی معیار کی اتباع میں علمی حلقوں نے صدی کے آغاز میں آئن سٹائن (Einstein) کی پذیرائی کی، آئن سٹائن نے ایک نئی تھیوری (Theory of Relativity) پیش کی اور کہا:میر اماننا ہے کہ کائنات اس ترتیب پر چل رہی ہے، تمہارے پاس میرے نظریہ کو غلط یا صحیح جانچنے کے تین راستے ہیں۔‘‘ اور پھر چھ سال کی مختصر مدت میں اس کے نظریے نے تینوں راستوں کو کامیابی کے ساتھ عبور کر لیا۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فی الواقع آئن سٹائن کوئی عظیم انسان تھا، البتہ اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس لائق تھا کہ اس کی بات کو بغور سنا جائے۔ کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ’’ میری فکر یا نظریہ یہ ہے ،اب اگر تم اس کو غلط سمجھتے ہو تو فلاں فلاں تجربات کر کے دیکھ لو۔‘‘
در حقیقت یہ قرآن کا لایا ہو ااصول ہے، وہ اپنی حقانیت کے ثبوت میں انسانوں کے سامنے یہی معیارِ تفتیش پیش کرتا ہے۔ اس معیار کی روشنی میں قرآن کے بعض حقائق نے ماضی میں اپنی صحت کا لوہا منوایا ہے، جبکہ اس میں کچھ حقائق ابھی زمانے سے اپنی تصدیق کے منتظر ہیں۔ قرآن اس بات کی صراحت کرتا ہیکہ:’’اگر یہ کتاب اپنے کلامِ الٰہی ہونے کے دعوے میں جھوٹی ہے تو تم فلاں فلاں طریقے سے اسے غلط ثابت کر کے دکھاؤ۔‘‘ حیرتناک بات یہ ہے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی آج تک کسی نے اس کے دعوے کے مطابق اس کے تجویز کردہ طریقوں سے اسے باطل ثابت نہیں کیا۔ یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ مخالفین کی ہزار جز بز کے باوجود یہ کتاب اپنے دعوے میں صد فیصد سچی اور قابلِ اعتماد ہے۔
آپ کے لیے میری ایک تجویز ہے۔ آئندہ کہیں بھی کوئی آپ سے اسلام پر بحث کرے اور اس کا دعوی ہو کہ تم مسلمان ہو کر تاریکی میں ہو اور روشنی اس کے اپنے پاس ہے۔ اس وقت کے لیے میری تجویز یہ ہے کہ آپ اپنے تمام دلائل وشواہد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس سے بس اتنا پوچھ لیں:کیا تمہارے عقیدہ میں ایسا کوئی معیار ہے جس کے ذریعہ ہم اس کی صحت وعدمِ صحت کا پتہ پا سکتے ہیں؟کیا تمہارے عقیدہ میں ایسا کوئی دعوی ہے کہ:’’اگر تم فلاں چیز کو غلط ثابت کر دوگے تو یہ عقیدہ خود بخود غلط ثابت ہو جائے گا‘‘؟’’کیا ایسا کوئی چیلینج ہے‘‘……..؟
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اوروں کے پاس اس قبیل کی کوئی چیز نہیں۔ان کے پاس جھوٹ اور سچ ثابت کرنے والا ایسا کوئی معیار، کوئی برہان نہیں۔ بلکہ ان بیچاروں کی اکثریت کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہمیں اپنے عقائد ونظریات کو پیش کرنے کے پہلو بہ پہلو مخاطب کو ان کی تردید وتغلیط کا موقعہ بھی دینا چاہیے۔
بہرحال اسلام ایسا کرتا ہے، قرآن اپنے مخاطبوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ آؤ اور مجھ کو غلط ثابت کر کے دکھاؤ۔ یہ قرآن کی چوتھی سورت میں ہے، میں آپ کو بیان نہیں کر سکتا کہ پہلی بار اس آیت کو پڑھ کر میری کیا کیفیت ہوئی تھی۔قرآن کا چیلینج یہ ہے:
(أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً) (النساء:82)’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔‘‘
یہ غیر مسلموں کے لیے قرآن کا سیدھا ااور کھلا چیلینج ہے، یہ اصلاً ان کو سیدھی دعوت دیتا ہے کہ وہ اس میں کوئی خطا یا غلطی نکال کر دکھائیں۔ در حقیقت اگر ہم اس قسم کے تحدی کی سنگینی سے صرفِ نظر کر بھی لیں، تب بھی اس نوعیت کی دعوتِ مبارزت دینا کسی انسان کے بس کا روگ نہیں ہو سکتا۔یہ چیلینج انسانی فطرت کے خلاف بلکہ میں کہوں گا کہ انسانی شخصیت سے متصادم ہے۔
دنیا میں کوئی آخری درجہ کا عالم فاضل شخص بھی اس بات کی جرأت نہیں کر سکتا کہ امتحان گاہ سے اٹھتے ہوئے اپنی کاپی کے پہلے صفحہ پر یہ نوٹ آویزاں کر دے کہ اس کاپی میں مندرج جملہ جوابات درست ہیں اور اگر کسی جانچنے والے کو اپنی قابلیت کا غرہ ہو تو اس دعوی کو غلط ثابت کرکے دکھائے۔ایسا کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کو پڑھ کرکوئی بھی ممتحن اس میں غلطی کو ڈھونڈے بغیر ساری رات سو نہ سکے گا۔ لیکن یقین جانئے کہ قرآن اپنا پہلا تعارف اسی حیثیت سے کراتا ہے۔
اپنے پڑھنے والے کے ساتھ قرآن کا ایک اور رویہ بھی انتہائی حیرتناک ہے۔وہ قارئین کے سامنے گوناں گو موضوعات پر بڑی شرح وبسط کے ساتھ اپنی معلومات پیش کر تا ہے اور چلتے چلتے کچھ اس قسم کی نصیحت کر دیتا ہے کہ ’’اگر تمہیں مزید معلومات درکار ہوں یا میری بتائی باتوں سے تم مطمئن نہ ہوئے ہو تو ایسا کرو کہ متعلقہ موضوع کے ماہرین سے استفسار کر کے دیکھ لو ۔‘‘ یہ بھی ایک غیر مانوس اور عجیب بات ہے۔ ایسا تقریباً ناممکن ہے کہ کوئی شخص جو جغرافیہ (Geography)، نباتیات (Botany) ،حیاتیات (Biology) جیسے علوم پراتھارٹی نہ ہونے کے باوجود متعلقہ موضوعات پر قلم اٹھائے۔ اورپھراس کا دعوی بھی ہو کہ اگر کوئی میری کتاب کے مشمولات سے متفق نہیں ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ ان موضوعات کے مسلم الثبوت ماہرین سے ان کا تجزیہ کرا لے کہ آیا اس کتاب میں فی الواقع کوئی غلط بات کہی گئی ہے یا نہیں؟
مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ بیشمار مسلمان دانشورں نے سائنسی موضوعات پر بیان کی گئی قرآنی تفصیلات کو اپنی تحقیق وجستجو کا میدان بنایا اور اس کے نتیجے میں حیرت انگیز اکتشافات انجام دیئے۔ماضی میں لکھی گئی مسلمان اہلِ علم وحکمت کی کتابوں میں موجود قرآنی آیات کے حوالے اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ یہحضرات اپنے علم وتحقیق میں کس درجہ قرآن کی روشنی سے مستفیض ہوتے رہے تھے۔اسلاف کی یہ کتابیں اشارہ کرتی ہیں کہ ان بزرگوں کو مذکورہ بالا علمی میدانوں میں کسی مخصوص شے کی تلاش ہوتی تھی جس کو قرآن نے قطعی حقیقت کی حیثیت سے بیان کر دیا تھا۔
ان کے اعترافات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی تصریحات نے انہیں اس رخ میں چلنے پر آمادہ کیا تھا، کیونکہ قرآن کا اندازاس معرض میں بھی سب سے نرالا ہے۔وہ کسی بھی موضوع پر بات کرتے ہوئے آخری اور کلی حقائق بیان کر دیتا ہے۔ عبوری مراحل کی تفصیلات سے تعرض نہ کرتے ہوئے وہ صرف اتنا اشارہ کر دیتا ہے کہ یہ چیزیں اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ کہاں کہاں مل سکتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ ہر انسان کو بحث وتحقیق کی دعوت دیتاہے اور بلا دلیل وجستجو کے اندھی تقلید کے رویہ کو قابلِ مذمت قرار دیتاہے: (وَالَّذِیْنَ إِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْْہَا صُمّاً وَعُمْیَاناً) (الفرقان:73) ’’جنہیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں گر جاتے‘‘۔ (جاری)

تبصرے بند ہیں۔