انسانوں کی بستی میں

شہلا کلیم

رات کے دامن سے صبح نمودار ہوئی تو منھ اندھیرے ہی لوگ آنکھیں ملتے اور جمائیاں لیتے  ہوئے بستر سے اٹھ کر سیدھے محلے کے چوک پہ ڈیرا جمانے چلے آئے پس منظر اور پیش منظر پر تبادلہء  خیال ہونے لگےـ۔

"آج پھر پوری رات آنکھوں میں کٹی ـ ناقابل برداشت بو اور اسکی گالیوں کا شور روز بروز زور پکڑتا جا رہا ہے رات بھر سونے نہیں دیتاـ "

آتے ہی میاں صاحب نے اپنے رتجگے کی داستان غم بیان کر دی ـ

"خدا رحم کرے اس کے حال پہ جوان جہان لقمہء اجل بن گئے مگر اسکے حصے کی موت جانے کہاں راستہ بھٹک گئی ـ”

” زمیندار کا بیٹا گڈو کیسا ہٹا کٹا گٹھیلے بدن کا خوبرو جوان تھا مانو کبھی بیماری نے اسے چھوا تک نہ ہو  سر میں پھوڑا سا دکھائی پڑا ڈاکٹروں نے کینسر بتایا امیر باپ کا اکلوتا پوت بڑے سے بڑے اسپتالوں کی خاک چھان ماری مگر قسمت کا لکھا کہ تین دن کے اندر اندر معاملہ ختم باپ تو ادھمرا سا ہو گیا اتنی دولت کہاں ڈالےگا تنہا وارث ہی چل بساـ”

ایک بات ختم کرتا تو دوسرا شروع کر دیتاـ۔ ۔ ۔

"اور وہ اپنا پھولوں والا کیسا عین جوانی میں دنیا چھوڑ گیاـ ہنسی خوشی کام پہ نکلا تھا دو بڑی گاڑیوں کی ٹکر ہوئی جن کی چپیٹ میں آکر پردیس میں ہی دم توڑ گیا باپ پر دورے پڑ گئے ماں بہنیں پاگل سی ہو گئیں اگلے مہنیے ہی بیاہ تھا بے چارے کاـ "

” ایک یہ جو موت کی بھیک مانگتا ہے مگر موت تو جیسے اس سے روٹھ ہی گئی ہوـ”

 سڑکوں پہ جھاڑو دینے والے صفائی کرم چاری بھی تڑکے ہی اپنے کام میں جٹ گئے تھےـ بڑے سے ڈنڈے کے چھور پہ بندھی جھاڑو سے نالی صاف کرتے "بالے” نے سوال کیاـ

"باؤجی اسکے بال بچوں کا کیا بنا اسکا کوئی گھر بار ،جات دھرم تو ہوگا اس مکان میں کون پھینک گیا اسےـ”

"اسکا کیا گھر بار اور کہاں کے بال بچےـ زمانے پہلے جانے کہاں سے آکر یہاں آ بسا تھا جب تک جسم میں جان رہی کماتا رہا اور جنکے گھر میں پناہ  لی تھی ان پر لٹاتا رہا اپنے نام کی طرح ہی پر اسرار ہے کبھی کسی کو نہ بتایا کون ہے، کیا ہے، کہاں سے آیا ہےـ جب تک کام کا تھا لوگوں نے پناہ دی جب ان حالوں کو پہنچا تو سب ہڑپ کر وہ بھی کسی پرائے دیس ہجرت کر گئےـ سڑک پہ جانوروں کی سی زندگی جی رہا تھا لوگوں نے اس ویران پڑی کوٹھری میں لاکر پٹخ دیا اور یوں یہ ویران مکان اسکی غلاظت اور گالیوں سے آباد ہو گیا بس اسکی زندگی کی اتنی ہی کہانی ہےـ”

باؤجی نے اسکی مختصر تاریخ دہرا دی ـ۔

سر پہ بندھے انگوچھے کے ایک چھور سے ناک ڈھک کر بالے نے مکان کے اندر جھانکاـ  چارپائی پر ایک کمبل میں لپٹا وجود لرز رہا تھاـ وہ اپنی بینائی کھو چکا تھاـ بستر مرگ پہ پڑے ضعیف وجود میں اٹھنے کی سکت نہ تھی چنانچہ غلاظت سے کمبل اور چارپائی بھری پڑی تھی ـ پاس ہی وہ پلیٹ رکھی تھی جسمیں تینوں وقتوں کا کھانا محلے والوں کے ذریعہ ڈال دیا جاتا تھاـ  غذا اسکو بلا ناغہ دے دی جاتی مگر کون تھا جو اسکی غلاظت صاف کرتا؟؟ اپنی استطاعت کے مطابق گاؤں والوں نے دوا دارو بھی کرائی مگر یہ بیماری آخری وقت کی اطلاع تھی  بالے نے کوٹھری میں جھاڑو دی لیکن اسکے غلاظت میں لپٹے کپڑے اور بستر وہ بھی نا دھو سکاـ

"آہ رے نیتی جندگی کیسی بھی ہو آدمی کو موت تو عجت کی دےـ بھگوان سب کے پاپ چھما کرےـ”

بالے نے ادل بدل کر کانوں کو چھوا اور جھاڑو سے کچرا  دھکیلتا آگے بڑھ گیاـ۔

 یہ غریبوں کی افلاس زدہ بستی تھی ـ لوگ بیمار ہوتے خود ہی جڑی بوٹیوں سے علاج کر لیتےـ بے روزگاری اور بھکمری سے دوچار ہوتے غریب دن بھر محنت مزدوری کرکے تین وقت کی جگہ دو وقت کی روٹی کھا لیتےـ ان حالات میں زندگی اور موت کے بیچ جوجھنے والے اس ضعیف کی وہ اس سے زیادہ کیا مدد کرتےـ "اولڈ ایج ہوم” اور "سرکاری اسپتال” تو شہروں کے چونچلے ہیں ـ شہر تک جانے لائق دھن یہاں کس کے پاس تھاـ "ڈیجیٹل انڈیا” زور و شور سے ترقی کی راہ پر گامزن تھا شہر کے شہر گود لیے جا رہے تھے بے شمار سڑکیں توڑ کر از سر نو تعمیر کی جا رہی تھی یہ اور بات ہے کہ انسانوں کو گود لینے والا کوئی نہ تھاـ فٹ پاتھ اب بھی بے سہارا یتیموں اور لاوارثوں سے بھرے پڑے تھے تھےـ۔

عوام کے دلوں کو فتح کرنے کی خاطر حکومت نے "سرکاری آواس یوجنا” جیسی اسکیم بھی چلائی مگر ان غاصبوں کا کیا کیا جائے جو حاکم کی عطا محکوموں کی جھولی سے چھین لے جاتے ہیں حقداروں کو انکا حق ملنے سے پہلے ہی ہڑپ کر جاتے ہیں… حکومت اور عوام کے درمیانی راستے میں اس قدر چھوٹے بڑے حاکم براجمان ہیں کہ  راجہ کی عطا پرجا تک پہچنے سے پہلے ہی ختم ہو جاتی ہےـ  جھونپڑے اب بھی جوں کے توں کھڑے تھے تاہم زمینداروں نے اپنے ویرانے آباد کر لیے تھے سرکاری آواس جاگیرداروں کی خالی پڑی زمینوں میں سما گئے تھےـ حکومت کے ہاتھوں غرباء کیلیے دل کھول کر لٹائی جانے والی سرکاری دولت غاصبوں کو ہضم ہو گئ تھی۔ ۔ ۔

"سوچھ بھارت ابھیان” کے چرچے زوروں پر تھےـ۔

صفائی ابھیان زور و شور سے چلایا گیا نالیاں چمکا دی  گیئں سڑکوں پر جھاڑو پھیر کر کناروں پر سفیدی چھڑک دی گئ…. بے شمار نعروں سے دیواریں پوت دی گئیں ـ اس مہم نے دن کا چین اور راتوں کا سکون چھینا تھا تو بس ان صفائی کرمچاریوں کا جو جی جان سے اس مہم میں جٹے تھےـ۔

"ہم انگوٹھا چھاپ پڑھ نہیں سکتا مگر دیکھ تو سکتا  ہے اور اپنے ان پڑھ بھیجے سے سمجھ بھی سکتا ہےـ تو ہی بتا اس دیوار پہ کیا لکھا ہےـ”

"بالے” نے پاس کھڑے بچے کو مخاطب کیا جو اسی مکان پر نظریں گاڑے کھڑا تھا جسکی دیوار کے اشتہار کی طرف اس نے اشارہ کرکے کچھ پڑھنے کو کہا تھاـ۔

وہ منظر اسے اندر تک زخمی کر گیاـ

کسی زمیندار کی خالی پڑی زمین کے ایک کونے پر سرکاری مکان بنا تھا جسکے ارد گرد سارے محلے کا کچرا ڈالا جاتا تھا اور اسی سرکاری مکان میں  غلاظت میں لپٹا وہ پر اسرار لرزتا وجود موت کو ترس رہا تھا جس کی پیلی دیوار پر  ہندی کے موٹے اکشروں میں لکھا تھاـ۔

"سوچھ بھارت، سوستھ بھارت”

بالے نے کچھ بڑبڑایا اور پھر لمبے سے ڈنڈے میں بندھی اپنی جھاڑو کو بڑے جوش میں اٹھا کر کسی فوجی کی بندوق کی طرح بائیں کندھے پر دھر لیاـ اور  فوجیوں کے "جے ہند” کی طرح اٹھلا کر بلند آواز میں نعرہ لگایا….

"سوچھ بھارت ابھیان”

دن بھر کی مصروفیات سے تھکے ماندے سورج نے رات کے دامن میں پناہ لی تو تاریک رات نے پوری بستی کو بھی اپنی سیاہ چادر میں لپیٹ لیاـ جھونپڑوں میں ٹمٹماتے لالٹین آخری سانسیں لے رہے تھےـ گندی اندھیری کوٹھری میں پڑے اس ضعیف و لاغر،  کانپتے  اور لرزتے وجود کی طرح ـ نہیں، شاید  اسکی زندگی کے دیئے میں ابھی سانسوں کا تیل باقی تھاـ اسے ابھی اسی غلاظت میں مزید آہیں بھرنا تھی ـ زیست کے پیالے میں ابھی اور درد کا زہر پینا تھاـ اپنے گلتے سڑتے زخموں سے حشرات الارض کو مزید غذا فراہم کرنا تھی ـ جتنی سانسیں جسکے مقدر میں لکھ دی گئی ہیں انھیں کسی بھی حال میں انجام کو پہنچانا ہے۔ سیاہ رات کی آغوش میں سمٹی سمٹائی بستی بڑی پر اسرار معلوم ہو رہی تھی بلکل اس اندھیری کوٹھری میں پڑے "اسرار” کی طرح ، ان گنت بھید اپنے اندر سموئےـ   قریبی قبرستان سے آتی کبھی کبھار گیدڑوں کے رونے اور کتوں کے بھونکنے کی عجیب و غریب آوازیں رات کی خاموشی کو چیرتی ہوئی محسوس ہوتی ـ خوابیدہ  بستی کے مکانوں میں ننھے وجود خوفزدہ ہو کر بلک اٹھتے پھر ماؤں کے  لمس کا احساس اور پیار کی تھپکی انہیں خاموش کر دیتی ـ۔

"رات میں کتے کیوں بھونکتے ہیں گیدڑ کیوں روتے ہیں ـ”

کسی سمجھ دار معصوم کا سوال تھاـ۔

"کیونکہ یہ وہ دیکھ سکتے ہیں جو انسانی آنکھ سے اوجھل ہےـ یہ ایسی ہولناک اور خوفناک آوازیں سن سکتے ہیں جو انسانی قوت سماعت سے پوشیدہ ہیں اور اسی سے خوفزدہ ہو کر یہ روتے اور چیختے چلاتے ہیں ـ”

ماں کے تسلی بخش جواب پر معصوم مطمیئن ہو گیاـ

مگر اگلے ہی پل….

"یہ آوازیں انسانوں کو کیوں نہیں سنائی دیتی ؟؟”

تفتیش و تلاش کی عمر کا مارا بچہ اپنے تجسس پہ قابو نہ رکھ سکاـ

"ٹھیک ویسے جیسے تمہیں امتحان کا پرچہ قبل از وقت نہیں دکھایا جاتا امتحان کے وقت کا تعین اسکے سوالات کی نوعیت سب مدرس کے اختیار میں ہے ـ  موت دیکھ لینے کے بعد توبہ اور  آخری وقت کا ایمان قابل قبول نہیں ـ”

اسکے  بعد ماں کی جھڑکی اور سو جانےکی تنبیہہ نے اسے خاموش کر دیاـ

یک لخت رات کی سیاہ چادر کو کسی خوفناک آواز نے چاک کیا لرزتی آواز، بے ربط الفاظ، گالیوں سےبھرے جملے، وحشت سے پر لہجہ، بیچ بیچ میں جملے بے ترتیب ہو کر چند الفاظ حلق میں اٹک جاتے اور کچھ گالیوں کی شکل میں فضا میں بکھر جاتےـ گالیوں کے سوا ایک پکار بھی تھی جو وہ بڑے کرب سے لگاتا ـ بڑے واضح الفاظ میں، اضطراب و انتظار کی سولی پر لٹک کر وہ موت کو پکارتاـ

 ہوا کے ہلکے سے جھونکے کے ساتھ اٹھنے والی غلاظت کی بو اس گندی کوٹھری سے نکل کر فضا میں پھیل جاتی بستی والے اسکے عادی ہو چکے تھے "اسرار” کی "پر اسرار” چیخیں انکے لیے مانوس ہو چکی تھی کیونکہ یہ روز کا معمول تھاـ۔

"مردے کی آواز ،ماں سنو!! مردے کی آواز ، دیکھو میں سن سکتا ہوں ـ قبر کے عذاب میں مبتلا مردوں کی آواز جو جانوروں کو سنائی دیتی ہے کیا اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے؟؟ کیا موت  زندگی سے بھی زیادہ بھیانک ہے؟؟ اگر موت زندگی سے زیادہ خوفناک ہے تو یہ اس کو کیوں پکارتا ہے؟؟ اگر موت بھیانک ہے تو انسانوں کی بستی کے اس مکین نے اپنے درد کی دوا، اپنے زخموں کا مرہم، اپنی بیماری کا علاج، اپنی نجات کا ذریعہ اور اپنے بڑھاپے کا سہارا صرف موت کو ہی کیوں سمجھا؟؟ نہیں، نہیں!! موت نام ہے نجات کا،  درد و غم، رنج و الم ، زیست کے مسائل ، غلاظت اور ضعیفی سے چھٹکارے کاـ

کیا انسان یہ آواز بھی نہیں سن سکتے؟؟

تم غلط کہتی ہو ماں امتحان کا پرچہ دکھا دیے جانے کے بعد بھی انسان تیاری نہ کرےگاـ

کیونکہ انسان عادی ہے معجزات اور کرامات کا وہ عمل میں یقین نہیں رکھتاـ "

سوالات کے بیچ سمندر میں اس ننھے فلسفی کو  غوطہ زن چھوڑ کر ماں "منے” کو اپنے آنچل میں چھپائے خود بھی نیند کی آغوش میں جا سوئی تھی ـ

تلاش و جستجو کی عمر میں قدم رکھنے والا دسویں جماعت کا فلسفی انسان اور جانور ، مردوں اور زندوں کے درمیان فرق میں الجھ کر تمام رات خودکلامی میں سر دھنتا رہاـ

"کہاں گئے مردوں کا ماتم کرنے والو ! آؤ زندہ لاشوں کا ماتم منائیں”

وہ ساری رات بڑبڑاتا رہاـ

اسے فلسفوں کا خبط تھاـ دنیا کو الگ زاویہ سے دیکھتا اور گھنٹوں غور و فکر میں غرق رہتاـ

ہوا کے دوش پہ ہچکولے لیتی لالٹین کی لو بھی تمام رات اسکے ساتھ جلتی رہی ـ اسنے بھی جلنے دیا امید کا دیا سمجھ کرـ

گیدڑ خاموش ہو گئے وہ بھی شاید تھک کر سو چکا تھاـ

 اور پھر فضا پر سکوت چھا گیا گہرا سکوت بلکل موت کا سناٹاـ۔

سیاہ رات کی کوکھ سے جنم لینے والا اگلی صبح کا سورج اسکی زندگی کی شام کا پیغام لایا تھاـ۔

لوگوں کی بھیڑ اور تشکر سے پر آوازوں سے چوک گونج اٹھا تھاـ۔

اسرار پر سکون تھا کیونکہ اسے ہر درد سے نجات مل گئ تھی ـ بستی کے لوگ خوش تھے کیونکہ انہیں رتجگوں، غلاظت اور گالیوں سے چھٹکارا مل گیا تھاـ۔

مگر ان سب سے الگ تھلگ کھڑا  ننھا فلسفی اپنے فلسفے کے سچ ہونے پر اداس تھاـ بالاآخر انسانوں کی بستی کے مکین کو موت نے ہی پناہ دی تھی ـ۔

اس نے ایک بار پھر پیلی دیوار کے  اکشروں کی جانب نگاہ اٹھائی ـ۔

” ایک قدم سوچھتا کی اور”

 ایک آنسو لڑھک کر مکان  کے اردگرد پڑے کوڑے کے ڈھیر میں جذب ہو گیاـ۔ ۔ ۔ !

تبصرے بند ہیں۔