انسانیت اور زعفرانی فرعونیت کی کشمکش

عبدالعزیز

 کرناٹک سے مغربی بنگال تک زعفرانی فرقہ پرستی اور فتنہ و فساد کی آگ پھیلتی جارہی ہے۔ بی جے پی روز بروز ایک نئے اور انوکھے فتنہ کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔ الیکشن میں اسے کسی طرح بھی جیتنا ہے خواہ انسانیت اور آدمیت کا جنازہ نکل جائے اس سے اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔

یوگی ادتیہ ناتھ جن پر مار دھاڑ، قتل و غارتگری اور فتنہ و فساد کے کئی مقدمات اتر پردیش کی عدالت میں زیر سماعت تھے اور بعض مقدمہ میں ان کی مجرمانہ حرکتوں کے خلاف فیصلہ ہونے والا تھا وہ سارے مقدمات یوگی حکومت نے واپس لے لئے، اس طرح یوگی قتل و خون کی سزا سے وقتی طور پر سہی بری ہوگئے۔ ایسا شخص جو مجرمانہ زندگی گزارتا تھا اب وہ ہندستان کی سب سے بڑی ریاست کا سربراہ اعلیٰ ہوگیا اور امن و امان کا ذمہ دار بنا دیا گیا۔ جب سے ایسا شخص آیا ہے اتر پردیش میں بدامنی اور فساد کا دور دورہ ہے۔ نریندر مودی کے بعد اب یوگی بی جے پی کے سب سے بڑے انتخابی پرچارک ہوگئے۔ ہر جگہ ان کا ڈیمانڈ (مطالبہ) بڑھتا جارہا ہے۔ کرناٹک کا کئی دورہ موصوف کر چکے ہیں ۔ انھوں نے کہاہے کہ کانگریس کے لیڈران خاص طور سے وزیر اعلیٰ کرناٹک ہندو نہیں ہیں ۔ اگر ہندو ہوتے تو کرناٹک میں ذبیحہ گئو پر پابندی ہوتی۔ یہ بھی کہا کہ اگر یہاں بی جے پی کی حکومت ہوگئی تو کرناٹک میں ٹیپو کے بجائے رام کی پوجا ہوگی۔ یوگی ایک طرف اپنے مخالف کو غیر ہندو بتا رہے ہیں اور دوسری طرف ٹیپو سلطان کا حوالہ دے کر مسلم دشمنی کا عندیہ دے رہے ہیں تا کہ ہندو آبادی خوش ہو۔

 مغربی بنگال میں پوری ریاست کا الیکشن نہیں ہونے والا ہے۔ چند سیٹوں کا ضمنی چناؤ ہونے والا ہے۔ یہاں بھی بی جے پی اور آر ایس ایس پولرائزیشن کی سیاست کر رہی ہے۔ گزشتہ کئی سال سے مغربی بنگال کو زعفرانی رنگ میں رنگ دینے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ عشرت جہاں جنھوں نے تین طلاق کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دی تھی اب وہ مودی حکومت کی اسلام دشمنی اورمسلم دشمنی سے اس قدر خوش ہوئی ہیں کہ محترمہ نے نہ صرف بی جے پی کا جھنڈا تھام لیا ہے بلکہ وہ کئی جلسے میں ’بندے ماترم‘ اور ’بھارت ماتا کی جے‘ کا نعرہ بلند کیا ہے۔ اس پر خوش ہوکر بی جے پی والے ’جے سیا رام‘کی آواز بلند کیا۔ عشرت جہاں جے سیارام کا نعرہ لگانے اور اس کی اعلانیہ پوجا کرنے میں بھی خوشی محسوس کر رہی ہیں ۔

  محترمہ نازیہ الٰہی خان جو عشرت جہاں کی وکیل تھیں وہ اپنی شاگردہ سے پہلے بی جے پی کا پرچم تھام لیا اور بی جے پی کے مغربی بنگال کے صدر اور آر ایس ایس کے سابق پرچارک دلیپ گھوش کے ساتھ مغربی بنگال کا دورہ کر رہی ہیں ۔ جس روپ اور جس شکل میں وہ منظر عام پر آرہی ہیں وہ بھی دیکھنے کے لائق ہے۔ کئی سال تک وہ مسلم نیتاؤں کے ساتھ بھی تعلق جوڑے ہوئے تھیں ۔ جلسے یا کانفرنسوں میں اس وقت ایک مسلم عورت کی طرح لباس میں نظر آتی تھیں ۔ اب وہ دعوتِ نظارہ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتیں ۔ ’فیس بُک‘ اور ’واٹس اَیپ‘ کے ذریعہ بھی وہ اپنی عریانیت کی تشہیر کر رہی ہیں ۔ میرے خیال سے ایسی عورتیں یا مرد ملت کیلئے ہی نہیں انسانیت کیلئے بھی ناسور ہیں ۔ ایسے لوگ بکاؤ مال ہوتے ہیں ۔ ان کو کوئی بھی خرید سکتا ہے۔ ایم جے اکبر کی طرح نازیہ الٰہی خان بھی آر ایس ایس اور نریندر مودی کے سخت خلاف تھیں ۔ لوگ سوشل میڈیا میں ان کی پہلے کی تقریریں وائرل کر رہے ہیں ۔ ایسے لوگ پہلے ملت میں مقام بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب ان کی Market Value  بڑھ جاتی ہے تو پھر ملت کو لات کر ملت دشمن طاقتوں کے قافلہ میں شامل ہوجاتے ہیں ۔

مسلمانوں کو کفر اور منافقت سے سابقہ ہے۔ ان دونوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک زعفرانیت اور فرعونیت کا ہندوتو ایجنڈا ہے اس کا مقابلہ ڈھٹائی اور دلیری کے ساتھ کمیونسٹ اور دلت کر رہے ہیں اور وہ کسی قسم کی مداہنت قبول نہیں کر رہے ہیں ۔ بی جے پی یا آر ایس ایس کی یورش اور یلغار اس قدر مؤثر اور زبردست ہے کہ کانگریس دفاعی پوزیشن (Defensive Position) اختیار کرنے میں مصلحت سمجھ رہی ہے۔ ترنمول کانگریس کا بھی یہی حال ہے۔ محترمہ ممتا بنرجی برہمنوں کی یوتھ کانفرنس منعقد کرا رہی ہیں اور کئی بار وہ اپنے دفاع کیلئے کہہ چکی ہیں کہ وہ ہندو ہیں ۔ کانگریسی وزیر اعلیٰ کرناٹک بھی اعلان کر رہے ہیں کہ وہ ہندو ہیں ۔ گجرات میں راہل گاندھی کو نہ صرف مندروں کی زیارت کرنی پڑی بلکہ جنیو پہن کر اپنے آپ کو ’جنیو دھاری ہندو‘ بتانا پڑا۔ یہ بی جے پی کا جارحانہ انداز ہے اور دیگر پارٹیوں کی مدافعت کا برا حال ہے۔ بی جے پی کی جارحیت کا جواب اگر معذرتانہ انداز سے دیا گیا تو پھر جواب کمزور ہوگا۔ کانگریس ہو یا ترنمول کانگریس بی جے پی کی فرقہ پرستی اور انسان دشمنی کو دلائل اور جامعیت کے ساتھ پیش کرنا ہوگا اور ان کو ننگ دین، ننگ انسانیت اور ننگ وطن کہنا پڑے گا۔ جب ہی ان کا صحیح جواب ہوگا۔ ان کو بے نقاب کئے بغیر ان کی جارحیت اور انسان دشمنی لوگوں کے سامنے نہیں آئے گی۔

مسلمانوں کو دلتوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ مسلم نوجوانوں کو دلتوں کا ساتھ دینا چاہئے اور اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے کمیونسٹوں کا بھی ساتھ دینا ضروری ہے۔ کانگریس اگر دفاعی پوزیشن اختیار کرتی ہے تو اسے دفاع کے بجائے اقدام کرنے کی ضرورت ہے یعنی اقدامی پوزیشن اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ گجرات میں کچھ کمی تھی۔ دلتوں کا انداز اپنانے کی ضرورت ہے۔ جب ہی ان کی ننگی جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ جہاں جس قدر ضرب لگانے کی ضرورت ہے اسی قدر ضرب لگانی ہوگی جب ہی اثر انداز ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔