انسان اور زمین کی حکومت (قسط 45)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت موسی اسی طرح فرعون کے محل میں پرورش پانے لگے- جب آپ زرا بڑے ہوئے تو نوکر چاکر فرعون کے اپنے ساتھ لے کر شہر میں پھرایا کرتے- اور لقب آپ کا پسر فرعون یعنی فرعون کا بیٹا ہوا-

اللہ تعالی نے آپ کو بہت چھوٹی عمر سے ہی علم و حکمت سکھا دی تھی- چنانچہ فرعون بھی اکثر آپ کو سامنے بٹھا کر لب شیریں سے علم و حکمت کی باتیں سنا کرتا اور بہت پیار کیا کرتا- جب عمر آپ کی بیس برس کی ہوئی تو فرعون نے آپ کی شادی بڑی شان و شوکت سے کروائی- اس سے آپ کے دو بیٹے پیدا ہوئے نام ان کے حرثون اور بلقا تھا- روایت ہے کہ جناب موسی فرعون کے پاس عرصہ تیس برس رہے اور بعد اس کے شہر مدائن کی طرف ہجرت فرمائی جہاں حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس رہے-

ایک دن حضرت موسی دوپہر کے وقت فرعون کے محل سے نکلے اور شہر میں پھرتے تھے کہ آپ نے دو آدمیوں کو دیکھا جو آپس میں کسی بات پر جھگڑ رہے تھے- آپ ان کے قریب گئے تو دیکھا کہ ان میں سے ایک قبطی آدمی تھا اور یہ فرعون کے باروچی خانے کے سرداروں میں سے تھا- اور دوسرا بنی اسرائیلی آدمی تھا اور نام اس کا سامری تھا-

پوچھنے پر پتا چلا کہ دونوں میں لکڑیوں کی وجہ سے جھگڑا چل رہا ہے- اسرائیلی شخص سامری نے فریاد کی کہ دیکھو یہ قبطی آدمی مجھ پر ظلم کر رہا ہے- میں یہ لکڑیاں جنگل سے کاٹ کر لایا ہوں اور انہیں بیچ کر میری گزر بسر ہوتی ہے پر یہ شخص مجھ سے یہ لکڑیاں چھین رہا ہے- تب قبطی شخص نے کہا کہ یہ لکڑیاں تمہارے باپ فرعون کے باورچی خانے کے لیے ہیں- چونکہ اس سرزمین مصر کا رب فرعون ہے اس لیے یہاں کی ہر چیز پر پہلا حق اس کا ہے- اور اسرائیلی چونکہ ہمارے خدمت گاروں میں سے ہیں-

جب حضرت موسی علیہ السلام نے دونوں طرف کی بات سنی تو آپ سمجھ گئے کہ اسرائیلی حق پر ہے اور قبطی شخص اس پر ناحق ظلم کر رہا ہے اور اس کی لکڑیاں چھین رہا ہے-

تب جناب موسی نے اس قبطی شخص سے کہا چونکہ تو ناحق ظلم کر رہا ہے اور اسرائیلی شخص سچائی پر ہے- ہس تو اس کی لکڑیاں اس کے حوالے کر اور جانے دے- لیکن قبطی شخص نہ مانا اور نہ ہی لکڑیاں واپس کیں- حضرت نے پھر کہا- تب قبطی کہنے لگا کہ آپ ہمارے رب فرعون کے پسر ہیں اور اسرائیلی ہمارے خدمت گار سو ان کی ہر چیز پر ہمارا حق ہے- اور اگر آپ ان کا ساتھ دیں گے تو اس کی شکایت میں فرعون کو کروں گا- اور لکڑیاں چھوڑنے سے انکاری ہوا-

تب جناب موسی کو غصہ بہت آیا اور آپ نے ایک گھونسہ (مکا) اس قبطی کے سینے پر ایسا مارا کہ وہ زمین پر گرا اور وہیں مر گیا- پس جب آپ نے ایسا دیکھا تو بڑے پریشان ہوئے- اور تب وہاں ان تینوں کے سوا اور کوئی نہ تھا اور نہ کسی کو معلوم ہی پڑا جز اللہ کے کہ وہ سب جاننے والا ہے-

بعد اس کے حضرت موسی نے اس اسرائیلی شخص سامری کو وہاں سے بھگا دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کوئی قبطی تجھے یہاں اس مرے ہوئے آدمی کے پاس دیکھ لے اور تو ناحق دھر لیا جائے- اور خود آپ نے بارگاہ الہی میں اس قبطی کو مار ڈالنے کے سبب اپنے گناہ کے لیے توبہ کی اور اللہ رو رو کر اللہ سے اس قتل کی معافی مانگی- پس اللہ نے آپ کا گناہ بخش دیا- بیشک وہ بخشنے والا مہربان ہے- چنانچہ ارشاد ہے؛

ترجمہ: کہا موسی نے اے رب میرے برا کیا میں نے اپنی جان کا سو بخش مجھ کو- پس بخش دیا اسے بیشک وہی ہے بخشنے والا مہربان- (القرآن)

بعد اس کے وہاں چند قبطی آئے تو اپنے سردار کو مرا ہو پایا- لہذا انہوں نے اس کی لاش وہاں سے اٹھائی اور فرعون کو اس بارے خبر پنہچائی- تب فرعون نے حکم جاری کیا کہ قتل کرنے والے کو میرے سامنے پیش کیا جائے- پس سبھوں نے بہتیرا ڈھونڈا لیکن قاتل اس کا نہ مل سکا- قبطی کو لے جا کر دفن کیا-

روایت ہے کہ اگرچہ فرعون کافر تھا لیکن عدل و انصاف ظالم و مظلوم کا خوب کیا کرتا- پس اس قبطی کے قاتل کو نہ پا کر چپ ہو رہا-

دوسرے دن حضرت موسی علیہ السلام اٹھے اور ڈرتے ہوئے گھر سے نکلے- اور جب آپ شہر میں پنہچے تو دیکھا کہ پھر ایک قبطی اسی اسرائیلی شخص سامری کو مار رہا ہے- تب سامری نے آپ کو دیکھا تو دوبارہ فریاد کی- تب حضرت موسی غصہ ہوئے سامری سے اور فرمایا؛ بیشک تو صریح گمراہ ہے ہر روز جان بوجھ کر ظالموں سے الجھتا ہے اور مجھے لڑواتا ہے-
یعنی حضرت موسی کو معلوم تھا کہ قبطی ظالم ہیں اور فرعون کی پشت پناہی میں لوگوں پر بیجاہ ظلم ڈھاتے ہیں- لیکن سامری پر غصہ اس وجہ سے آیا کہ وہ جانتا تھا کہ قبطی ظالم ہیں پھر بھی ان سے الجھتا تھا اور خود اختیار طاقت ان سے لڑنے کی اس میں ہرگز نہ تھی بس دوسروں کو لڑوا دیا کرتا-

پس حضرت موسی نے فرمایا کہ تو مجھے لڑوانا چاہتا ہے پھر سے- اور جب چاہا کہ ہاتھ ڈالیں اس پر یعنی قریب تھا کہ غصے میں اسے مارتے- سامری بول اٹھا کہ اے موسی کیا چاہتا ہے تو کہ میرا بھی خون کرے جیسا کہ کل تو نے ایک قبطی شخص کا خون ناحق کیا ہے- اور تو چاہتا ہے کہ زبردستی کرتا پھرے ملک میں اور تو ہرگز نہیں چاہتا کہ قبطی اور اسرائیلی مل بیٹھیں- یعنی تو ملاپ کروانے کی بجائے لڑائی کروانے والا ہے ہم میں-

پس جب دوسرے قبطی شخص نے یہ باتیں سنیں تو سمجھ گیا کہ کل والا قتل جناب موسی نے کیا ہے- پس وہ وہاں سے دوڑا فرعون کے محل کی طرف تاکہ اسے جا کہ اس سب اور کل والے قتل کی بابت بتا سکے- اور جناب موسی بھی اس کے پیچھے دوڑے-

چنانچہ اس اسرائیلی شخص کے بتانے کی وجہ سے جو قتل کل تک چھپا ہوا تھا آج سب کو علم ہو گیا کہ قاتل کون ہے- پس وہ قبطی شخص دوڑا اور اس نے مرنے والے کے گھر والوں کے علاوہ فرعون سے اس بات کا تذکرہ کر دیا کہ کل مرنے والے سردار کا قتل جناب موسی نے کیا ہے-

تب حضرت موسی علیہ السلام بھی اس کے پیچھے دوڑے اور آپ ڈرے ہوئے بھی تھے اس وجہ سے کہ فرعون بھلے ہی ظالم کافر ہے لیکن وہ عدل و انصاف سب کے ساتھ کرتا ہے- اور قاتل چاہے اس کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو وہ لازمی سزا دے گا- اور آپ کی ماں اور حضرت آسیہ کو بھی اس بارے کچھ معلوم نہ تھا-

چنانچہ جب اس قبطی شخص نے دربار میں فریاد گزاری اور فرعون کو قاتل کے متعلق مکمل حقائق سے آگاہ کیا اور اسرائیلی شخص کی بات کا تذکرہ کیا تب فرعون نے مجلس شوری بلائی اور کہا کہ مجھے مشورہ درکار ہے کہ اس بارے کیا کرنا چاہئیے- کہ موسی میرا بیٹا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس نے ایک شخص کو ناحق قتل کیا ہے- اب بتاو اس معاملے کا کیا حل ہونا چاہئیے- تب ہامان ملعون جو کہ شروع سے ہی آپ کے خلاف تھا اس نے کہا کہ بیشک موسی فرعون کا بیٹا ہے لیکن یہ بات بھی ہے کہ اس نے قتل ناحق کیا ہے لہذا انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ موسی سے اس مرنے والے کا قصاص لیا جائے جو کہ انصاف کی رو سے موسی کا قتل بنتا ہے- تب فرعون نے حکم جاری کیا کہ موسی کو پکڑ کر پیش کیا جائے تاکہ اس سے قبطی شخص کے قتل کا قصاص لیا جائے-

تب وہاں ایک شخص ایسا تھا کہ جناب موسی کا خیرخواہ تھا اور سچا پکا مومن اور مسلمان تھا- اور بعض نے کہا کہ وہ فرعون کا چچیرا بھائی تھا اور نیک مومن شخص تھا-

پس وہ شخص وہاں سے دوڑا اور حضرت موسی کو شہر کے قریب جا لیا اور کہا کہ اے موسی فرعون تجھے مار ڈالنے کے در پر ہے اور تم سے اس قبطی شخص کا قصاص لینا چاہتا ہے- پس تم ابھی شہر سے نکل جاو تبھی بچ سکو گے- اور میں تمہارا خیر خواہ ہوں اس لیے تمہیں یہ خبر دینے کے لیے وہاں سے دوڑا آ رہا ہوں- چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے؛

ترجمہ : اور ایک شخص شہر کے پرلے سرے سے دوڑتا آیا اور کہا اے موسی دربار والے مشوریت کرتے ہیں تجھ پر کہ تجھے مار ڈالیں- تو نکل جا یہاں سے میں تیرا بھلا چاہنے والا ہوں- (القرآن)

پس حضرت موسی اپنی ماں اور اہل خانہ کو چھوڑ کر شہر مصر سے نکلے ڈرتے ہوئے- اور خبر لیتے رہتے اس بارے بھی کہ کوئی ان کے پیچھے تو نہیں آ رہا کہ انہیں پکڑ کر فرعون کے آگے پیش کرے جو اسے قتل کے جرم میں قتل کروانے پر تلا ہوا ہے- پس آپ اللہ کے حضور دعا کرتے ہوئے جا رہے تھے- "اے اللہ مجھے ان ظالموں کی قوم سے نجات عطا فرما اور دکھا مجھے راہ جو سیدھی ہو” چونکہ آپ ڈر کیوجہ سے کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے اور پکڑ کر فرعون کے پیش نہ کر دے- بغیر کوئی زاد راہ لیے اور بنا کسی کو خبر کیے شہر مصر سے نکل آئے تھے- اب آگے دور تک صرف صحرا ہی صحرا تھا اور کوئی راہ اس میں کسی طرف نظر نہ آتا تھا- چنانچہ آپ اللہ سے اپنی خیریت اور سیدھے راستے کی دعا کرتے ہوئے چل رہے تھے-

پس اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو شہر "مدین” کی راہ سجھائی- اور بعضوں نے کہا کہ مصر شہر سے مدین کا راستہ دس کوس تھا اور بعض نے کہا کہ سات دن رات میں آپ شہر مدین پنہچے- اور بعض روایات کے مطابق چالیس دن کا تذکرہ بھی ملتا ہے- واللہ اعلم الصواب-

پس جناب موسی شہر مصر سے نکلے اور سیدھے مدین پنہچے- جب آپ مدین کے میدان میں پنہچے تو دیکھا وہاں کچھ لوگ ایک کنوئیں پر اپنی بکریوں اور دوسرے جانور مویشیوں کو پانی پلا رہے ہیں- پس آپ نے دل میں خیال کیا کہ شائد وہاں سے کچھ مدد مل جائے کسی بارے میں- پس جب پنہچے قریب ان کے تو دیکھا کہ پانی پلانے والوں سے تھوڑا ہٹ کر دو لڑکیاں اپنی دبلی اور کمزور بکریاں لیے ساتھ شرم و حیا کے کھڑی ہیں- پس جناب موسی نے ان سے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہاں اس طرح سے کیوں کھڑی ہو-

پس کہنے لگیں کہ ہم یہاں اپنی بکریوں کو پانی پلانے کے واسطے آئی ہیں- لیکن یہ کنویں کا ڈول پانی سے بھر کر کھینچنے سے قاصر ہیں- اور نہ ہم میں اتنی طاقت ہے کہ کنویں کے منہ پر رکھے پتھر کو ہٹا سکیں کہ اسے ہٹانے کے لیے چالیس مردوں کی طاقت درکار ہے- اور ہمارا کوئی بھائی نہیں جو ہمارے لیے یہ کرے اور ہمارا باپ ضعیف العمر اور نابینا ہے- سو ہم اس انتظار میں کھڑی ہیں کہ جب یہ چرواہے اپنے جانور مویشیوں کو پانی پلا کر چلے جائیں گے تو پھر بعد اس کے جو پانی بچ جائے گا ہم اپنی بکریوں کو پلا لیں گے- اور ہم ہر روز اسی طرح کرتی ہیں-

ہس جب جناب موسی نے یہ بات سنی تو آگے بڑھے اور کنویں کے سرے پر رکھا ہوا پتھر ہٹایا جو چرواہے جاتے وقت دوبارہ کنویں کے منہ پر رکھ گئے تھے- بعد اس کے آپ نے ڈول بھر بھر کر پانی نکالنا شروع کیا- پس ان لڑکیوں کی بکریوں نے اس دن سیر ہو کر پانی پئیا-

بعد اس کے وہ لڑکیاں اپنی بکریوں کو لے کر ساتھ شرم و حیا کے چلی گئیں- اور جناب موسی چونکہ راہ کے تھکے ماندے اور بھوکے پیاسے تھے- آپ وہیں قریب ایک درخت کے سائے میں جا لیٹے اور اللہ تعالی سے اپنی حالت کے بارے بیان کیا اور مناجات مانگی کہ الہی مجھے کچھ کھانے کو دے کہ میں بھوکا ہوں- حق تعالی فرماتا ہے؛

ترجمہ: پس اس نے پلا دیا ان جانوروں کو- پھر ہٹ کر آیا چھاوں کی طرف- بولا، اے رب میرے تو نے جو اتاری ہے میری طرف اچھی چیز سے میں اس کا محتاج ہوں۔

چنانچہ ان لڑکیوں کے رخصت ہونے کے بعد جناب موسی ایک درخت کے سائے میں جا بیٹھے اور اللہ تعالی سے اپنی بھوک کے بارے بیان کیا اور کھانے کے لیے دعا فرمائی- لہذا آپ کی دعا قبول ہوئی-

پس ان لڑکیوں نے کہ جن کے بارے مشہور روایت ہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیاں تھیں- گھر جا کر حضرت شعیب سے اس بارے زکر کیا کہ آج میدان میں ایک نوجوان ایسا کہ قوت و رحم والا دیکھا- اور طاقت ایسی کہ اس اکیلے نے کنویں پر رکھے پتھر کو ہٹایا کہ جسے ہٹانے کے لیے تمام چرواہے میدان کے مل کر زور لگاتے ہیں- اور نیک رحم دل کہ بنا کسی صلے یا اجرت کے ہماری بکریوں کے لیے کنویں سے ڈول بھر بھر پانی نکالا اور آج جیسے سیر ہو کر بکریوں نے پانی پئیا ایسے پہلے کبھی نہ پی سکیں- اور پانی پلانے کے بعد وہ ایک درخت کے سائے میں جا بیٹھا-

تب حضرت شعیب نے فرمایا کہ جلدی جاو اور اسے بلا کر لاو اس سے پہلے کہ وہ کہیں چلا جائے- اسے ساتھ لے آو تاکہ ہم اسے اجرت ادا کر سکیں اس کے کام کے لیے جو اس نے کیا- کیونکہ اللہ تعالی حق رکھنے والوں کو معاف نہیں کرتا-

چنانچہ ان میں سے بڑی لڑکی کہ نام جس کا صفورا تھا- وہ شرم سے چلتی ہوئی حضرت موسی کو لینے گئیں- اور آ کے کہا کہ چلو تم کو میرا باپ بلاتا ہے- حضرت نے پوچھا کہ وہ مجھے کس بات کے لیے بلاتے ہیں- تب حضرت شعیب کی بیٹی نے کہا کہ زکر کیا ہم نے ان سے آپ کے بارے کہ پلایا آپ نے ہماری بکریوں کو پانی- پس بلاتے ہیں آپ کو اس واسطے کے اجرت ادا کر دیں آپ کو اس کام کے کرنے کی- اور اللہ کے بندے حق رکھنا کسی کا پسند نہیں کرتے-

تب حضرت موسی علیہ السلام بھی چونکہ سات رات دن کے بھوکے تھے اور سفر بھی کیا تھا- سو اس لڑکی کے ساتھ چلے کہ مزدوری کی اجرت کھانا طلب کر لوں گا- چنانچہ چلے وہاں سے دونوں حضرت موسی پیچھے تھے اور بی بی آگے چلی جاتی تھیں- تھوڑا فاصلہ طے بھی نہ ہوا کہ حضرت نے اس لڑکی سے کہا کہ تم میرے پیچھے چلو میں آگے چلتا ہوں- اور یہ اس وجہ سے کہ تمہارے پیچھے چلنے سے میری نظر ایک غیر محرم عورت کے پاوں پر پڑنے سے گناہ ہوتا ہے-

تب صفورا نے کہا کہ چونکہ آپ کو ہمارے گھر کا راستہ پتا نہیں ہے اس واسطے میرا آگے چلنا ضروری ہے کہ راستہ دکھا سکوں آپ کو- تب حضرت موسی نے فرمایا کہ نہیں میں آگے چلتا ہوں آپ مجھ سے پیچھے چلو- اور مجھے راستہ بتا دینا جب میں راستے سے بھٹکنے لگوں- اس بات سے صفورا نے جانا کہ یہ کوئی بہت نیک پارسا مرد ہے-

چنانچہ وہ دونوں اسی طرح چلتے ہوئے حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس پنہچے- حضرت موسی نے حضرت شعیب کی خدمت میں سلام پیش کیا- تب حضرت شعیب نے سلام کا جواب دیا اور آپ کو اپنے قریب بٹھا لیا اور حال احوال آپ کا پوچھا- تب جناب موسی نے اپنے بارے جو کچھ حال گزرا سب بیان فرمایا- اور مصر میں فرعون کے بارے اور بنی اسرائیل کے احوال اور قبطی کے قتل اور وہاں سے اپنی ہجرت کے بارے سب کچھ بیان کیا- تب حضرت شعیب نے فرمایا کہ کچھ اندیشہ نہ کرو اللہ نے تمہیں نجات دئ ظالموں سے-

بعد اس کے حضرت شعیب علیہ السلام کی بڑی بیٹی صفورا جو حضرت موسی کو ساتھ لیکر آئیں تھیں اور قریب ہی بیٹھی سب سن رہی تھیں- جب انہوں نے جناب موسی کے احوال سنے تو اپنے باپ حضرت شعیب سے کہا کہ اے ابا جان آپ اسے نوکر کیوں نہیں رکھ لیتے- اور یہ بہتر نوکر ہے جیسا کہ آپ رکھنا چاہتے ہیں- زور آور بھی ہے اور امانت دار بھی اور نیک پارسا بھی-

تب حضرت شعیب نے پوچھا کہ اے بیٹی تم نے اس کا زور اور طاقت تو دیکھی ہے کہ کنویں کا پتھر ہٹایا اور اکیلے پانی سے بھرے ڈول کنویں سے نکالے- پر اس کی امانت داری اور پارسائی کیونکر معلوم ہوئی- تب بی بی صفورا نے آپ سے راستے کی بات بیان فرمائی اور جناب موسی سے گفتگو کا تذکرہ بیان کیا-

تب حضرت شعیب علیہ السلام نے تسلیم کیا کہ جناب موسی واقعی میں نیک اور امانت دار ہیں- اور بیٹی کے دل کا حال بھی سمجھا کہ وہ حضرت موسی میں ان کی نیک نیتی اور رحم دلی کے جذبے کی وجہ سے دلچسپی رکھتی ہے- چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر تم راضی ہو اس بات پر کہ تم میری بیٹی سے نکاح کر لو تو میں تمہارا نکاح اس سے کرنا چاہتا ہوں- پر اس کے بدلے میں تجھے آٹھ برس تک میری بکریاں چرانی ہوں گی- اور اگر دو برس اوپر یعنی دس برس پورے کر دو تو وہ تمہاری اپنی طرف سے ہے- یعنی وہ تمہاری نیکی ہو گی- ورنہ میں تم پر تکلیف نہیں ڈالنا چاہتا- یعنی آٹھ برس بعد تم آزاد ہو گے اپنی بیوی کے ساتھ جہاں دل چاہے جا بسو- لیکن اگر تم دس برس پورے کرنا چاہو گے تو وہ دو برس تمہاری طرف سےہونگے میں تمہیں اس کے لیے مجبور نہیں کروں گا-

چنانچہ حضرت موسی نے فرمایا کہ میرے اور آپ کے بیچ آٹھ برس کی مدت کا قول ہو چکا- اور بعد آٹھ برس کے مجھے اختیار ہے کہ میں چاہوں تو دس برس پورے کروں یا نہ کروں اس پر مجھ پر کوئی زور زیادتی نہ ہو گی- اور کہا کہ ایسا نہ ہو کہ پھر آپ مکر جاو اپنے قول سے- یعنی بعد آٹھ برس اگر میں جانا چاہوں تو آپ کہیں کہ دس برس کی بات ہوئی تھی- پس یہ مجھ پر زیادتی ہو گی آپ کیطرف سے ہاں اگر میں خود مدت دس برس کرنا چاہوں تو- تب شعیب علیہ السلام نے فرمایا کہ ہرگز ایسا نہ ہو گا اور مومن کا کام نہیں کہ اپنے قول سے پھرے پس بعد آٹھ برس تم میری طرف سے آزاد ہو گے۔

تبصرے بند ہیں۔