انسان نما بھیڑیے: کسی تنہا کو پوری بھیڑ نے مارا تو کیا مارا

اے رحمان

 علم الحیوانات کے ماہرین نے طویل مطالعے اور مشاہدے کے بعد جانوروں کے فطری عادات و خصائل کا اسی طرح تعیّن کیا ہے جیسے انسانی نفسیات کے ماہرین نے انسانوں  کے داخلی اور معاشرتی رویّوں کا۔بھیڑیا کتّے کی نسل کا شکاری جانور ہے لیکن خانگی نہیں ہے یعنی اسے کتّے کی مانند پالتو نہیں بنایا جا سکتا۔ حیرت کی بات ہے کہ نسلی ارتقا اور جسمانی اوصاف میں کتّے سے اعلیٰ تر ہوتے ہوئے بھی بھیڑیا کتّے کی طرح بہادر نہیں ہوتا۔جہاں پالتو کتّا اپنے مالک کی جان و مال کی محافظت کے لئے بڑی سے بڑی آفت کے سامنے سینہ سپر ہو جاتا ہے وہاں بھیڑیا اپنی شکم پری کے واسطے شکار بھی جھنڈ میں رہ کر کرتا ہے۔تنہا بھیڑیا شاذ و نادر ہی کسی ایسے جانور پر حملہ آور ہوتا ہے جس کی جانب سے مخالفانہ ردّ ِ عمل کا خدشہ ہو۔لیکن بھیڑیئے عموماًجھنڈ بنا کر رہتے ہیں (’تنہا بھیڑیا‘ ایک سائنسی اور ادبی موضوع ہے)اور جھنڈ کی صورت میں ان کی خصلت اور نفسیات یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔بھیڑیوں کا جھنڈ، جس میں پانچ سے گیارہ تک نر و مادہ بھیڑیئے ہوتے ہیں، اکثر  بلا سبب ہی شیر اور ہاتھی جیسے بڑے جانوروں پر بھی حملہ کر بیٹھتا ہے،اور اپنی اسی خصلت کی بدولت دس ’بڑے‘ اور اہم ترین شکاری جانوروں (alpha predators ) میں شمار ہوتے ہوئے بھی بھیڑیئے کو بزدل قرار دیا گیا ہے۔عام کتّے اور بھیڑیئے کے درمیان ایک نسل ہے جسے ’جنگلی کتّا ‘ کہا جاتا ہے اور وہ بھی اپنی حیوانی جبلّت میں بھیڑیئے کی مانند خوں آشام لیکن بزدل ہوتا ہے۔آٹھ دس جنگلی کتّے اکٹھّے ہو کر  یعنی جھنڈ کی صورت میں جنگل کے کسی بھی جانور بشمول شیر پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ یہیں سے مشتق ہے انگریزی محاورہ ’جھنڈ کی ذہنیت‘ (pack mentality ) جو ’اکژیت میں ہونے کا زعم اور اس سے پیدا شدہ وحشیانہ رویّہ ‘ کے معنی میں مستعمل ہے۔اب ایک دلچسپ، حیران کن لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ دس بڑے شکاری جانوروں کی فہرست میں انسان کو پہلا نمبر دیا گیا ہے لہذٰا ’جھنڈ کی ذہنیت‘ کا اطلاق بھی حضرت ِ انسان پر اسی طرح کیا جا سکتا ہے جیسے بھیڑیوں پر۔اور اس ذہنیت کا عملی اظہار سب سے زیادہ جس وحشیانہ جرم کے ذریعے ہوتا ہے اسے ’لِنچنگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔آکسفورڈ اور کیمبرج انگریزی لغات میں ’لنچنگ‘ کے معنی بیان کئے گئے ہیں، ’’ کسی گروہ یا بھیڑ کے ذریعے محض الزام کے تحت  الزام کی تصدیق یا ملزم کو دفاع کا موقع دیئے بغیر سزا کے طور پر اسے موت کے گھاٹ اتار دینا‘‘۔ (لنچنگ کے ساتھ لفظ ماب یعنی بھیڑ کا استعمال قطعی غیر ضروری ہے لیکن اب یہ غلط العام ہو چکا ہے)کولن ولسن نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’انسانی جرائم کی تاریخ‘‘ میں نہایت مفصّل اور نوحہ کن انداز میں فطرت ِ انسانی کی اس متشدّد سرشت کا تاریخی تناظر میں ذکر کیا ہے جس سے مغلوب ہو کر انسان نے انفرادی یا گروہی حیثیت میں بلا جواز انسانوں کو قتل کیا۔

 لفظ لنچنگ ماخوذ ہے امریکی انقلاب کے دوران وضع شدہ اصطلاح ’’لنچ قانون‘‘  (Lynch Law ) سے جو ’سزا بغیر مقدمہ ‘ کے مفہوم میں استعمال ہوا  اور اٹھارویں صدی کے دو بھائیوں ولیم لنچ اور چارلس لنچ سے منسوب ہے جو امریکی ریاست ورجینیا کے باشندے تھے۔چارلس لنچ نے برطانوی تسلّط کے خلاف بغاوت کے دوران ایک خود ساختہ عدالت کا جج بن کر انگریزوں کے حامیوں کو سیدھا ایک سال کے لئے جیل بھیجنا شروع کر دیا۔جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ کس قانون کے تحت ایسا کر رہا ہے تو اس کا جواب تھا ’’ آپ اسے لنچ قانون کہہ سکتے ہیں ‘‘۔اس کے بھائی ولیم لنچ نے بھی اپنے بعض معاملات میں لنچ قانون کا حوالہ دیا۔ بعد کو چارلس نے امریکی کنفیڈریشن کی کانگریس (قانون ساز اسمبلی) میں موجود اپنے دوستوں کے ذریعے ایک قانون پاس کروا لیا جس کی رو سے  وہ  ’جنگی مصلحت اور ضرورت‘ کے جواز کے تحت اپنی غیر قانونی ’منصفانہ‘ کاروائیوں سے بری الذمّہ قرار دے دیا گیا۔آج بھی امریکی ریاست ورجینیا میں ’’لنچ برگ‘‘ نام کا شہر پایا جا تا ہے جو دونوں لنچ بھائیوں سے منسوب ہے۔واضح ہو کہ ’لنچ قانون‘ کے تحت لوگوں کو جیل بھیجا جاتا تھا موت کی سزا کسی کو نہیں دی گئی لہذٰا اس اصطلاح کا استعمال ’غیر قانونی قید‘ یا بغیر مقدمہ سزا کے معنی میں ہوتا تھا،مگر امریکی خانہ جنگی شروع ہوتے ہی سفید فام امریکیوں نے (غلامی کا خاتمہ ہو جانے کے باوجود)نسلی منافرت کے جذبے سے مغلوب ہو کر سیاہ فام لوگوں کو بر سر ِ عام پھانسی کی صورت میں سزائے موت دینا شروع کر دی۔اس لنچنگ کا آغاز یوں تو انیسویں صدی کے اوائل میں ہو گیا تھا لیکن ۱۸۹۸ تک سیاہ فاموں پر بھیڑ کے یہ حملے انتہائی شدّت اختیار کر گئے۔اس وقت امریکہ میں نیگرو یعنی سیاہ فام لوگوں کی تعداد تقریباً پچاس لاکھ تھی جبکہ سفید فام تین کروڑ سے زائد تھے۔ ۱۹۰۹ میں ’’قومی تنظیم برائے ترقّیٔ سیہ فامان‘‘ نام سے ایک تنظیم وجود میں آئی جس نے ہر سطح پر لنچنگ کے خلاف احتجاج اور اس قسم کے معاملات کی تفتیش کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔پھر ۱۹۱۸ میں ایک ایسا واقعہ ہوا جسے انسانی حیوانیت کی بد ترین مثال کہا جا سکتا ہے۔۱۸ مئی ۱۹۱۸ کوجارجیا میں ایک نہایت بد خو، بد زبان اور شقی القلب قسم کے سفید فام زمیں دارکو کسی نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔شبہ اس کے فارم پر کام کرنے والے سیہ فام مزدور کسانوں پر گیا اور اس شبہے کے تحت ہیز ٹرنر نام کے ایک سیہ فام شخص کو گرفتار کر کے حوالات میں ڈال دیا گیا۔لیکن اگلے ہی دن عدالت میں لے جانے کا بہانہ کر کے اسے حوالات سے نکالا گیا اور اس کے باہر آتے ہی سفید فام لوگوں کے ایک انبوہ ِ کثیر نے اسے بڑی بے دردی سے مار مار کر ہلاک کر دیا۔اس کی بیوی میری ٹرنر جسے آٹھ ماہ کا حمل تھا گھر سے نکلی اور اس نے سر ِ عام نہ صرف اپنے خاوند کے وحشیانہ قتل کی مذمّت کی بلکہ چیخ چیخ کر دھمکی دی کہ وہ اس بھیڑ کے تمام لوگوں کوگرفتار کرا کے ہی دم لے گی۔تمام بھیڑ اس کی جانب امڈ پڑی۔اس کے دونوں ٹخنے باندھ کر اسے الٹا لٹکایا گیا اور اسے پٹرول سے تر کر کے آگ لگا دی گئی۔ابھی وہ زندہ ہی تھی کہ بھیڑ میں سے ایک شخص نے آگے بڑھ کر چاقو سے اس کا پیٹ چاک کر دیا اور اس کا نازائیدہ بچّہ پیٹ سے نکل کر زمین پر گر پڑا۔بچّے نے گر کر دو نحیف سی چیخیں ماریں جس پر بھیڑ کے ایک فرد نے جوتے کی ایڑی سے اس کا سر کچل دیا۔پھر چاروں طرف سے میری ٹرنر کے مردہ جسم میں سینکڑوں گولیاں پیوست کر دی گئیں۔ لیکن اس دردناک سانحے نے لنچنگ کے سلسلے کو ایک نیا موڑ دیا اور  نیوٹن کے عمل اور ردّ ِ عمل والے قانون کے مطابق سیاہ فام لوگوں نے سفید فاموں کی لنچنگ شروع کردی۔اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۵۱ تک ۱۲۹۳ سفید فام امریکی سیہ فام لوگوں کے ہاتھوں لنچ کر دیئے گئے۔لیکن۱۹۱۸ میں ہی لیونڈس ڈائر نے امریکی کانگریس میں لنچنگ مخالف بل پیش کر دیا تھا جو بعض سفید فام ارکان ِ کانگریس کی مخالفت کے باوجود ۱۹۲۲ میں پاس ہو گیا۔

پچھلے پانچ سال سے ہندوستان میں مذہبی عصبیت اور مسلم دشمنی کے تحت جس طرح مختلف بہانوں سے نہتّے مسلمانوں کی لنچنگ کی جا رہی ہے اس کا اب بین الاقوامی سطح پر بھی نوٹس لے لیا گیا ہے۔ تعجّب یہ ہے کہ بہانہ اکثر گئو کشی کا بنایا جاتا ہے جبکہ دنیا جانتی ہے کہ گوشت کی برآمد کے لئے گایوں کا ذبیحہ کرنے والی تمام کمپنیوں کے مالک ہندو اور جین حضرات ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ریاستوں میں گائے کا گوشت کھانے پر پابندی نہیں ہے اور کھانے والوں میں اکثریت غیر مسلم لوگوں کی ہے۔ملک کے بعض علاقوں میں اس حیوانی قتال کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج نے ایسی نوعیت اختیار کر لی ہے کہ اگر ارباب ِ حلّ و عقد نے عقل کے ناخن لیتے ہوئے اس کے تدارک کی فوراً کاروائی نہ کی اور لنچنگ کے خلاف سخت قانون نہیں بنایا گیا تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق اعلیٰ پیمانے پر فسادات بھڑک سکتے ہیں اور اس کے بعد ملک کو خانہ جنگی کی طرف جانے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔