راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

حفیظ نعمانی

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کو منانے کی ساری کوششیں بے اثر ہوگئیں اور اب انہوں نے اعلان کردیا کہ وہ ماں اور بہن کے ساتھ امریکہ جارہے ہیں۔ اور صدر کے انتخاب پر وہ اپنا سایہ بھی نہیں پڑنے دینا چاہتے۔ راہل گاندھی کے اتنے سخت رویہ کے بارے میں مختلف تبصرے ہورہے ہیں لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ وہ اب پوری طرح اس طرف سے مایوس ہوگئے ہیں کہ کسی بھی ترکیب سے حکومت کو تبدیل کیا جاسکے گا۔ اور ہر پانچ سال کے بعد نریندر مودی نہیں تو امت شاہ اور وہ نہیں تو ان کا کوئی اور چیلہ اسی طرح الیکشن لڑے گا اور تین سو سیٹیں جیت کر حکومت بنائے گا جیسے نریندر مودی نے بنالی۔

دو سال پہلے جب گورکھ پور اور پھول پور کا ضمنی الیکشن ہورہا تھا تو ہم نے ایک بہت سنجیدہ دوست سے دو بجے دوپہر کو معلوم کیا کہ الہ آباد میں نتیجہ کا رُخ کدھر کو جارہا ہے؟ انہوں نے عام آدمی کی طرح کہہ دیا کہ معلوم کرکے کیا کریں گے جسے مشین چاہے گی جتا دے گی۔ وہ اُترپردیش کے الیکشن کے زخمی تھے۔ ہم نے کہا کہ ہمارا اندازہ یہ ہے کہ ضمنی الیکشن اور چھوٹے الیکشنوں میں مشین اپنا ہنر نہیں دکھائے گی اور وہ اس وقت کوئی حربہ چھوڑے گی نہیں جو وزیراعظم کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا ہو۔ اور پھر پھول پور، گورکھ پور، کیرانہ اور ان کے علاوہ تین ریاستوں میں مشین کو زحمت نہیں دی گئی لیکن پارلیمنٹ کا الیکشن آتے ہی اس نے وہ سب کردیا جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ راجیہ سبھا میں الیکشن کی بدعنوانیوں پر بولتے ہوئے مسٹر کپل سبل نے کہا کہ اے وی ایم کی کارگذاری کا صحیح علم الیکشن کمیشن کے چیئرمین کو بھی نہیں ہوتا وہ کوئی انجینئر سیٹ کردیتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اس نے کیا سیٹ کردیا؟

اگر راہل گاندھی کو یہ یقین ہوتا کہ وہ اگر یہ چاہیں گے کہ بی جے پی کے علاوہ ہر پارٹی ان کی قیادت میں مشین سے الیکشن کرانے کا بائیکاٹ کردے گی تو وہ پانچ سال شاید صبر کرلیتے لیکن بات اگر راہل کی قیادت کی آتی ہے تو نہ جانے کتنی پارٹیاں غیربی جے پی اور غیرکانگریسی محاذ میں شریک ہوجائیں گی اور ایک درجن سے زیادہ پارٹیوں کو مودی جی نوٹوں کی بوریاں پکڑا دیں گے اور وہ نعرہ لگائیں گی کہ ہم تو مشین سے ہی الیکشن کرائیں گے۔ اور رہا چیف الیکشن کمشنر تو سنیل اروڑہ سے زیادہ وفادار اور تابعدار نہ جانے کتنے ہوں گے جو سفارش کرائیں گے کہ ہمیں خدمت کا موقع دیا جائے۔ اور وہ تین سو کے بجائے چار سو سیٹیں بی جے پی کو دے دیں گے۔

راہل گاندھی نے اپنی پارٹی کی ہار کی ذمہ داری لی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ اکیلے لڑرہے تھے۔ یہ بات وہ ہے جسے کہنے کا ان کو حق نہیں ہے۔ ان کو دیکھنا چاہئے کہ ہر پارٹی کا صدر اکیلا ہی لڑرہا تھا۔ بی جے پی میں نریندر مودی ترنمول میں ممتا بنرجی سپا میں اکھلیش یادو بی ایس پی میں مایاوتی اپنی اپنی پارٹیوں میں شردپوار، نتیش کمار، لالو یادو اور سیتارام یچوری وغیرہ۔ اور راہل کو برا نہ لگے کہ اکیلے لڑنے کی رسم ان کی دادی نے قائم کی ہے۔ وہی ہیں جنہوں نے الیکشن پیسے سے لڑنے کی رسم بنائی اور یہ رسم کہ جیتنے والا گھوڑا لائو یہ سنجے گاندھی نے بنائی ہے اور اس وقت نریندر مودی نے ان ہی دونوں رسموں کو دانتوں سے پکڑلیا ہے اور یہی دونوں رسمیں ہیں جن کی وجہ سے راہل گاندھی کانگریس کی صدارت سے الگ ہوگئے ہیں۔

2019ء کے الیکشن میں راہل گاندھی نے اپنی مدد کیلئے دو جنرل سکریٹری ایک اُترپردیش کے مغربی اضلاع کے لئے سندھیا کو اور مشرقی اُترپردیش کے اضلاع کو دیکھنے کیلئے۔ اپنی بہن پرینکا کو بنایا۔ لیکن اُترپردیش کا ہر آدمی گواہ ہے کہ مغربی اضلاع جہاں ووٹ بھی زیادہ تھے اور کام بھی زیادہ تھا اس کے نگراں سندھیا اتفاق سے کہیں نظر آگئے اور پرینکا گاندھی ہر دن ہر جگہ نظر آرہی تھیں انتہا یہ ہے کہ پرینکا نے سہارن پور اور میرٹھ میں بھی روڈ شو کیا جو سندھیا کا علاقہ تھا۔ اور وہ راہل گاندھی کے ساتھ ہر جگہ نظر آئیں۔

اگر راہل کانگریس کی تاریخ پڑھیں تو ان کو معلوم ہوجائے گا کہ جب تک پنڈت جواہر لعل نہرو زندہ رہے انہوں نے کانگریس کی گاڑی کو اکیلے نہیں چلایا 1952 ء سے ڈاکٹر منموہن سنگھ تک ہر الیکشن ہم نے دیکھا ہے یہ اندراجی کے زمانہ میں ہوا کہ کسی بڑے لیڈر کو بولتے ہوئے نہیں دیکھا۔ الیکشن مرکزی ہو یا صوبائی ہر جگہ صرف اندراجی بول کر چلی جاتی تھیں۔

کانگریس کے 13  صدر نہرو گاندھی خاندان سے باہر کے ہوئے لیکن یہ ہم نہیں مان سکتے کہ خاندان کا ان پر اثر نہ رہا ہو۔ لیکن اثر ایسا نہیں تھا کہ پیچھے سے حکم آتا ہو بلکہ اہم مسئلہ میں مشورہ ہوتا تھا۔ لیکن سیتا رام کیسری بھی صدر ہوئے جن کو سونیا گاندھی نے کھڑے کھڑے باہر کا راستہ دکھا دیا اور خود صدر بن گئیں۔ ان کے علاوہ صدر کوئی بھی رہا ہو، اہم معاملات میں اس خاندان کی بات پر عمل کیا جاتا تھا اور اب بھی یہی ہوگا صدر کوئی بھی ہو اُسے ہر وقت اس کا خیال رہے گا کہ راہل صاحب یا پرینکا جب چاہیں گی تو استعفیٰ لے لیں گی اور کوئی بغاوت نہیں کرسکے گا۔

اب اگر ایسا الیکشن کرانا ہے جس میں کوئی نتیجہ بھی نکلے تو سپریم کورٹ مشینوں کے استعمال پر پابندی لگائے اور چیف الیکشن کمشنر اسے بنایا جائے جس پر سپریم کورٹ کے دو جج ایک حکومت کا نمائندہ اور ایک سب سے بڑی پارٹی کا لیڈر متفق ہوجائیں۔ اگر یہ دو کام نہیں ہوئے تو زندگی بھر جس کے ہاتھ میں حکومت ہے اسی کے پاس رہے گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔