میڈیا: اپنوں سے پیار غیروں پر وار

ڈاکٹر سلیم خان

مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ  ہر سیاسی نظام کے  بنیادی عناصر ترکیبی ہیں۔ ان کے علاوہ ایک غیر سرکاری ادارہ ذرائع ابلاغ بھی ہے اس طرح مستحکم سیاسی نظام کی عمارت ان چار ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ جمہوریت کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ چاروں  ادارے پوری طرح آزاد ی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ان میں سے  کسی ایک  کو نہ تو  دوسرے پر فوقیت حاصل ہے اور نہ  دخل اندازی  کا حق ہے۔ اس دعویٰ کی حیثیت مودی جی یا شاہ جی کے جملوں سے بھی کم ہے۔ حقیقت سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مقننہ کے پاس خزانے کی چابی ہوتی ہے اس لیے وہ ان سب کو بالواسطہ یا بلاواسطہ  اپنے قابو میں رکھتا ہے۔ انتظامیہ  تو پوری طرح حکومت کے چشم ِابرو کا غلام ہوتا ہے۔ ان میں سے جو لوگ انحراف کی جرأت کرتے ہیں ان میں سے  سنجیو بھٹ جیسے فرض شناس افسر کو کو عمر قید کی سزا  سنائی جاتی  ہے اور ونجارہ و امین  جیسے مجرمین  کو حق نمک ادا کرنے کے عوض رہائی، بحالی اورترقی سے نوازہ جاتا ہے۔ عدلیہ کا معاملہ درمیان کا ہے کہ کچھ منصف اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں لیکن ان میں سے بھی اکثر ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ ججوں کے اندر سے جو سر اٹھاکر بات کرتے ہیں ان کی بغاوت کوجسٹس لویا کی مانندکچل دیا  جاتا ہے۔

 میڈیا کو اول تو خریدلیا جاتا ہے اور جو نہیں بکتا اس کو جبر استبداد کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ نجی ٹیلیویژن  چینلس چونکہ باقائدہ حکومت پر انحصار نہیں کرتے اس لیے ان  سے حکومت کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے اور انہیں قابو میں رکھنے کے لیے خصوصی اقدامات کرنے پڑتے ہیں  مثلاً انتخاب سے قبل سارے ٹی وی چینلس کو دھمکانے کے لیے بی جے پی نے یہ ماسٹر اسٹروک مارا کہ اے بی پی چینل پر ماسٹر اسٹروک پروگرام چلانے والے ماسٹرپونیہ پرسون واجپائی  کو  مرغا بناکر باہر کا راستہ دکھا دیا۔  یہ سزا واجپائی کی ذات تک محدود نہیں تھی جنہوں نے مودی جی کے جھوٹ کو طشت ازبام کردیا تھا  بلکہ چینل کے بے قصور چیف ایڈیٹر ملند کھانڈیکر کو بھی اس میں لپیٹ دیا گیا تھا ۔ اس سے سارے چیف ایڈیٹرس کو خبردار کردیا گیاکہ وہ اپنے چینل پر کڑی نگاہ رکھیں اور اگر ان کے کسی اہلکار سے بھی  حق گوئی  کا گناہ سرزد ہوجائے  تو انہیں بھی  اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ واجپائی کے جونیرابھیسار شرما پر بھی نکیل کسی گئی مگر انہیں نکالنے کے بجائے معطل کرنے پر اکتفاء کیا گیا ۔ اس سے چھوٹے موٹے اینکرس بھی سہم گئے۔

اے بی پی سےپونیہ پرسون  واجپائی کے نکل جانے کے بعد جو کچھ ہوا وہ کسی جاسوسی کہانی سے کم نہیں تھا۔ سوریہ چینل نے  واجپائی کو اپنے چینل کا سربراہ کا سہرہ بنایا اور ٹیم بنانے کے لیے کہا گیا۔ وہ  مختلف چینلس سے ہونہار اور نڈر  نامہ نگاروں کو نکال  کر اپنے ساتھ لے آئے اور اس سے پہلے کہ کوئی تہلکہ مچاتے پورا جہاز ڈوب گیا ۔ بہت ممکن ہے حکومت کے دباو میں یہ سورج نصف النہار پر آنے سے قبل  غروب ہوگیا ہو لیکن اگر یہ کام کسی سازش کے ساتھ ہواتھا تو وہ کمال کی سازش تھی جس میں پونیہ پرسون واجپائی کو نادانستہ طور پر چارہ کے طور پر استعمال کیا گیا اور جب بہت سارے باغی پرندے اس جال میں پھنس گئے تو ان مذبح خانہ روانہ کردیا گیا  تاکہ ان کے شوربے سے  سنگھ کو تقویت دی جائے۔  ذرائع ابلاغ کے رجائیت پسند لوگوں کو یہ توقع تھی کہ یہ سارا تماشہ انتخابی کامیابی  کے لیے تھا۔ دوبارہ حکومت سازی  کے بعد بی جے پی دباو کم کردے گی لیکن وہ تو ضرورت سے زیادہ ڈرپوک نکلی۔ اس نے ۲۰۲۴ کے پیش نظر ابھی سے ایسے چینلس  کا گلا گھوٹنا  شروع کردیا جو اس وقت  خطرناک ثابت  ہوسکتے ہیں تاکہ آ ئندہ پانچ سالوں میں وہ ازخود دم توڑ دیں۔

 راگھو بہل نے این ڈی ٹی وی کے مقابلے راجدیپ سردیسائی کے ساتھ مل کر سی این این آ بی این چینل شروع کیا ۔۲۰۱۴ میں مودی  جی کی راہ ہموار کرنے کی خاطر مکیش امبانی نے اسے خرید کر راشٹریہ سہارا  کو بھی اس میں ضم کرلیا۔ راگھو بہل کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے بلومبرگ کے ساتھ مل کوئنٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا  لیکن انہیں لائسنس نہیں ملا ۔ ملتا بھی تو کیسے اس لیے کوئنٹ کے چلتے ارنب گوسوامی کے ریپبلک کو کون پوچھتا؟ قومی انتخاب  سے قبل   کوئنٹ نے یو ٹیوب پر بی جے پی کی دھجیاں اڑا دی مگر اب اسے اپنی جرأت رندانہ کی قیمت اس طرح چکانی پڑ رہی ہے کہ  راگھو بہل کے خلاف مبینہ منی لانڈرنگ کا  مقدمہ دائر کردیاگیاہے۔بہل پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے لندن میں 2 کروڑ میں کا گھر خریدا اور ٹیکس رٹرن میں اس کا اقرار کیا تب بھی ان کو پریشان کیا جارہا ہے۔  ہندوستان کے اندر سب سے معتبر چینل این ڈی ٹی وی پر خطرات کے بادل  منڈلا رہے ہیں ۔ ملک میں حصص بازار پر نگاہ رکھنے والے سرکاری ادارہ سیبی نے این  ڈی ٹی وی کے پرموٹرس رادھیکا رائے اور پرنوئے رائے کے خلاف ایک حکم نکال‌کر ان کو دو سال تک اقتصادی بازار میں لین دین کرنے سے منع کر دیا  ہے اور انہیں  ٹیلی ویژن چینل کے ڈائریکٹر کی کرسی سے بھی  ہٹا دیا گیا ہے۔

 دی وائر نے جب امیت شاہ کے بیٹے کو جب بے نقاب کیا تو حکومت علی الاعلان اس کی مخالفت میں اتر آئی اور نہ جانے کتنے مقدمات میں اس کو پریشان کیا گیا لیکن این ڈی ٹی وی  کا شمارتو غیر جانبداراور متوازن چینلس میں ہوتا ہے۔ وہ  چونکہ  حکومت تلوے نہیں چاٹتا بلکہ وقتِ ضرورت تنقید بھی کرتا ہے اس لیے اس پر لگام کسی جارہی ہے۔حکومت کے اس رویہ  نے عالمی سطح پر ہندوستان کی ساکھ میں زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی کے حوالے سے سال 2019 کے اندر  180 ممالک  میں سے ہندوستان  140 ویں مقام پر تھا۔ ہمارے ملک میں جمہوریت کا چوتھا ستون  افغانستان، میانمار اور فلپائن  جیسے ممالک سے بھی نیچے آگیا ہے  جبکہ  سال 2002 میں جب اس فہرست  کو مرتب کرنا شروع کیا گیا تو ہندوستان 139 ممالک میں سے 80 ویں مقام پر تھا۔ یہ کس قدر شرم کی بات ہے کہ نئی فہرست میں۶۰ مزید ممالک ہم سے آگے نکل گئے۔  حیرت ہے کہ اس کے باوجود بڑی ڈھٹائی  کے ساتھ  وزیراعظم ساری دنیا میں خود  کو سب سے بڑی جمہوریت قرار دے کر وشو گرو بننے کا خواب بیچ رہے ہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔