انصاف صرف اندھا ہی نہیں، گندہ بھی ہے!

مدثراحمد

اسلام کا کہنا ہے کہ قربِ قیامت بے حیائی، بے پردگی، جنسی خواہشات، زنا اور فحاشی عام ہوجائیگی، لوگ سڑکوں پر زنا کرنے لگے گیں، بے حیائی عام ہونے لگے گی، بے پردگی کابول بالاہے او رجنسی خواہشات کیلئے لوگ کسی بھی حد کو پار کرینگے۔ ان احکامات کے مطابق ہی آج کل ملک میں ان چیزوں کوبے انتہاء بڑھاوا مل رہا ہے۔ سننے اور کہنے کو تو یہ باتیں بہت ہی عام ہیں لیکن ہم اور آپ جس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیںاور جس قانون کی پاسداری کرتے ہیںاور جس معاشرے سے ہمارا تعلق ہے اس میں برائیوں کو کسی بھی طرح کامقام حاصل نہیں ہے۔ لیکن آج عدالتیں خود ہی بے حیائی اور جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے ایسے راستے فراہم کررہی ہیں جو انسانیت کو شرمسار کرنے والی باتیں ہیں۔

 پچھلے کچھ دنوں سے ہندوستان کی عدالتوںمیں انصاف کے نام پر جوباتیں کی جارہی ہیں اس سے یہ باتیں طئے ہیں کہ انصاف اندھاہی نہیں بلکہ گندہ بھی ہے۔ محض ایک ماہ قبل ہندوستان کی عدالت عظمیٰ کے ججس صاحبان نے آرٹیکل377 کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے حقوق انسانی کے خلاف کہا۔ اس قانون کے مطابق ایک مرد دوسرے مرد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرسکتا ہے، اسی طرح سے ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ جنسی تعلقات میں ملوث ہوسکتی ہے۔ اب تک یہ قانون ہندوستان میں آئینی درجہ رکھتا تھااور اس بے حیا و بے شرم رشتوں کو سماج میں گری ہوئی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ خود لوگ ان حرکتوں کوانجام دینے والے افراد پر لعنتیں بھیجا کرتے تھے، لیکن آج ہر گنا ہ کے کام کو قانونی درجہ دلوانے کیلئے اورعدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جارہاہے اور عدالتیں حقوق انسانی اور حقوق نسواں کے نام پر بے شرم حرکتوں کو قانونی درجہ دے رہی ہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی ملک کی مختلف عدالتوں نے کئی بے حیائی کے کاموں کو قانونی درجہ دیا تھا جس میں ایک مقدمہ لیوان ریلشن شپ کے قانون کو بھی مرکزی حکومت اور عدالت عظمیٰ نے منظوری دی تھی۔ لیوان ریلشن شپ قانون کے مطابق بغیر شادی کئے ایک مردوعورت یا لڑکا یا لڑکی اپنی پسند کے مطابق میاں بیوی کی طرح رہ سکتے ہیں، لیکن دونوں کارشتہ قانونی طو رپر میاں بیوی کا نہیں ہوسکتا۔ جب تک مرد یا عورت چاہے ایک دوسرے کے بن رہ سکتے ہیںاور جب دل بھر جائے تو وہ اس رشتے کو ختم بھی کرسکتے ہیں۔

 اس قانون کو بھی سپریم کورٹ نے بہت ہی فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے منظوری دی تھی۔ عدالت عظمیٰ نہ صرف سیول اور کریمنل مقدموں کے فیصلے سنانے والاادارہ ہے بلکہ وہ ملک کے ہر معاملے میں مداخلت کرسکتا ہے، اس کے علاوہ عدالت عظمیٰ کردار سازی کیلئے بھی عوام کو احکامات جاری کرنے کی طاقت رکھتی ہے، سپریم کورٹ ہمیشہ سے ہی قانون، جمہوریت، ملک کی عوام اور حکمرانوںکی اصلاح کرتی آئی ہے۔ بات چاہے وہ قانون کے دائرے میں ہو یا پھر قانون کے دائرے سے باہرکی۔ سپریم کورٹ میں جو فیصلے ہوئے ہیں وہ مثال بنے ہیں۔ حالیہ دنوںمیں جوفیصلے سپریم کورٹ کی جانب سے آرہے ہیں وہ تشویشناک ہیں۔ آرٹیکل 377 کو منسوخ کرنے کے چند دن بعد ہی عدالت نے آرٹیکل497 کو منسوخ کردیا ہے۔ آرٹیکل497 کے مطابق اگر کوئی مرد کسی شادی شدہ خاتون کے ساتھ آپسی رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرتا ہے تو مذکورہ خاتون کا شوہر یا رشتہ دار اس مرد کے خلاف کسی بھی طرح کی قانونی کارروائی کرسکتا تھا، حالانکہ اگر تعلقات قائم کرنے والامرد شادی شدہ ہے تو اس کی بیوی اس کے شوہرکے خلاف اورتعلقات قائم کرنے والی خاتون کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتی تھی۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے اُس میں کہا گیا ہے کہ عورت اس کے شوہرکی غلام نہیں ہے اسے اپنی پسند کے مطابق کسی کے ساتھ بھی تعلقات رکھنے کی اجازت ہے اور اگر ایسا کرتے ہوئے پکڑے جائیں تو ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہوگی، نہ مردکے خلاف اور نہ ہی عورت کے خلاف۔

 اس حکم کے بعد یقینی طور پر جو بے حیائی چھپ کر ہواکرتی تھی اب کھلے عام ہوگی اور کوئی ایسے واقعات کے خلاف قانون کے دائرے میں آوازنہیں اٹھا سکتا۔ اس سے پہلے جو قانون تھا اس قانون میں مرد کو قصوروار ٹھہرایا جاتا تھااور عدالت اسے اڈلٹیری اور فحاشی کے نام پر سزا سنایا کرتی تھی۔ اب تک قانون کو اندھا قانون کہتے تھے لیکن یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ قانون اندھا ہی نہیں بلکہ گندہ بھی ہے اور اس قانون کی پاسداری کرنے والے لوگ بے حیائی اور بے شرمی کو ساتھ بڑھنے لگیں گے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ عدالت نے جو فیصلہ سنایا ہے وہ اُس فیصلے پر غور کیا جائے تو یہ ایک طرح سے زناکو عام کرنے کے مترادف ہے۔

پہلے ہی معاشرے میں اس طرح کی بے حیائیاں عام ہوچکی ہیںاور قانون کا سہارا لیکر اور بھی حالات بگڑنے لگیں گے۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستان میں پہلے سے ہی کئی طرح کے مسائل ہیں، ان مسائل پر روشنی ڈالنے کیلئے عدالتیں سنجیدہ نہیںہیں اور وقت کی کمی بہانہ بنا کر وہ حقیقی مسائل کے حل کیلئے انصاف کے متلاشی لوگوں کو انصاف کی خاطر زندگیاں گنوانی پڑرہی ہیں، مظلوموں کو انصاف کا انتظار ہے لیکن عدالت کے پاس ان مظلوموں کو انصاف دلانے کیلئے وقت نہیں ہے نہ ہی عدالتیں اس سمت میں پیش رفت کرنا چاہتی ہیں۔ وہیں ایسے فیصلے جو عدالتوں اور ججوں کے نام کو عام کردیں، ججوںکی جم کر تشہیر ہوایسے فیصلوں کو آن کی آن کی سنایا جارہا ہے۔

 یقینی طو رپر کچھ فیصلے عوام کے حق میں بھی ہیں لیکن جس ملک میں ہم رہتے ہیں اُس ملک کی تہذیب بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ زنا، بے حیائی اور فحاشی عام ہو۔ وزیر اعظم نریندرمودی جو ہندوتوا کے دلداہ ہیںاور ملک میں ہندوتواقانون کو نافذ کرنا چاہتے ہیں وہ خود بھی سوچیں کہ کیا عورتیں”کال گرل”بننے لگیں، مردمرد کو جنسی خواہشات کو دعوت دینے لگیںاور عورت عورتوںکی عزتوں لوٹتی رہیں، شادی جیسے مقدس رشتے کو کانٹراکٹ رشتہ بنالیں؟اگر ایسا نہیںہے تو کیونکر مرکزی حکومت ان بے حیائی کی تائید کرنے والے فیصلوں کے خلاف عدالتوں سے رجوع نہیں ہورہی ہے اور کیونکر قانون کی ترمیم کو روک کر ملک میں امن وامان و بے حیائی کو روکنے کیلئے اقدامات اٹھارہی ہے۔ دوسری جانب یہ بات بھی ہے کہ جب تک کسی اونچے عہدے پرفائز ہونے والاشخص تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ مہذب، با کردار، بااخلاق نہ ہواُس وقت تک ایسے ہی حالات پیش آتے رہیں گے اور مغربیت مشرقی رواج پر حائل ہوتی رہے گی۔ اکثر اخباروں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ غیر فطر ی عمل، ناجائز رشتوں اورعشق و معشوقوںکے معاملات کا انجام کیا ہورہا ہے۔ کرناٹک میں ہی پچھلے بیس دنوں میں ناجائز رشتوں کے سبب دو نوجوانوں نے اپنی ہی بیویوں کے گردنیں کاٹ کر سیدھے تھانوںمیں ایسا لے گئے کہ جیسے تھانوں کے افسروںکیلئے سوغات لئے جارہے ہوں۔

 آج اصلاح معاشرے کے نام پر ہمارے یہاں جو جلسے و سمینار منعقد کئے جارہے ہیں، اُن جلسوں اور سمیناروںمیںعام لوگوں کو دعوت دینے کے ساتھ ساتھ عدالتوںمیں بیٹھے ہوئے وکلاء، ججوں، پولیس اہلکاراور میڈیا کے نمائندوں کوبلا کر معاشرے کی اصلاح کیا ہے اور کیسی کرنی ہے، ان چیزوںکے تعلق سے تربیت دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ قانون پرعمل کرنے والوں کی ذمہ داری سے زیادہ قانون بنانے والوں کی ذمہ داری زیادہ ہوتی ہے، اگر قانون بنانے والے ہی ایسا قانون بنانے لگیں، جس میں کسی کی بیوی کسی اور کے ساتھ، کوئی مرد کسی اورعورت کے ساتھ سونے لگیں تو یہ کیسا قانون ہوگااور اس قانون کے ذریعے سے پیداہونے والے بچے حرام زادے نہیں ہونگے تو کیا ہونگے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔