انقلاب کا اسلامی تصور!(آخر ی قسط)

محمد آصف اقبال

اسلام نے انسان کو خدا کا خلیفہ اور روئے زمین پر اس کا نائب قرار دیا ہے۔ قرآن حکیم میں انسان کو خدا کا خلیفہ بنائے جانے کے واقعہ کو روئے زمین پر وہ پہلا عظیم واقعہ قراردیا ہے جس کے ہونے سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھاکہ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں ” انہوں نے عرض کیا” کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا؟آپ کی حمد و ثناء کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں "۔ فرمایا” میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے”۔ اس کے بعد اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے، پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا” اگر تمہارا خیال صحیح ہے کہ کسی خلیفہ کے تقرر سے انتظام بگڑ جائے گا تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاو؟”۔انہوں نے عرض کیا” نقص سے پاک توآپ ہی کی ذات ہے، ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں، جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے والا اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں ـ” (البقرہ:30-32)

آیت کے ذیل میں چند باتوں کوسمجھنے کی ضرورت ہے۔الف)خلیفہ اسے کہتے ہیں جو کسی کی مِلک میں اس کے تفویض کردہ اختیارات اس کے نائب کی حیثیت سے استعمال کرے۔ خلیفہ مالک نہیں ہوتا، بلکہ اصل مالک کا نائب ہوتا ہے۔ اس کے اختیارات ذاتی نہیں ہوتے، بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے منشا کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا، بلکہ اس کا کام مالک کے منشا کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپنے آپ کو مالک سمجھ بیٹھے اور تفویض کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے، یا اصل مالک کے سوا کسی اور کو مالک تسلیم کر کے اس کے منشا کی پیروی اور اس کے احکام کی تعمیل کرنے لگے، تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہونگے۔ب)فرشتوں کا یہ سوال کہ کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا؟یہ فرشتوں کا اعتراض نہ تھا بلکہ استفہام تھا۔ فرشتوں کی کیا مجال کہ خدا کی کسی تجویز پر اعتراض کریں۔

وہ "خلیفہ” کے لفظ سے یہ تو سمجھ گئے تھے کہ اس زیرتجویز مخلوق کو زمین میں کچھ اختیارات سپرد کیے جانے والے ہیں، مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ سلطنت کائنات کے اس نظام میں کسی با اختیار مخلوق کی گنجائش کیسے ہوسکتی ہے، اور اگر کسی کی طرف کچھ ذرا سے بھی اختیارات منتقل کر دیے جائیں، تو سلطنت کے جس حصے میں بھی ایسا کیا جائے گا، وہاں کا انتظام خرابی سے کیسے بچ جائے گا،پس اسی بات کو وہ سمجھنا چاہتے تھے۔ج)اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ” میں جانتا ہوں، جو کچھ تم نہیں جانتے”۔ یہ فرشتوں کے دوسرے شبہہ کا جواب ہے۔ یعنی فرمایا کہ خلیفہ مقرر کرنے کی ضرورت و مصلحت میں جانتا ہوں تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ اپنی جن خدمات کا تم ذکر کر رہے ہو، وہ کافی نہیں ہیں، بلکہ ان سے بڑھ کر کچھ مطلوب ہے۔ اسی لیے زمین میں ایک ایسی مخلوق پیدا کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے جس کی طرف کچھ اختیارات منتقل کیے جائیں۔ یہ ہے انسان کی وہ حیثیت کہ جس کو جامع تصور حیات اور علم کے ساتھ زمین میں بھیجا گیاہے۔

 یہ تصور حیات اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کا فطری طور پر قائم کیا ہے۔پھر اگرایک انسان اس تصور حیات تک نہیں پہنچتاتو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے شعور، تحت شعور اور لاشعور میں باطل فکر و نظریہ کی پرتیں جم گئی ہیں جنہیں صاف کیا جانا ضروری ہے۔کیونکہ ایک نائب کا بحیثیت نائب ہونے کے سوا اور کیا نصب العین ہونا چاہیے کہ وہ جس کا نائب ہے اس کی رضا اور خوشنودی حاصل کرے اور اس کی نظر میں ایک اچھا، وفاداراور فرض شناس ملازم قرار پائے؟اور اگر وہ کوئی سچا اور نیک نیت آدمی ہے تو کیا وہ اپنے آقا کی خدمت بجالانے میں اس کی رضا جوئی کے سواکسی اور چیز کو اپنا مقصود بنا سکتا ہے؟کیا وہ اپنا فرض اس لیے بجا لائے گا کہ اس کی معاوضہ میں اس کو کسی نفع کی طمع اور کسی ترقی یا انعام یاجاہ و منزلت کی زیادتی کا لالچ ہے؟یہ الگ بات ہے کہ آقا اس سے خوش ہوکر اسے یہ سب کچھ عطا کردے،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آقا اس کے حسن خدمت کے صلہ میں ان چیزوں کے بخش دینے کی امید دلائے اور اس میں بھی مضائقہ نہیں کہ خود اس کو یہ علم ہو کہ اگر میں نے ٹھیک طور سے فرائض انجام دے کر اپنے آقا کو خوش کر دیا تو وہ مجھے یہ انعام دے گا۔لیکن اگر اس نے انعام ہی کو اپنا اصل مقصود بنالیا، اور اپنے فرائض منفعت کی خاطر انجام دیئے، تو کیا کوئی دانشمندایسے ملازم کو ایک فرض شناس ملازم کہہ سکتا ہے؟پس اسی مثال پر خدا اور اس کے نائب کے معاملہ کو بھی قیاس کر لیجئے۔

یہی وہ ٹھیک نصب العین ہے جو اسلام نے انسان کے سامنے پیش کیا ہے۔قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اسی ایک نصب العین کو ذہن نشین کرنے اور قلب و روح میں بٹھادینے کی کوشش کی ہے۔ اور اس کے سوا ہر دوسرے مطمح نظر کو پورے زور کے ساتھ باطل قرار دیا ہے۔فرمایا:اے پیغمبرؐ کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرامرناسب کچھ اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں ہے۔مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اس کے آگے سرجھکانے والا ہوں (الانعام:20)

وہیں ان لوگوں کا تذکرہ گیا ہے جو خدا کے بتائے طریقہ پر عمل نہیں کرتے اور اس کے قیام کی سعی و جہد میں مصروف عمل نہیں رہتے۔فرمایا:ان پر مار اس لیے پڑے گی کہ انہوں نے اس چیز کی پیروی کی جس نے خدا کو ناخوش کردیااور انہوں نے خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کو پسند نہ کیا۔اس لیے اللہ نے ان کے اعمال اکارت کر دیے(سورۃ محمد:28) نیز اللہ کے رسولؐ فرماتے ہیں :”اللہ صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالصتاً اس کے لیے کیا جائے اور جس سے محض اس کی رضاجوئی مقصود ہو”(سنن النسائی:3140)

 آخر میں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ بحیثیت مسلمان ہماری دو قسمیں پائی جاتی ہیں۔ ایک عددی قوت اور دوسرے صفاتی، روحانی یا اخلاقی قوت۔حرکت و کش مکش کا عمل جو خدا کو مطلوب ہے اس میں عددیت کی بجائے صفاتی قوت ہے مطلوب ہے جو عددی قوت کو دس گنا تک بڑھادیتی ہے۔بااصول اور باکردار مسلمانوں کی تعداداگر بے انتہا نہ بھی ہو اس کے باوجود کام زیادہ اور بہتر ہوگا۔برخلاف اس کے اصول و کردار کی کمزوریاں نہ صرف یہ کہ ہماری عاقبت خراب کرنے والی ہیں بلکہ دنیا میں بھی ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہیں۔ اور اگر مسلمان خود ہی باہم دگر اختلافات میں مبتلا ہوں، اظہار بے اطمینانی، غیبت، نجویٰ، عدم رازداری اور غیر فطری اعمال میں مبتلا ہوں تو یہ مزید خسارے کا سودا ہے۔علاوہ ازیں ہمارا میل جول، لین دین،رہن سہن وغیرہ کے اخلاقی تقاضے من مانے طرز ہائے عمل میں اتنے دب جائیں جاتے ہیں کہ ہمارے قول و عمل میں تضاد بڑھتا جاتا ہے۔لہذا ہمیں اپنے اندر اُس احساس کو از سرنو ابھارنا ہے کہ ہم اوّل و آخر اسلام کے مشنری،داعی،نقیب اور انقلابی سپاہی ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا کام لوگوں تک پہنچنا، عوام سے ملنا اور مخالفین کی غلط فہمیاں رفع کرنا ہے۔ بسوں، گاڑیوں، ہوٹلوں، اسکول کالجوں، دفتروں، ہسپتالوں، پریس کے پلیٹ فارم سے آواز حق بلند کرنا، ہر قسم کی علمی و ادبی اور صحافیانہ سرگرمیوں کے ذریعہ کلمتہ اللہ کے نور کو پھیلانا اور خدا اور رسولؐ کی واضح کردہ ہدایات کی طرف زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متوجہ کرانا ہمارا اساسی اور دائمی پروگرام ہے۔

ہمارے اندر یہ احساس بھی شدت سے موجود ہونا چاہیے کہ ہماری دعوت اور ہمارے ذاتی اخلاقی اور اجتماعی سرگرمیوں کے انداز میں کوئی تضاد باقی نہ رہ جائے۔ مجوذہ عمل کے نتیجہ میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ہم نے اپنا یہ صحیح مقام دورِنو کا آغاز کرتے ہوئے پالیا تو ہم یک دل و یک جان بھی ہوں گے، سرگرم اور متحرک بھی اور اطمینان سے بہرہ مند بھی ہوں گے۔وہیں یہ حقیقت بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہنی چاہے کہ ہر باطل نظریے اور ہر فاسد تحریک و تہذیب جو ہم پر حملہ آور ہے اور ہر طاغوتی قوت جو ہماراراستہ روکتی ہے اور پھر ہمارا بگڑاہوا ماحول جو سیلابی ریلے کی طرح ہمیں نہ صرف آگے بڑھنے سے روکنا چاہتا ہے بلکہ قدم بہ قدم پیچھے دھکیلنا چاہتا ہے، ان مانع و مزاحم قوتوں کے دبائو کا اثر ہم کبھی قبول نہ کریں۔ اور ایک جگہ جم جانا تو کجا، ہم دین حق کے جادہ انقلاب پر مسلسل آگے بڑھتے جائیں۔

ہم اپنے دین کے ایک ایک اصول اور اخلاق کی ایک ایک قدر کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں اور اپنی سہولت کے لیے حق اور نیکی کا کوئی ذرہ بھی کسی دبائو ڈالنے والی قوت کے قدموں میں نچھاور نہ کریں۔ اِنہیں پختہ عزائم پر قائم و دائم رہتے ہوئے یہ امید کی جانی چاہیے کہ انشااللہ تبدیلی لازماًآئے گی۔ اور اس تبدیلی کو لانے والے اور حالات کا رخ موڑنے والے آپ ہی ہوں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے شعور کو پوری طرح بیدار کریں اور اس عظیم ذمہ داری کو انجام دینے کے لیے خود کو تیارپائیں !

تبصرے بند ہیں۔