انقلاب کا اسلامی تصور! (تیسری قسط)

محمد آصف اقبال

کسی بھی تہذیب کوجب ہم نقد صحیح کے معیار پر جانچنا چاہیں تو ہمارے لیے اُس کے نصب العین کی جستجو ناگزیر ہے۔ اس موقع پر یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ تہذیب کے نصب العین سے ہماری مراد کیا ہے؟یہ ظاہر ہے کہ جب ہم ‘تہذیب’کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے ہماری مراد افراد کی شخصی تہذیب نہیں ہوتی بلکہ ان کی اجتماعی تہذیب ہوتی ہے۔ اس لیے ہر فرد کا شخصی نصب العین، تہذہب کا نصب العین نہیں ہوسکتا۔ اس کے برعکس یہ لازم ہے کہ ایک تہذیب کا جو نصب العین ہو وہ اس تہذیب کے متبعین میں سے ہر ہر فرد کا نصب العین بن جائے، اس سے صرف نظر کہ فرد کو اس کا شعور ہے یا نہیں۔ اس لحاظ سے تہذیب کا نصب العین ہی وہ معیار ہے جوشعوری یا غیر شعوری انسانوں کی ایک بڑی جماعت کا مشترک اجتماعی نصب العین بن ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی شعوری طور پر اُس نصب العین نے افراد کے شخصی نصب العین پر اتنا غلبہ پالیا ہو کہ ہر فرد کا وہ ذاتی نصب العین بن جائے۔

اس قسم کے اجتماعی نصب العین کے لیے لازم ہے کہ وہ افراد کے شخصی نصب العین سے کامل موافقت و مناسبت رکھتا ہو اور اس میں یہ صلاحیت موجود ہو کہ بیک وقت وہ انفرادی واجتماعی نصب العین بن سکے۔ کیونکہ جو اجتماعی نصب العین فرداًفرداًقبول نہ کیا جائے وہ اجتماعی خیال بن ہی نہیں سکتا۔ اور اگر کسی زبردست اثر کے تحت وہ اجتماعی نصب العین بن بھی گیا ہو تو فرد کے نصب العین اور جماعت کے نصب العین میں غیر محسوس طور پر ایک کشمکش برپارہے گی۔ یہاں تک کہ اس غالب اثر کے کمزور ہوتے ہی افراد اپنے اپنے نصب العین کی طرف پھر جائیں گے۔ جماعت کا نصب العین باطل ہو جائے گا،ہیئت اجتماعی کی قوت جاذبہ و رابطہ فنا ہو جائے گی اور تہذیب کا نام و نشان تک باقی نہ رہے گا۔ اس لیے تہذیب کا صحیح نصب العین وہی ہوسکتا ہے جو حقیقتاً انسان کا فطری نصب العین ہو۔ اور ایک تہذیب کی اصل خوبی یہی ہے کہ وہ ایسااجتماعی نصب العین پیش کرے جو درحقیقت باآسانی انفرادی نصب العین بن سکتا ہو۔

 اجتماعی اور فطری نصب العین کے پس منظر میں دو سوال ابھرسکتے ہیں۔ i)فطرۃً انسان کا شخصی نصب العین کیا ہے؟اورii)دنیا کی دوسری تہذیبوں نے جو نصب العین پیش کیے ہیں، وہ کس حدتک انسان کے اس فطری نصب العین سے مناسبت رکھتے ہیں ؟انسان کے فطری نصب العین کا سوال دراصل یہ سوال ہے کہ انسان فطری طور پر دنیا میں کس مقصد کے لیے جدوجہد کرتا ہے اور اس کی طبیعت کس چیز کی خواہش مند ہوتی ہے؟اس تعلق سے اگر فرد سے فرداً فرداًپوچھا جائے کہ وہ دنیا میں کیا چاہتا ہے ؟تو آپ کو مختلف لوگوں سے مختلف جوابات مل جائیں گے۔ اور شاید ہی کوئی دو آدمی ایسے ملیں جن کے مقاصد اور جن کی خواہشات بالکل یکساں ہوں۔ لیکن ان سب کے جوابات کا جائزہ لیجئے تو محسوس ہوگا کہ جن چیزوں کو مقاصد قراردیا ہے وہ دراصل فی نفسہ مقصود نہیں بلکہ ایک مقصود تک پہنچنے کے ذرائع ہیں۔  اور وہ واحد مقصود خوشحالی و اطمیان قلب ہے۔ یعنی ہر شخص خواہ وہ کسی مرتبہ عقلی و ذہنی اور کسی طبقہ عمرانی سے تعلق رکھتا ہو، اور خواہ وہ کسی شعبہ حیات اور کسی میدان عمل میں جدوجہد کرتا ہو، اپنی کوششوں کے لیے ایک ہی نصب العین رکھتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسے امن،سلامتی، آشتی،خوشی اورلوگوں کی خوشنوی و اعتمادحاصل ہو۔ لہذااس کو ہم فرد انسانی کا فطری نصب العین کہہ سکتے ہیں۔

 دوسری جانب دنیا کی مختلف تہذیبوں نے جو اجتماعی نصب العین پیش کیے ہیں ان کو اصولی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ i)جن تہذیبوں کی بنیاد کسی مذہبی و روحانی تخیل پر نہیں ہے انہوں نے اپنے متبعین کے سامنے تفوق و برتری کا نصب العین پیش کیا ہے۔ یہ نصب العین متعدد اجزا سے مرکب ہے جن میں خاص اور اہم اجزائے ترکیبی یہ ہیں :الف)سیاسی غلبہ و استیلاء کی طلب۔ ب)دولت و ثروت میں سب سے بڑھ جانے کی خواہش،عام اس سے کہ وہ فتح ممالک کے ذریعہ سے ہو یا تجارت و صنعت پر حاوی ہوجانے کی بدولت۔ موجودہ زمانے میں اگر دیکھنا چاہیں تو امریکہ، چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ ج)عمرانی ترقی یعنی معاشرتی سطح پر ترقی کے مظاہرمیں سب پر سبقت لے جانے کی خواہش،خواہ وہ علوم و فنون کے اعتبار سے ہو یا آثار مدنیت و تہذیب میں شان و شکوہ کے اعتبار سے۔ موجودہ زمانے میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں وہیں ہمارے ملک پر مخصوص نظریات کے حاملین بھی بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔ نصب العین کے یہ چند مظاہر پوری قوم کے کروڑوں افراد کو اپنے شخصی نصب العین میں گم کردیتے اور کیے ہوئے ہیں۔ پھر یہ تفوق و برتری کا نصب العین صرف ایک قوم ہی میں نہیں ہوتا بلکہ ایک ہی زمانہ میں متعدد قومیں اپنے سامنے یہی نصب العین رکھتی ہیں اور وہ سب اس کے حصول کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں شدید سیاسی و معاشی اور تمدنی کشمکش برپا ہوجاتی ہے،مسابقت و مقابلہ اور مزاحمت کے زبردست ہنگامے رونما ہوتے ہیں، اور شورش و اضطراب کے عالم میں افراد کو امن و سکون اور خوشحالی و اطمینان قلب کا میسر آنا محال ہوجاتا ہے۔

عالمی سطح پر دیکھا جائے تودنیا کے وہ ممالک جو فی زمانہ سپر پاور بننے کی خواہش رکھتے ہیں وہیں وطن عزیز میں اس کی مثال ان اقوام اور گروہوں دی جا سکتی ہے جو گرچہ پختہ نظریات پر متحد نہیں ہیں اس کے باوجود وہ آپس میں زبردست مزاحمت سے دوچار ہیں۔ نتیجتاًملکی و عالمی سطح پر مخصوص اقوام اور گروہ سے وابستہ افراد کا مقصد حیات صرف یہ ہے کہ وہ کسی طرح دوسری اقوام و گروہ پر غلبہ حاصل کرلیں۔ اور دولت، حکومت،طاقت،شان و شوکت اور اسباب عیش ونعمت میں سب سے بڑھ جائیں۔ ساتھ ہی دوسروں کے رزق کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں آجائیں۔ اور جتنے وسائل زندگی اور وسائل ثروت ممکن ہوسکتے ہیں ان کا اجارہ اس کی ذات واحد کو حاصل ہو جائے،فوائد و منافع اس کا حصہ ہوں اور خسران و نامرادی دوسروں کا۔ وہ صاحب امروہ ہو ں اور دوسرے ان کے مطیع و دست نگر بن کر رہیں۔ اول تو اس قسم کے لوگوں کی حرص و طمع کسی مرتبہ پر بھی پہنچ کر قانع نہیں ہوتی، اس لیے وہ ہمیشہ غیر مطمئن اور بے چین رہتے ہیں۔ دوسرے اس نوع کا مقابلہ جب ایک قوم کے خود اپنے افراد میں پیدا ہو جاتا ہے تو اس میں ہر گھر اور ہر بازار ایک میدان جنگ بن جاتا ہے اور امن و سکون، اطمینان و سلامتی اور مسرت و خوشحالی ناپید ہو جاتی ہے، خواہ دولت و حکومت اور اسباب نعمت کی کتنی ہی کثرت کیوں نہ ہوجائے۔

  آخر میں یہ بات ایک بار پھر واضح کرتے چلیں کہ نصب العین کا سوال درحقیقت تصور حیات کے سوال سے ایک گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ہم دنیوی زندگی کے متعلق جو تصور رکھتے ہیں، اور دنیا میں اپنی حیثیت اور اپنے لیے دنیا کے حیثیت کا جو نظریہ ہمارے ذہن میں رچا بساہوتا ہے وہی فطری طور پر زندگی کا ایک نصب العین پیدا کردیتا ہے۔ ہم اپنی تمام قوتیں اسی نصب العین کے تحقق کی راہ میں صرف کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً اگر ہم دنیا کو اپنے لیے ایک چرا گاہ تصور کرتے ہیں اور ہمارے ذہن میں زندگی عبارت ہے ایک مہلت سے جو ہم کو کھانے پینے اور لذات دنیا سے متمتع ہونے کے لیے ملی ہے، تو بلاشبہ یہ حیوانی تصور ہمارے نفس میں زندگی کا ایک حیوانی نصب العین راسخ کردے گا اور ہم تمام عمر اپنے لیے حسی لذتوں کے سامان فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

اس کے برخلاف اگر ہم نے اپنے آپ کو پیدائشی مجرم اور فطری گنہگار سمجھا ہے، اور دنیا کے متعلق ہمارا تصور یہ ہے کہ یہ کوئی عقوبت خانہ اور عذاب کا گھر ہے جہاں اپنے اس پیدائشی جرم کی سزا بھگتنے کے لیے ہم پھینک دیئے گئے ہیں، تو قدرتی طور پر یہ تصور ہمارے نفس میں اس عذاب سے رہائی حاصل کرنے کی خواہش پیدا کرے گا۔ اور اس بنیاد پر ہم نجات کو اپنی زندگی کا نصب العین قراردیں گے۔ لیکن اگر دنیا کے متعلق ہمارا تصور چراگاہ اور دارالعذاب دونوں سے برتر ہو، اور انسان ہونے کی حیثیت سے ہم اپنے آپ کو حیوان اور مجرم دونوں سے زیادہ ارفع و اعلیٰ سمجھتے ہوں، تو یقینا ہمارے نفس کو مادی لذات کی طلب اور نجات کے حصول دونوں سے زیادہ بلند نصب العین کی تلاش ہوگی اور کسی پست اور ادنیٰ مطمح نظر پر ہماری نگاہ نہ ٹھیرے گی۔۔(جاری)

تبصرے بند ہیں۔