انور جلال پوری: روشنائی کاسفیر!

راحت علی صدیقی قاسمی

روشنائی کا سفیر، قلم کا خادم مشاعروں کی زینت رخصت ہوگیا، مشاعروں کی فضاء تاریک ہوگئی، اہل اردو کے قلوب میں غم چہروں پر افسردگی کے آثار نمایاں ہیں، مشاعروں پر حکومت کرنے والی شخصیت، ایک عہد تک مشاعروں میں گونجنے  والی آواز اب کانوں میں نہیں پڑیگی، سامعین کے قلوب پر حکومت کرتی وہ دلکش آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی، موت کے سخت ترین حملہ نے اسے بھی خاموش کر دیا، جو بولتا تو رات بھر بولتا رہتا، جس کی آواز سامعین کے قلوب پر دستک دیتی، فضا پر سکوت وجمود طاری کردیتی، لوگ گفتگو میں محو ہوجاتے، زبان سے الفاظ نکلتے تو سامعین کی آنکھیں حیرت و استعجاب سے پھٹی رہ جاتیں، ذہن اُس دلفریب لب و لہجہ کا اسیر ہو جاتا، والد محترم جب انگلی پکڑ کر مشاعرہ لے گئے، تب اس شخص کو دیکھا جو چند ہی دنوں میں مشاعروں کی دنیا کی عظیم  شخصیت بن گیا، بلکہ علم وادب میں بھی قابل قدر سرمایہ چھوڑ گیا- رنگ گندمی، چہرہ چوڑا قدرے دارزی مائل، ناک زیادہ لمبی نہ چپٹی متوسط، چہرے پر کھلتی تھی، پیشانی کشادہ، آنکھیں سرمئی، ہونٹوں کے درمیان سے جھانکتی مسکراہٹ کلی کھلنے کا احساس دلاتی تھی، چہرے کی بشاست ایسی جیسے زندگی بھر کسی غم سے سابقہ ہی نہیں پڑا، قد میانہ جسم فربہ موٹاپے کا شائبہ ہوتا نہ دبلے پن کا احساس، البتہ عمر کے ساتھ فربہی میں اضافہ ہوتا رہا، لیکن موٹاپے کی حد تک نہیں پہنچا، زباں شیریں، لہجہ انتہائی شائستہ و شگفتہ زبان سے الفاظ جماؤ کے ساتھ نکلتے صاف ستھرے خوبصورت جیسے کپڑے پر موتی ٹانک دئے گئے ہوں، تلفظ معیاری، تمہیدی گفتگو انتہائی پرکشش ہوتی، اتحاد و اتفاق، محبت و جمہوریت، انسان اور انسانیت کا وقار، مشاعروں کی عظمت اِس تقریر کے نمایاں موضوعات ہوتے تھے، ان الفاظ نیآپ کے ذہن میں یقیناً ایک عکس ابھار دیا ہے، اسی عکس کے نقش کو انور جلال پوری کہتے ہیں۔

جن لوگوں نے انہیں دیکھا ان کی تقریریں سنیں وہ ان جملوں کی تائید کریں گے، البتہ ان کی تقریر کا جو انداز اور تائثر تھا اسے پورے طور سمجھانے کے لئے دامنِ الفاظ تنگ ہے، جن لوگوں نے سنا ہوگا، وہ یقیناً جانتے ہیں، کئی مرتبہ مشاہدہ ہوا، مشاعرہ کی فضا بگڑ رہی ہے، سامعین ہوش کھو بیٹھے ہیں، قوی احساس ہورہا ہیکہ مشاعرہ منزل مقصود حاصل نہیں کرپائیگا، نظام درہم برہم ہوجائیگا، انتظامیہ کو لاٹھیاں اٹھانے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے، فوراً انور جلال پوری کھڑے ہوئے، اور سامعین کو ساکت و جامد کردیا، زبان سے ہوتا لفظوں کا وار اس ہیجان انگیز کیفیت کو شکست فاش دے دیتا، ایسا لگتا تلاطم خیز دریا آسمان چومتی لہریں پل بھر میں خاموش ہوگء ہوں، انور جلال پوری مشاعروں کے وقار اور اس کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے، شعراء کی فہرست سے زیادہ ان کے نام کو تلاش کیا جاتا تھا، ڈاکٹر ملک زادہ منظور کے بعد انہوں نے بحیثیت ناظم وہ مقام حاصل کیا جو چند ہی لوگوں کے حصہ میں آیا، ایک عمدہ کپتان کی طرح انہیں شاعر کو اسٹیج پر پیش کرنے کا وقت اور انداز بخوبی معلوم تھا، جس شاعر کو مائیک پر پیش کرتے اِس خوبصورت انداز سے پیش کرتے کہ سامعین کے قلوب میں اس کی اہمیت و وقعت اور اس کا مقام واضح ہو جاتا، اس کے لب و لہجہ اور شاعری کو چند جملوں میں بحسن و خوبی متعارف کراتے، موقع کی مناسبت سے اشعار پڑھتے، انہیں بہت سے اشعار یاد ہی نہیں بلکہ ان کا استحضار تھا، موقع کے مطابق اشعار ان کی زبان پر جاری ہوجاتے،  راحت اندوری عام طور پر تفریحاً ایک شعر ان کی نذر کیا کرتے تھے، اور کہتے تھے:

بہت ماہر ہے یہ آدمی جھوٹ کے فن میں

یہ آدمی ضرور سیاست میں جائیگا

انور جلال پوری اس دار فانی سے رخصت ہوگئے، سیاست میں نہیں گئے، وہ تو ادب کے خادم تھے مشاعروں کے ہیرو تھے، اس کے لوازمات سے بخوبی واقف تھے، انسانیت کے پجاری اور انسانوں کے ہمدرد تھے، ان کی گفتگو ان کے اشعار سننے والا ہر شخص بلا تامل یہ کہ سکتا ہے، بلکہ سرعام دعوی کرسکتا ہے، کہ وہ سچے انسان اور اچھے ناظم تھے، ان کی نظامت نے انہیں پوری دنیا میں عزت و شہرت عطا کی بلند مقام دیا، چاہنے والے محبت کرنے والے افراد عطاکئے، وہیں ان کی بہت سی خوبیوں کو نگاہوں سے اوجھل بھی رکھا، چونکہ جب سورج چمکتا ہے تو ارد گرد کے سیارے اوجھل ہوجاتے ہیں، اپنی خدمت وجود اور طاقت کے باوجود نظر نہیں آتے یہی صورت حال انور جلال پوری کی بھی ہے،وہ ایک اچھے شاعر معیاری انشاء پرداز، تاثراتی نقاد، ترجمہ نگار، نعت گو، سیرت نگار تھے، انہوں نے میدان شاعری میں وقیع کارنامے انجام دئے، جو ان کے وجود کا احساس کراتے رہیں گے، ان کی شاعری کی خوبی  آسان الفاظ اور سہل ترکیب سے بڑے معنی پیدا کرنا ہے، ان کی شاعری میںبھاری بھرکم الفاظ کی قلت اور اور بلند تخیل کی کثرت ہے جو انہیں عمدہ شاعر اور اعلی تخلیق کار بناتی ہے، انور جلال پوری کی شاعری ہمہ جہت ہے، جس میں سماج کے پسماندہ طبقات کا درد انکی تکلیف و کڑھن، مسلمانوں کی شان و شوکت،عظمت رفتہ، محنت کشوں کی عظمت، تغزل، عورت کی قدر و منزلت، اور سماج کے چہرے کے بدنما داغ عیاں ہوتے ہیں، لیکن وہ انتہاء خوبصورتی اور چابکدستی سے کہتے ہیں  تعصب و عناد ان کی شاعری کے قریب سے ہو کر بھی نہیں گذرتا، محبت کا پیغام دیتے ہیں، مسائل بیان ہی نہیں کرتے ان کا حل تلاش کرنے کی جرئت بھی کرتے ہیں، غریب و مفلس حالات سے مقابلہ آرا شخص کی کیفیت کو واضح کرتا ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے، اور ان کی خوبصورت شاعری کا اعتراف کیجئے:

مسلسل دھوپ میں چلنا چراغوں کی طرح جلنا

یہ ہنگامے تو مجھ کو وقت سے سے پہلے تھکا دیں گے

حقیقت بیاں کرتا ہوا یہ شعر ان کے لب و لہجہ کی عکاسی کرتا ہے، عمدہ اخلاق کی تعلیم، اور محبت سے کائنات کو فتح کرنے ہنر بھی ان کی شاعری عطا کرتی ہے، وہ انسان کی مشکلات پر پھبتیاں نہیں کستے  بلکہ اس میں سکون و راحت کا پہلو بھی تلاش کرتے ہیں، نفرت جنگ تعصب ان کی نظر میں معاشرے کے شدید ترین مسائل ہیں، اور ان سب کا علاج محبت ہے، مشاعروں کی رنگا رنگ دنیا میں نفرت بیچ کر محبت نہیں کماتے، پیار کا پیام دیتے ہیں، ملاحظہ کیجئے:

تم پیار کی سوغات لئے گھر سے تو نکلو

رستے میں تمہیں کوئی بھی دشمن نہ ملے گا

اور اسی طرح یہ بھی دیکھئے:

میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں سدا اخلاق کا پارس

اسی پتھر سے مٹی کو چھوکر سونا بناتا ہوں

انور جلال کی شاعری میں ہمارے معاشرے کا درد بھی ہے، اس کا درماں بھی، غریب کی تکالیف مشکلات و مسائل ہیں، تو اس کے لئے حوصلہ بخش خیال بھی، وہ آنسو بہانے کے قائل نہیں ہیں، ان کی شاعری نالہ و شیون نہیں ہے بلکہ زندگی کے کئی رخوں کی خوبصورت تصویر ہے، جس کا ایک رخ کچھ اس انداز سے شعری پیکر میں ڈھلتا ہے:

سوتے ہیں بہت چین سے وہ جن کے گھروں میں

مٹی کے سوا کوئی بھی برتن نہ ملے گا

انور جلال پوری کی شاعری میں انجماد نہیں ہے، ترقی ہے رفعت و بلندی ہے، حقائق بیان کرنے کی جراتہے، قصہ گوئی نہیں صداقت ہے، خو اس کا اعتراف کرتے ہیں، اسکے علاوہ انکی شاعری کا نمایاں پہلو اسلامیات سے وابستگی ہے، رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی نعت لکھنا، اور چند نعتیں نہیں بلکہ کئی مجموعے شائع ہونا کسی بھی شاعر کے قد کو بلند کردیتا ہے، انور جلال پوری کے تین نعتیہ مجموعہ شائع ہو کے ہیں، ضرب لاالہ، بعد از خدا، حروف ابجد، جمال محمد کے نام سیرۃالنبی، انور جلال کا یہ وہ عظیم کارنامہ ہے جو ان کی قدر و منزلت کو دوبالا کرتا ہے، اور ان کے عشق نبی کا مظہر ہے، آپ صل اللہ علیہ السلم سے محبت کی دلیل ہے، اور یہ سفر یہی پر ختم نہیں ہوتا، بلکہ انور جلال پوری نے خلفائے راشدین کی منظوم سیرت رہ رو رہنما تک لکھی ہے، جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا علم ہوتا ہے، اس کتاب میں مکمل طور پر خلفائے راشدین کی سیرت بیان نہیں کی گئی، لیکن جتنے بند لکھے گئے، وہ انتہائی معیاری قسم کی ہیں، جو موصوف کی فنی صلاحیتوں اور کہنہ مشاقی آپ صل اللہ علیہ السلم کے اصحاب سے محبت کا مظہر ہیں، ہجرت کے موقع کو بیان کرتے اشعار خوب ہیں، حضرت علی کی خلافت فتح و کامرانی کے سفر کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے، اس طرح شہادت عثمان کو جس طرح منظوم کیا گیا، وہ آبدیدہ کردیتا ہے، اور شاعر کی منظر نگاری کی جو

 صلاحیتیں ہیں ان کا قائل کردیتا ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہ کی بہادری کو انتہائی عمدہ پیراییمیں بیان کیا گیا ہے، غزوہ بدر میں آپ کی شجاعت و بہادری کی خوبصورت تصویر کھینچی گئی ہے، یہ کتاب انور جلال کی شاعری اور فن کو رفعت و بلندی کے ان منازل پر لے گء جو ہر شخص کے حصہ میں نہیں ہوتی، انہوں نے بنگالی ادب کے مشہور شاعر نوبل انعام یافتہ ربیندر ناتھ ٹیگور کی کتاب گیتانجلی کا منظوم ترجمہ کیا، شریمد بھگوت گیتا کا منظوم اردو ترجمہ جو انتہائی مشکل کام ہے، اس طرح کے خیالات ہر شخص کے حصہ میں نہیں آتے، اس کوشش سے جہاں انہوں نے نفرت کی دیواروں کو پاٹنے کی کوشش کی ہے، وہی زبانوں  سے وابستہ عصبیت کو کم کرنے کوشش کی ہے، اور اردو والوں کے لئے غیر اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ پیش کیا ہے، جس سے وہ استفادہ کرسکتے ہیں، اور سنسکرت و بنگالی ادب کی قدر و منزلت کے معترف ہوسکتے ہیں، انور جلال پوری شاعری تک محدود نہیں تھے، بلکہ انہوں نثر میں روشنائی کے سفیر نامی تخلیق چھوڑی ہے، اس کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی اپنے علاقہ کی فضا ماحول ادبی حالت کے علاوہ غالب ابوالکلام اور دیگر شخصیات پر اظہار خیال کیا جسے وہ تاثراتی تنقید کے زمرے رکھتے ہیں، انور جلال پوری کی اس خوبصورت کاوش میں بہت سے ان افراد کے تذکرے موجود ہیں، جن کو انہوں نے قریب سے دیکھا ان کی شاعری سنی پرکھی، اور اس کتاب میں خوبصورتی سے بیان کردیا، نثر خوبصورت ودلکش ہے موزوں تنقیدی زبان قطعی استعمال نہیں کی ہے، کہیں خاکہ کا احساس ہوتا ہے اور کہیں انشائیہ کا لیکن قاری لطف اندوز بھی ہوتا ہے، اور شخصیت سے واقف بھی دلیل کے طور پر چند سطریں پیش خدمت ہیں، ڈاکٹر ملک زادہ منظور کے تعارف میں لکھتے ہیں’’مشاعروں سے ڈاکٹر صاحب کا تعلق وہی ہے جو تاج محل سے شاہ جہاں کا۔ جس طرح یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ تاج محل زیادہ خوبصورت ہے یا شاہ جہاں کے ذہن کی تخئیل،اسی طرح یہ بھی فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آزادی کے بعد ہمارے ملک میں مشاعرے زیادہ مقبول ہوئے یا ملک زادہ منظور احمد کا انداز تعارف‘‘ان جملوں سے میرے دعوے کی تائید ہوتی ہے، انور جلال پوری کی تخلیقی قوتوں اور خوبصورت نثر نگاری کا بھی اندازہ ہوتا ہے، ان خوبیوں کی حامل شخصیت ہمارے درمیان سے رخصت ہوء یقیناً باعث تکلیف ہے، لیکن انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے ساتھ بھرپور انصاف کیا، اور انتہائی مشغولیت کے باوجود گراں قدر سرمایہ چھوڑا جو ان کو ہمیشہ اہل ادب کے درمیان زندہ رکھیگا، ان کی چودہ مطبوعات موجود ہیں، یش بھارتی ایوارڈ سے نوازے گئے، مدرسہ بورڈواردواکیڈمی کے چیئرمین رہے، ایک عظیم فن کار دنیا سے رخصت ہوا، انہیں کے ایک شعر پر اپنی بات مکمل کرتا ہوں:

پرایا کون ہے اور کون اپنا سب بھلادیں گے

متاعِ زندگانی ایک دم ہم بھی لٹادیں گے

تبصرے بند ہیں۔