انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کا الیکشن: منظر و پس منظر

ڈاکٹر جسیم محمد

(لائف ممبر انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر)

انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر ملک کا ایک ایسا ادارہ ہے جس کی اپنی ایک مستحکم شناخت ہے، یہ استحکام اور یہ شناخت اس ادارہ نے یوں ہی نہیں حاصل کر لی ہے اس کے پس پشت ہمارے بڑوں کی قربانیاں ہیں جنہوں نے اس ادارے کو با معنی بنانے کے لئے انتھک جد و جہد کی۔ لیکن آج یہ ادارہ اپنی راہ سے بھٹک چکا ہے، جن مقاصد کے حصول کے لیے ادارے کا قیام عمل میں آیا تھا اب ان کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اگر وقت رہتے اس جانب توجہ نہیں دی گئی تو اس کے بڑے دور رس نتائج بر آمد ہوں گے۔ ادارے کے ممبرا ن کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ نئے ممبرا ن کے انتخاب میں غر جانبداری سے کام لیں اور اس بات کو مد نظر رکھیں کہ کون ملک و قوم کے لئے بہتر کام کر سکتا ہے۔ آج کل انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر نئی دہلی کے ٹرسٹی ممبران اور دیگر اعلی عہدوں کے لئے انتخاب کی گہما گہمی چل رہے ہے تو آیئے ایک نظر اس با وقار ادارے کی تاریخ اور اس کی کارکردگی اور فرائض منصبی پر نظر ڈالتے ہیں۔

  ہندوستان مسلمانوں کی آبادی کے حساب سے دنیا میں دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اس لئے ہندوستان میں بھی 14ویں ہجری کے مکمل ہونے پرحکومتِ ہند نے بڑے پیمانہ پر تقریب کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ حکومتِ ہند نے اس تقریب کے انعقاد کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی جس کا صدر جسٹس ایم ہدایت اللہ کو مقرر کیاگیا۔ اس وقت کی وزیرِ اعظم محترمہ اندرا گاندھی نے 03؍نومبر 1980 کو14ویں ہجری کے مکمل ہونے پر ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔ اسی تعلق سے دیگر متعدد پروگرام بھی کل ہند سطح پر منعقد کئے گئے جن میں ’’ہندوستان کے تناظر میں دنیا میں اسلامی خدمات‘‘ موضوع پر ایک عالمی سطح کی کانفرنس اور بین الاقوامی قرأت مقابلہ اہم ہیں۔

مذکورہ تقریب کے انعقاد کے وقت کئی باوقار ہستیوں نے نئی دہلی میں ایک ا سلامک سینٹر کے قیام کی ضرورت پر زور دیا۔ اس تعلق سے کئی اہم افراد کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چند سابق طلبأ نے مثبت تعاون پیش کیا۔

اپریل1981میں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کو ایک سوسائٹی کی حیثیت سے رجسٹرڈ کرایا گیا جس پر دستخط کرنے والوں میں حکیم عبدالحمید صاحب بھی شامل تھے جنہیں سینٹر کا اولین صدر مقرر کیا گیا۔ اسی طرح بدر الدین طیب جی آئی سی ایس کو ڈائرکٹر، سید ایس شفیع کو جوائنٹ ڈائرکٹر، چودھری محمد عارف کو سکریٹری اور ایم ڈبلیو کے یوسف زئی کو خازن مقرر کیاگیا۔ بیگم عابدہ احمد کو سینٹر کا رکن مقرر کیاگیا۔

اس سینٹر کا ایک اہم مقصد مذہب ا سلام کو اس کی اصل شکل میں پیش کرنا اور ہندوستانی تہذیب میں اس کی مثبت حصہ داری کو پیش کرنا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ آئی آئی سی سی ترقی و کامرانی کی نئی منازل طے کرتا گیا۔ موجودہ انتظامیہ کے زیرِ اثر آئی آئی سی سی نے مزید ترقی کی اور محروم و معاشی طور پر پسماندہ طبقات کے طلبأ کے لئے مثبت پروگرام شروع کئے۔ مسٹر سراج الدین قریشی کے دور میں انڈیا اسلامک کلچر سینٹر نے نہ صرف قابلِ ذکر ترقی کی بلکہ ہندوستانی مسلم سماج کے مختلف طبقات کے لئے فلاحی کام بھی شروع کئے گئے۔ اس کے علاوہ آئی آئی سی سی کے ذریعہ ووکیشنل کالجوں کے قیام کا فیصلہ بھی ہندوستانی مسلمانوں کو معاشی و تعلیمی طور پر مضبوط کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔

فی الوقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکز ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے تحفظ اور اسے عوام کے درمیان صحیح شکل میں پیش کرنے کی سمت میں کام کرے۔ دورِ حاضر میں میڈیا کا کافی اہم رول ہے اور اگر مرکز اپنی سرگرمیوں اور ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل پر منحصر ایک میگزین شائع کرے تو یہ نہ صرف مرکز کے لئے ایک مثبت اقدام ہوگا بلکہ پالیسی سازوں کو بھی ایک سمت عطا ہوگی۔ فی الوقت سینٹر کی کینٹین کی صورتِ حال شفاف اور مناسب نہیں کہی جاسکتی اور اس کے معیار میں اضافہ کی سخت ضرورت ہے۔ سینٹر کے اراکین کی میٹنگ سال میں دو بار طلب کی جانی چاہئے تاکہ مسائل پر باریک بینی سے گفت و شنید کے بعد مستقبل کے لئے پروگرام وضع کئے جا سکیں۔

اسی طرح آئی آئی سی سی کسی بھی میدان میں بہترین مظاہرہ کرنے والوں یا اپنا مثبت تعاون پیش کرنے والوں کو اعزازات سے بھی سرفراز کر سکتاہے جو نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کرے گا بلکہ خود سینٹر کو بھی ہندوستان کی اصل دھارا میں ایک ثقافتی اور عقلی بنیاد فراہم کرے گا۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سینٹر مسلم نوجوانوں کو اسلام اورا سلامی تاریخ و ثقافت کے تئیں بیدار کرے۔

آئی آئی سی سی کو چاہئے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے تعلیمی اور ثقافتی فروغ کے لئے کام کرے۔ سینٹر سے بڑی تعداد میں تاجر اور صنعت کار وابستہ ہیں اس لئے ضروری ہے کہ سینٹر ایک ’’بزنس چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ‘‘کی بھی تشکیل کرے تاکہ مسلم تاجرین اور صنعت کاروں کے مسائل کو مزید پر زور انداز میں بلند کیا جا سکے۔ سینٹر کے آمد و خرچ کا باقاعدہ آڈٹ ہونا چاہئے تاکہ کوئی بھی رکن کسی قسم کے شکوک و شبہات کا شکار نہ ہو سکے۔ سینٹر کے ہاسٹلوں کی صورتِ حال بھی ابتر ہے جس کی اصلاح از حد ضروری ہے۔ سینٹر میں متعدد اہم اور باوقار اراکین اور مہمان آتے ہیں جن کے ساتھ شوفر اور گنر ہوتے ہیں جن کے قیام کے لئے سینٹر میں کسی قسم کا کوئی نظم نہیں ہے۔ اس لئے ڈور میٹریز کی تعمیر عمل میں لائی جائے تاکہ وہ بھی بہتر طور پر قیام کر سکیں۔ یہ اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ایک بہترین انسانی عمل ہوگا۔

اپنے قیام سے اب تک آئی آئی سی سی نے ایک طویل سفر طے کیا ہے لیکن ابھی اسے مزید آگے جانا ہے۔ اب وقت آگیا ہے جب سینٹر کی انتظامیہ، اس کے باوقار اراکین اور وہ تمام حضرات جو کسی نہ کسی طرح سینٹر سے وابستہ ہیں اس بات پر غور کریں کہ کس طرح سینٹر کو مزید ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے، مستقبل میں مورخین یا تو یہ لکھیں گے کہ آئی آئی سی سی نے ہندوستانی ثقافت کے فروغ میں مثبت تعاون پیش کیا یا اس کے برعکس لکھیں گے، مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اس وقت آئی آئی سی سی ہمارے پاس آنے والی نسلوں کی امانت ہے اور مورخین کیا لکھیں گے یہ ہمارے عمل پر منحصر ہے لہٰذا اب ہم سب ہی کو اس کی زود اثر ترقی و کامرانی کے تعلق سے سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔

ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ہندوستانی مسلم معاشرے کے نوجوانوں خصوصی طور پر سینٹر کے نوجوان اراکین کو آگے بڑھانے کی سمت میں پیش رفت کی جائے، یہ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ خود سینٹر کو بھی اور زیادہ زود اثر بنانے کی سمت میں ایک کارگر اقدام ہے۔ نوجوان اراکین کو ہر میدان میں آگے بڑھنے کا موقعہ حاصل ہونا چاہئے تاکہ وہ مزید بہتر طور پر سماج اور سینٹر کے تئیں اپنے فرائض کو انجام دے سکیں۔

مندرجہ بالا مقاصد اس وقت تک حاصل نہیں کئے جا سکتے ہیں جب تک کہ غیرجانبداری کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ اب حالات بدل گئے ہیں، انتخابات کے طریقے بدل گئے ہیں، پہلے گروہی بنیاد پر الیکشن نہیں ہوا کرتے تھے مگر اب پہلے سے ہی گروپ بننے لگے ہیں، اس کے باوجود ابھی غنیمت ہے کیونکہ اچھی بات یہ ہے کہ یہاں کسی سیاسی پارٹی کے بینر سے کوئی الیکشن نہیں لڑ رہا ہے، اس الیکشن کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے، اس ادارے کے ممبران کی بصیرت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اتنے اہم ادارے کو کبھی سیاست  سے آلودہ نہیں ہونے دیا بلکہ کوشش اس بات کی کی گئی ملک و قوم کے مفاد کا یہ مرکز بنے۔ اسی طرح جو افراد مختلف عہدوں کے لئے الیکشن لڑ رہے ہیں وہ بھی سماج کے نہایت اہم لوگ ہیں، ممبران و عہدے داران سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس ادارے کے وقار کا خیال رکھتے ہوئے نیے ممبران  اور عہدے داران کا نہ صرف انتخاب کریں گے بلکہ آئند ہ کا ایسا لائحہ عمل طے کریں گے جو ملک کی صلاح و فلاح کا ضامن ہوگا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔