اوئے کتے کے خطاب کا جواب مولانا آزاد کی زبانی

محمد عطاء الرحمن اٹکی

جیو کی بدتہذیبی  پر یاد آیا۔ ایک دفعہ مولنا آزاد کے نام ایک خط آیا۔ خط کیا تھا گالیوں دھمکیوں طنز آمیز خطابات کا مجموعہ تھا۔ مولنا آزاد جیسے لیڈر کو جابجا اوئے کتے، قل اعوذیہ، قرآن خوان ملا، فرعون زماں، نمرود زماں جیسے القابات سے نوازا گیا، رائج الوقت کوئی گالی ایسی نہ تھی جو اس خط میں موجود نہ ہو مولنا آزاد نے اس کا جو جواب لکھا، اس کا ایک چھوٹا سا اقتباس یہاں نقل کیا جاتاہے۔

"سلسلہ سخن میں کئی بار ارشاد ہواکہ "تم کتے ہو”معاف کیجئے گا یہ تو میرے لیے کوئی سرزنش نہ ہوئی کیونکہ سوچتا ہوں تو کتے کو اپنےنفس کی سطح سے بدرجہا ارفع واعلی پاتا ہوں ۔  آہ! آپ کو کیا معلوم! آج جو بڑی سےبڑی تڑپ میرے اندر ہے، وہ یہی ہے کاش اس وفا سرشت جانور کے اوصاف وخصائل کا ادنی حصہ بھی میرے نفس کو مل جاتا!  کتا سوکھی روٹی کا ایک ٹکڑا کھا کر اپنے ظالم آقا کے ہاتھ ہمیشہ کیلئے بک جاتا ہے، مگر ایک رحیم وکریم ولی نعمت ہے۔ جسکی بخشی ہوئی نعمت میرے جسم کے ایک ایک ریشے میں موجود ہے مگر میں ہمیشہ اس کے دروازے سے بھاگتا رہا، اور کبھی اس کے آگے وفاداری کا سر نہیں جھکایا۔  کاش آپ کا فرمان میرے لیےفال نیک ثابت ہو۔ "

جیو ٹی وی کی یہ حرکت  موجودہ تعلیم وتربیت اور عصر حاضر کی جاہلی تہذیب کی ہلکی سے جھلک تھی، اور مذھبی طبقے کے خلاف تعصب کی چھوٹی سی رمق تھی جس کا اظہار کیا گیا، جیو کےاس فعل سے نہ صرف جمیعت کے کارکنان کی دل آزاری ہوئی بلکہ مولنا آزاد کو اپنا نمائندہ سمجھنے والے علماء وطلباء کے ایک بڑے طبقے کے جذبات مجروح ہوئے، اور ہر سلیم الفطرت شخص نے اس بدتہذیبی کی مذمت کی ہے

لاکھوں افراد کے نمائندےاور ملک کی ایک بڑی جماعت کے لیڈر کو یوں سر عام تضحیک کا نشانہ بنانا ایک ایسافعل ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اور اس پر احتجاج جمیعت کے کارکنوں کا جمہوری حق ہے۔

اس افسوسناک واقعے کے بعد جہاں جمیعت کے کارکنوں کی اکثریت تہذیب وشائستگی سے سوشل میڈیا پر بہت مثبت انداز میں احتجاج کرتی نظر آئی۔

وہاں کچھ جذباتی کارکنان نے کراسنگ فائرنگ کرتے ہوئے، گالیوں پر مبنی پوسٹس بھی لگائی ہیں ، ایسے کارکنان کو جاننا چاھیے کہ ان کے رہنما مولنا فضل الرحمن تہذیب شائستگی، عمدہ اخلاق، دلیل کاروشن استعارہ ہے، مولنا نے ہمیشہ سخت سے سخت زبانی حملے کا جواب ایک دل لبھا مسکراہٹ سے دیا ہے، حقیقی کارکن وہ ہوتا ہے جس میں لیڈر کےاخلاق کی جھلک نظر آتی ہو، وگرنہ محض رکنیت فارم بھرنے سے کوئی کارکن نہیں بنتا ہے۔ جو لوگ گالی کا جواب گالی سے اور بدتہذیبی کا جواب بدتہذیبی سے دینے کے فلسفے پر یقین رکھتے ہوں، انہیں جمیعت چھوڑ کر کسی بدتہذیب اخلاقیات سے عاری جماعت میں شامل ہوجانا چاہیے۔

 اور رہی بات جیو کی بدتہذیبی کی اس میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، نہ ہی یہ کوئی نئی اور انوکھی بات ہے، ہر دور میں باطل نے اپنی آنکھ میں کھٹکھنے والے اہل حق کی کرادر کشی کی ہے۔ وہ ہمیں اقتدار کے ایوانوں سے دور حجروں میں بند دیکھنا چاہتے ہیں۔ اقتدار میں ہماری موجودگی ہمارے حریف کی آنکھ  میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔ ان چیزوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا ہمارے لیے نقصان دہ ہوگا اور دشمن ہمیں الجھانے، انتشار کا شکار کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے بجائےہمیں اپنے مشن کے سمجھنے پر، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کو پھیلانے پر پہلےسے زیادہ توجہ مرکوزکرنا ہوگی، یہی اپنے حریف سے بہترین انتقام۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔