اور آپ کی دستار بندی کیسے ہوئی؟

حامد محمود راجا

 قراٰن کریم حفظ کرنے کی ترتیب اوقات اور مقامات کے لحاظ سے مختلف رہی ہے۔ عہد صحابہ میں جیسے ہی کوئی سورت نازل ہوتی تو کلام الہی کے عشاق اسے فوراً ازبر کر لیتے۔ اس کے بعد ترجیحات کا تعین مختلف طریقوں سے ہوتا رہا۔ بعض مدارس میں آخر کی طرف سے شروع ہو کر اول کی طرف جایا جاتا ہے، جب کہ کچھ جگہوں پر آخری پانچ پارے حفظ کرنے کے بعدالم سے شروع کردیا جاتا ہے۔ رائے ونڈ تبلیغی مرکز میں والناس سے شروع ہو کرالم کی طرف سفر کیا جاتا لیکن چھٹا پارہ ختم ہونے کے بعد پانچواں پارہ شروع کرنے کی بجائے پہلا پارہ شروع کردیا جاتا اور پھر پانچویں پارے کے آخری کی طرف قراٰن کریم حفظ کیا جاتا۔ یوں پانچویں پارے کا آخری رکوع جسے ہم ’ان لمنافقین‘ سے موسوم کرتے، ہمارا آخری سبق ہوتا۔

  آخری سبق کے وقت کا تعین پہلے سے ہی کر لیا جاتا اور اُس وقت تمام طلبہ جمع ہو جاتے، جیسے ہی کوئی ساتھی طالب علم آخری سبق کی تلاوت شروع کرتا تو تمام طلبہ کی سانسیں تھم جاتیں اور وہ خاموشی سے آخر ی سبق سننے لگے۔ شاکرا ًعلمیاً کے لفظ ادا ہوتے ہی استاذ جی سر پر ہاتھ پھیر کر شاباش دیتے اور اجتماعی دعا کے بعد یہ مرحلہ اختتام پذیر ہو جاتا۔ حفظ قران کی تکمیل کے بعد کام یاب طالب علم کی جانب سے باقی طلبہ کی دعوت بھی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ دعوت میں عموما ً گوشت پکایا جاتا جو ساتھی طلبہ مل کر خود ہی تیار کرتے تھے۔ بکرے کے گوشت کی دعوت کرنے والے طلبہ کو زیادہ پیسے والا سمجھا جاتا۔

  22رجب کی تاریخ، سن یاد نہیں، بارہ سال کی عمر میں، میں نے سفید کپڑے پہنے ایک زانو پر بیٹھ کر حافظ سلیمان میواتی رحمة اللہ علیہ کے سامنے ’ان المنافقین‘ والارکوع شروع کیا۔ طلبہ خاموش ہوئے تو میرے اعصاب پر دباﺅ مزید بڑھ گیا۔ لاکھ یاد کرنے کے باوجود مجھ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ میں آخری سبق کے دوران ایک جگہ اٹک گیا۔ میں نے آیت کو دہرا کر اپنی غلطی درست کی اور پھر آخر کی طرف بڑھنے لگا۔ جیسے ہی ’شاکراً علمیاً‘ پڑھا، استاذ جی نے میرا سر چوم کر دعا دی اور ایک رومال علامتی دستار بندی کے طور پر میرے سر پر باندھ دیا۔

 اگر آپ مدرسے میں پڑھے ہوئے ہیں تو یہاں تک پہنچنے کے بعد آپ لازما ً اپنی دستار بندی کو یاد کررہے ہوں گے۔ مدرسے میں پڑھنا بھی ضروری نہیں، کالج یونیورسٹی کے طلبہ بھی اپنی کلاس کے اُن آخری مناظر کو یاد کرسکتے ہیں جن میں سر پر رکھی ہوئی ٹوپیاں اور نوٹ بکس ہوا میں اچھال دی جاتی ہیں ۔ کانوکیشن میں سر پر ٹوپی رکھنے کی یہ روایت بھی مسلمانوں نے باقی دنیا کو دی۔ کلاہ و دستار اسلامی تہذیب میں علم و فضل کا استعارہ سمجھے جاتے ہیں، اسی وجہ سے مسلم تعلیمی تاریخ میں یہ شان دار روایت اب تک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ چلی آرہی ہے۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی یہی روایت باقی دنیا نے بھی اپنائی۔ لیکن ان مناظرکواپنے ذہن میں دہرانے سے پہلے ایک اور دستار بندی کے انٹرنیٹ دید مناظر ملاحظہ ہوں۔ دس سے بارہ سال کے طالب علم پلاسٹک کی کرسیوں پر ایک قطار میں بیٹھ کر جھوم رہے ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے باغیچے میں گلاب کے پھولوں کی روش ہلکی ہوا کی وجہ سے دائیں بائیں اور آگے پیچھے جھومتی ہے۔ طلبہ کی قطار کے سامنے اُن کے والدین اور دیگر صاحبانِ ذوق نیچے زمین پر براجمان ہیں۔ پس منظر میں ایک ساﺅنڈ سسٹم پر پشتو زبان میں کوئی نظم پڑی جارہی ہے جو غیر پختون لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی۔ باری باری ہرایک طالب علم کو نام بنام پکارا جارہاہے۔ انہی طلبہ میں سے ایک طالب علم جس کا مجھے اب تک نام بھی معلوم نہیں ، کے سرپر سفید پگڑی اور گلے میں سرخ گلاب کے پھولوں کی مالا ہے۔ چہرہ ایسا شفاف کہ تل برابر بھی کوئی داغ نہیں۔

حقیقت میں چہر ہ سامنے ہوتا تو یقینا ً جلد کے نیچے گردش کرنے والا پاکیزہ خون بھی نظر آجاتا۔ یوں جیسے یخ بستہ سردی میں کسی جھرنے کا رواں دواں پانی آئینہ نما برف کے نیچے سے بہتا ہوانظر آتا ہے۔ تصویری منظر کے مطابق ریشم کی طرح ملائم ایک بڑی سفید ململ کی دستار نے سر اور ماتھے کو مکمل طور پر ڈھانپ رکھا ہے۔ دائیں آنکھ کی ابرو بالکل واضح ہے جب کہ بائیں آنکھ کی ابرو آدھی کھلی اور آدھی ڈھکی ہوئی، پلکیں البتہ دونوں نمایاں ہیں۔ بائیں آنکھ کے بیرونی کنارے کو چھو کر پگڑی کا پلو(شملہ) گال کی طرف لٹکا ہوا۔ ریشمی پگڑی اور ریشمی گال کا ایسا حسین بندھن چشم تماشا نے شاید ہی کبھی دیکھا ہوگا۔ پگڑی پر کہیں کہیں پھولوں کی پتیوں کے رنگ برنگے ٹکڑے جھلملا رہے ہیں۔ ہرنی جیسی مسکر اتی آنکھیں غضب ڈھا رہی ہیں ، آنکھ کی پتلیوں کے بیچوں بیچ روشنی چمک رہی ہے۔ ہونٹوں پر بھی مسکان کا ایک دلفریب منظر ہے۔ گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ مسکرائے تو گالوں پر دونوں طرف عمودی خط اور ہلکے ہلکے گڑھے (Dimple)نمایاں ہو گئے۔ مخروطی شکل میں تراشی ہوئی ٹھوڑی صراحی دار گردن پر حسن کا منفرد شاہکار نظر آرہی ہے۔

 لیکن پھر بین الاقوامی قاتل امریکا کوا ن گلاب چہروں میں دہشت کے آثار نظر آنے لگے۔ حالانکہ یہ چہرے دہشت اور وحشت زدہ تو کیا معمولی کرخت بھی نظر نہیں آرہے۔ طیاروں نے اڑان بھری اور پل بھر میں اس طرح کے سو سے زاید گلاب چہرے بارود میں جھلس گئے۔ جس پھول سے چہرے کا ہاتھ سے میلا ہونے کا ڈر تھا وہ اب خاک و خون میں لت پت تھا۔ سفید کپڑوں پر سرخ رنگ کاخون اب گلاب کی سرخی میں مزید اضافہ کررہا تھا،شاید گلاب کی سرخی کم پڑ گئی تھی جو خون کی ضرورت پڑی۔ قراٰن پڑھنے والی زبانیں خاموش کردی گئیں اورجبہ و دستار والے سر اب قربان ہو چکے تھے۔تکمیل قراٰن کی خوشی میں منعقد کی گئی تقریب مقتل میں بدل چکی تھی۔گھر کے دروازے پر کھڑی حافظ قراٰن طالب علم کی چھوٹی بہن اپنے بھائی کے انتظار میں پھول پکڑے خون جیسے نیر بہا رہی ہے۔ اب آپ اپنی دستار بندی کے مناظر کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں کہ کون سی دستار بندی سب سے بہتر تھی: میری، آپ کی یا قندوز کے مدرسے میں پڑھنے والے ان بچوں کی؟

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    کیا ہم ایک قوم ہیں؟
    کیا ہم خود کو مسلمان کہلانے کے مستحق ہیں؟
    کیا ہمارے دلوں میں اب بھی ایمان تازہ ہے؟
    کیا اب بھی ہماری رگوں میں بہنے والا خون سفید نہیں ہوا؟
    اگر اس سب باتوں کا جواب ہاں ہے تو پھر کیوں ہم پے یہ ظلم جاری ہے ہم کیوں اس کے خلاف آواز بلند نہیں کرتے؟ ویلنٹائن ڈے ہو یااپریل فول ڈے ہو، مدرز ڈے ہو فادرز ڈے ہو ،یہ سب غیر اسلامی تہوار تو ہم خوب مناتے ہیں آخر ہم مسلمانوں کی معصوم لاشوں کو دیکھ کر خاموش کیوں ہو جاتے ہیں؟
    خُدارا آواز بلند کرو اس سے پہلے کہ تمھاری آواز دبا دی جائے وہ بھی منوں مٹی تلے.

تبصرے بند ہیں۔