اور بھی غم ہیں زمانے میں مدرسوں کے سوا

حفیظ نعمانی

ہم نے مدرسو ںکے بارے میں وہ سب لکھ دیا تھا جس کی ضرورت تھی اب وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی لکھنؤ آئے ہوئے تھے۔ اس موقع پر دوسری ریاستوں سے بھی اقلیتی امور کے وزیر آئے اور شرکت کی اترپردیش کے وزیر اعلیٰ نے مدارس کی جدیدکاری کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ اور اطمینان دلایا کہ مدارس اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بددلی کی وجہ تلاش کرے کہ گذشتہ سال تین لاکھ 71 ہزار فارم امتحان کے بھرے گئے تھے اور اس سال آخری تاریخ 20  جنوری تک صرف ایک لاکھ 25  ہزار فارم آنے کی وجہ سے آخری تاریخ بڑھاکر 10  فروری کردی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اگر انگریزی، حساب، ہندی اور کمپیوٹر ہی پڑھنا ہے تو مدرسہ بورڈ کے مدرسہ میں کیوں پڑھیں اور اپنے شہر یا علاقہ کے اسکول کالج میں پڑھ لیں گے؟

بہرحال یہ حکومت اور مدرسوں کا معاملہ ہے۔ جس پر سابق وزیر ڈاکٹر عمار رضوی نے شکریہ  کا خط لکھا ہے۔ لیکن ایک مسئلہ وہ بھی ہے جس سے ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان جڑے ہوئے ہیں اور حکومت نے ان کی طرف سے آنکھیں بند کرلی ہیں۔ قاعدہ کی بات تو یہ تھی کہ حکومت بننے کے بعد جس غلط چیز کو سب سے پہلے ختم کیا تھا اسے صحیح بناکر سب سے پہلے پورا کردیا ہوتا لیکن حکومت ہر مسئلہ میں بات کررہی ہے لیکن ایک سال ہونے والا ہے مگر نہ سلاٹر ہائوس خود بنائے نہ میونسپل بورڈ اور میونسپلٹی کو بنانے دیئے اور نہ قریشی برادری سے کہا کہ شہر سے باہر حکومت کے معیار کے بنالو۔

اس درمیان نہ جانے کس کس ضلع سے ہائی کورٹ میں رِٹ دائر کی گئی اور ہر بار عدالت عالیہ نے حکومت سے کہا کہ ان لاکھوں بے روزگاروں کا روزگار حکومت نے چھین تو لیا اب دیتی کیوں نہیں؟ ہم نہیں کہہ سکتے کہ حکومت نے کیا جواب دیا لیکن عمل یہ ہے کہ جنہیں سب سے پہلے بے روزگار کیا تھا انہیں آج تک روزگار نہیں دیا اور اب جبکہ ہائی کورٹ نے جواب طلب کیا ہے کہ جو سلاٹر ہائوس آزادی سے پہلے سے کام کررہے تھے انہیں کیوں بند کیا؟ اور مزید کہا کہ اگر حکومت 30  جنوری تک آرڈی نینس جاری کرکے نہیں بتاتی کہ وہ کب تک بنائے گی تو عدالت خود اپنی سطح سے حکم دے دے گی۔

اب خدا خدا کرکے حکومت نے منھ کھولا ہے اور کہا ہے کہ اب سلاٹر ہائوس نگرنگم نہیں بنوائیں گے نہ نگرانی کریں گے بلکہ ایف ایس ڈی آئی یہ کام کرے گا۔ عدالت نے خود تسلیم کیا ہے کہ گوشت کھانے والوں کی تعداد 70  فیصدی ہے اور یہ بات ہم اپنے مشاہدہ اور تجربہ کی بناء پر کہہ رہے ہیں کہ ان میں شوق سے کھانے والے کم ہیں اور مجبوری میں زیادہ ہیں۔ مسلمان کو سبزی سے نفرت نہیں ہے لیکن سبزی ان کی حیثیت کے حساب سے بہت مہنگی ہے۔ سبزی کے نام پر وہ آلو کے علاوہ آسانی سے کچھ نہیں کھاتا۔ ہم نے بھی اپنی زندگی اسی صوبہ میں گذاری ہے ہم بھی اپنی ضرورت کی چیزیں بازار سے خرید کر لاتے تھے۔ نہ جانے کتنے سبزی والے ہوتے تھے جو 100  روپئے کا نوٹ دیکھ کر کہتے تھے کہ بابوجی کیوں مذاق کررہے ہو اگر پیسے نہ ہوں تو کل دے دینا۔ اور آج گھر کے باہر جب سبزی والا آکر آواز لگاتا ہے تو یہ بھی دیکھا کہ لینے والا لڑکا یا لڑکی 500  کا نوٹ ہاتھ میں لئے ہوئے جارہی ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ یوگی مسلمانوں کو سبزی کھلانا چاہتے ہیں تو سبزی پر سبسڈی دے دیں کہ ٹماٹر ہو، پیاز ہو، شملہ مرچ ہو یا پروَل کوئی سبزی 20  روپئے کلو سے زیادہ قیمت کی نہیں ہوگی تو گوشت خور 25  فیصدی رہ جائیں گے۔

بڑے کے گوشت پر ہم چاہتے ہیں کہ اس کے ایکسپورٹ پر پابندی لگادی جائے تو بھینس کا گوشت 50  روپئے کلو سے زیادہ میں نہیں بکے گا۔ اب بھی غریب مسلمان کے گھر میں آدھا کلو گوشت میں ایک کلو آلو ڈال دیئے جاتے ہیں تو پورا گھر دونوں وقت کھا لیتا ہے۔ اور اگر کوئی من پسند سبزی کھانا چاہے تو 200  روپئے میں بھی پورا گھر نہیں کھا سکتا۔

حکومت کسی کی ہو اپنے شہریوں کو روزگار دینا اس کی ذمہ داری ہے اور روزگار سے جڑے ہوئے لوگوں کو بے روزگار بناکر ان کی خبر بھی نہ لینا ایسا ہی ہے جیسے کسی کے سامنے رکھی ہوئی کھانے کی تھالی اٹھا لینا۔ ہم نہیں سمجھ سکے کہ کہا تو یہ جانے لگا کہ ہمیں ہمارے وزیراعظم نے ایک منتر ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ بتا دیا ہے اور ہم وہی کررہے ہیں۔ لیکن لاکھوں محنت کرکے کمانے والوں کے ہاتھ سے روٹی چھیننا اور سال بھر خبر بھی نہ لینا کون سا ساتھ اور کون سا وکاس ہے۔ گوشت کہیں نہ کہیں سے آکر بک رہا ہے۔ حکومت کے کارندے صرف کسی نہ کسی علاقہ میں گوشت کی دُکان اس جرم میں بند کرا رہے ہیں کہ لائسنس نہیں ہے۔ لائسنس کوئی بازار میں نہیں بکتا حکومت دیتی ہے اب یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ جو صاف ستھری دُکان کھول کر بیٹھا ہے اس کا لائسنس بنا دیا جائے۔ اور اگر نہیں بنے گا تو گوشت کٹے گا بھی بکے بھی اور کھایا سب جائے گا بس رشوت دوگنی ہوجائے گی اور گوشت مہنگا ہوجائے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔