اور وہ 16 برس میں بھی جیسے تھے ویسے ہی رہے

حفیظ نعمانی

ہم نے اپنی جوانی اور پوری طرح بڑھاپے کی گرفت میں آنے سے پہلے جو گناہ کئے بڑھاپے کے آجانے کے بعد ہر وقت یہ کوشش کرتے گذری کہ جتنا کفارہ ہوسکے ادا کرتے چلیں اور اٹھتے بیٹھتے توبہ کرتے رہیں۔ ہم نے دوسروں کو بھی دیکھا کہ جیسے جیسے بالوں میں سفیدی آتی گئی اور اعصاب کمزور ہوتے گئے ان کے ہر فعل میں تبدیلی ہوتی گئی۔ اپنے ملک کے وزیراعظم کے بارے میں یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ 2002 ء کے بعد 16 سال ہوگئے وہ پرانی ادائیں چھوڑنے کے بجائے دوسری ان سے بھی زیادہ بھیانک کارگذاریوں میں مبتلا کیوں گئے؟

2002ء میں یاد ہے کہ ان کو جب اڈوانی جی نے وزیراعلیٰ کی کرسی پر بٹھایا تھا تو وہ نہ ایم ایل اے تھے نہ ایم ایل سی اور انہوں نے الیکشن لڑا تو بہت کم ووٹوں سے راج کوٹ کی سیٹ جیت سکے۔ اس وقت کا ماحول ایسا تھا کہ اگر صوبائی الیکشن ہوجاتا تو بی جے پی ہار جاتی۔ یہ وہ وقت تھا جب گودھرا حادثہ پیش آیا اور یہ بات آج تک صاف نہیں ہوئی ہے کہ وہ بوگی جس میں کارسیوک سفر کررہے تھے اس میں اندر سے آگ لگی یا باہر سے لگائی گئی؟ اور اکثریت اس حق میں ہے کہ آگ اندر سے لگی تھی۔ یہ کارسیوک اجودھیا سے آرہے تھے یہ کوئی مذہبی ٹولہ نہیں تھا ان میں سب ایسے ہی تھے جیسے کانوڑیے ہوتے ہیں۔ اور یہ خبریں بھی ملیں کہ وہ راستے کے اسٹیشنوں پر سامان کی لوٹ کھسوٹ کرتے ہوئے آرہے تھے اور ان کے پاس چولھا اور پکانے کے برتن سب تھے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اندر ہی آگ لگی اور پھیل گئی۔

اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وزیراعلیٰ مودی نے جلی ہوئی لاشوں کو لاکر احمد آباد کی فضا میں زہر گھول دیا اور آگ بھڑک اُٹھی اور پولیس کے اعلیٰ افسروں کی میٹنگ میں کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو اس میں رُکاوٹ نہ ڈالنا۔ پولیس کے وہ افسر جو اپنے ضمیر کی آواز پر اپنا فرض ادا کرنا چاہ رہے تھے ان کی اپنی جان کو بھی خطرہ تھا۔ اور صدر جمہوریہ نے چاہا تھا کہ فوراً فوج بھیج دی جائے تو اسے بھی وزیراعلیٰ نے ٹالا اور جب فوج کو آنے کی اجازت دی تو فوج کے آنے کے بعد اسے کام نہیں کرنے دیا۔

اب یہ بات سب کے سامنے آگئی ہے کہ وزیراعلیٰ اور وزیر دفاع جارج فرنانڈیز سے جنرل شاہ نے کہا کہ فوج کے لئے نہ ٹرانسپورٹ ہے اور نہ گائڈ اور ہم نے ہوائی جہاز سے دیکھا کہ شہر میں جگہ جگہ آگ بھڑک رہی ہے۔ اس کے باوجود 30 گھنٹے کے بعد ان کو ٹرانسپورٹ اور گائڈ دیئے گئے۔ جنرل شاہ کا کہنا ہے کہ اصول کی بات یہ تھی کہ فوج اترتی تو اسے فوراً ٹرانسپورٹ اور گائڈ ملتے۔ گذرے ہوئے 16 برسوں میں انہوں نے جو بھی کیا وہ ایک وزیراعلیٰ کی ذمہ داری نہیں تھی بلکہ ایک دشمن پارٹی کا کردار تھا۔

جب 2014 ء میں موہن بھاگوت صاحب نے انہیں ملک کا وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا اور وہ بگلا بھگت بن کر آئے تو انہوں نے ملک کو ایسا بنانے کا وعدہ کیا جیسا کوئی خوابوں میں دیکھتا ہوگا تو وہ مسلمان بھی جو اُن کی کارگذاری سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر خون کے آنسو رو چکے تھے انہوں نے بھی کانگریس کو ووٹ نہیں دیئے اور سوچنے لگے کہ جب پورا ملک خوشحال اور فارغ البال ہوجائے گا تو گجرات اور گودھرا کے مسلمان بھی اس قابل ہوجائیں گے کہ وہ اگر چاہیں گے تو اپنے مقدمات لڑسکیں گے۔ لیکن یہ کسے خبر تھی کہ مودی ان دانشوروں کے قول کو سچا ثابت کریں گے جنہوں نے کہا ہے کہ رشتہ کرتے وقت ہڈی گڈی دیکھنا ضروری ہے۔ اور وہی ہوا کہ چھوٹا ماحول اور چھوٹا دماغ اور نسلوں کی غربت کا اثر کہ دولت مندوں کے قدموں میں جاگرے اور پوری حکومت کو امبانی برادران پر قربان کرتے وقت صرف یہ سوچا کہ ان بھائیوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ یہ سب کا منھ بند کردیں گے۔

اگر مودی جی کے صلاح کار مخلص ہوتے اور مودی جی ان کا مشورہ مانتے ہوتے تو ان کے کرنے کا پہلا کام یہ تھا کہ بینک کی لائن میں کھڑے کھڑے یا وہاں سے محروم آنے کے بعد جنہوں نے جان دے دی ان سب کے گھر جاتے اور دس دس لاکھ روپئے ان کی خدمت میں پیش کرتے ان میں جو ملازمت کے لائق ہوتے ان کو سرکاری نوکری دیتے اور جو تعلیم پارہے تھے ان کی تعلیم کا انتظام کرتے جیسے وویک تیواری کے بیوی بچوں کا کیا ہے ان کو تو پولیس والوں نے مارا تھا لیکن ان کو تو وزیراعظم نے مارا ہے۔ اور گجرات کے صوبائی الیکشن میں جو پھر ہندو مسلم کیا ہے وہ نہ کیا ہوتا اور اب جو الیکشن ہورہے ہیں یا 2019 ء کو ہونے جارہے ہیں ان میں ایک بڑے لیڈر کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہوتا۔ ایک طرف تو اُن کے اوپر رافیل سودے سے انل امبانی کو شریک کرنے پر واویلا مچا ہوا ہے اور وہ اتنی نچلی سیڑھی پر اُتر آئے ہیں کہ اس شیوپال یادو کو وہ عالیشان محل دے دیا جو مایاوتی سے خالی کرایا تھا صرف اس لئے کہ وہ شاید بڑے مکان میں آجائے تو بڑا آدمی مانا جائے۔
مودی جی نے یہ تو سوچا ہوتا کہ وہ کیا ہے؟ نہ تو ابھی اس کی پارٹی بنی ہے نہ اس کا کوئی اسکے علاوہ ایم ایل اے ہے نہ اسے مکان کی ضرورت ہے اور وہ کروڑوں ووٹوں میں مشکل سے ہزار دو ہزار ووٹوں کا نقصان اکھلیش یادو کو پہونچا سکے گا لیکن اب اس کے اوپر بی جے پی کا ٹھپہ لگ گیا تو بس وہ لوگ جو باپ اور بیٹے دونوں سے ناراض ہیں وہ اس کے پاس آجائیں گے اس لئے کہ سیاسی لوگوں کو معلوم ہے کہ شیوپال کے پاس پی ڈبلیو ڈی اور ایری گیشن دونوں محکمے تھے اور دونوں میں سونے کی بارش ہوتی ہے۔ یہ اسی کی گرمی ہے جو پارٹی بنوا رہی ہے اور اس کا اثر ہے جس سے آنے والوں کی خاطر ہوگی۔ اور ہوسکتا ہے کہ اس نے بی جے پی کو پارٹی فنڈ میں کچھ دے دیا ہو۔ اگر اتنی بڑی جنگ لاٹھیوں سے لڑنے کے بارے میں مودی جی سوچ رہے ہیں تو انہیں مبارک ہو۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔