سر سید کے افکار کی عصری معنویت

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

علیگڑہ مسلم یونیورسٹی دنیا کا وہ واحد ادارہ ہے جسنے ملک و ملت کی تعمیر و ترقی؛  صالح معاشرہ  کی تشکیل ؛ انسانی اقدار کی حفاظت ساتھ ساتھ  آئینی اور جمہوری قدروں کے تحفظ کو یقینی بنایا ہے  نیز وہیں  سماجی ہم آہنگی؛  بقائے باہم اور تحفظ ادیان و ثقافت میں بھی اہم رول ادا کیا ہے- یہ سچ ہے کہ 1857 کی ناکامی کے بعد مسلمانوں میں مایوسی کا رجحان غالب ہونے لگا تھا؛ چنانچہ  اس پر آشوب دور سے باہر نکالنے کے لئے  کسی مؤثر اور مضبوط لائحہ عمل کی ضرورت تھی  تاہم  بانئی درسگاہ سر سید احمد خاں نے مسلمانان ہند کو  علمی؛  معاشی اور مذہبی پستی سے باہر نکالنے کے لئے اور ان کی تفوق و برتری کو بحال کرنے کے لئے تعلیم کا سہارا لیا؛  کیونکہ تعلیم ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جو نوع انسانی کو ہر طرح کی کامیابی سے ہمکنار کرسکتا ہے؛  تاریخ کا مطالعہ بتا تا ہے کہ جن اقوام و ممالک نے زیور علم سے اپنے معاشروں اور نسلوں کو آراستہ پیراستہ کیا ہے  انکی ہمیشہ بالادستی قائم رہی ہے؛اور جن اقوام و ممالک نے تعلیم جیسی بیش بہا دولت سے اعراض کیا ہے وہ قعر مذلت میں جاگری ہیں؛    آج اسرائیل اور یوروپ کو جو سر بلندی حاصل ہے اس کی واحد وجہ یہ ہیکہ  ان کے یہاں تعلیم و تدریس کے بڑے بڑے ادارے موجود ہیں جن  کے ذریعہ  وہ اپنی قوم کو  تعلیم سے مسلح کرنے میں لگے ہوئے ہیں؛ اگر یہ کہا جا  ئے تو بیجا نہ ہوگا کہ جو خاصہ کبھی مسلمانوں کا ہواکرتا تھا آج اس کو یوروپ نے بڑی ہوشیاری سے اپنالیا؛  حتی کہ ہمارے اکابر کی تصنیفات و تالیفات اور تحقیقات کو اپنے نام سے چھپوا لیا ہے-ضمنا یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اسرائیل اور مغرب نے صرف مادی ترقی تو حاصل ضرور کی ہے مگر تہذیبی اور روحانی و اخلاقی ترقی سے یوروپ ابھی بھی کوسوں دور ہے؛  یہی وجہ ہہیکہ ان نام نہاد انسانی حقوق کے علبرداروں کی سرپرستی میں اب تک دنیا کے کئی مقامات پر نوع انسانی کو بری طرح آتش و آہن میں جھلسایا گیا ہے اورافسوس اس ات کا ہیکہ یہ المناک حوادث ابھی بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں –

 سر سید نے تعلیم کو فروغ دینے اور ملت اسلامیہ ہند کو فوزو فلاح تک پہنچانے کے لئے ابتداء میں مدرسة العلوم مسلمانان ہند کے نام سے ادارہ قائم کیا جو بعد میں کالج ہوا اور اب دنیا میں علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے – اگر سر سید کے تعلیمی افکار و نظریات کا تجزیہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ سر سید کی خواہش تھی کہ ہر گلی میں ایک مدرسہ ہو اور ہر مدرسہ میں تعلیم کا بندوبست انتھائی مؤثر ہو حتی کہ ہر مدرسہ میں  علوم شرعیہ کے ماہر پیدا ہوں وہیں  عصری علوم و فنون سے مزین ہوں اور دنیا کے بڑے بڑے مناصب تک پہنچ سکیں؛  بانئی درسگا سر سید احمد خاں  دینی اور عصری علوم میں ہم آہنگی اور ہم  امتزاجی کے خوستگار تھے ان کا معروف قول بھی ہے کہ "ایک ہاتھ میں سائنس ہو اور ایک ہاتھ میں قرآن اور سر پر لا الہ الا اللہ کا تاج ہو ” مذکورہ افکار و شواہد کی روشنی میں یہ عرض کیا جا سکتا ہے سر سید اپنے مشن اور قوم کے لئے انتھائی سنجیدہ اور مخلص تھے؛ حقیقت ہیکہ جب دین اور دنیا سے بیزاری  اور دوری ہوگی تو یقینا انسان راستہ سے برگشتہ کہلائے گا اسی فاصلہ کو دور کرنے کے لئے سر سید نے متذکرہ بالا قول ارشاد فرمایا ہے تاکہ انسان دنیا میں ایمانداری سے زندگی گزار کر آخرت میں کامیاب ہوسکے ؛ لہذا آج ضرورت اس بات کی ہےکہ ہم سر سید کے افکار کی روشنی میں اپنے کردار اور سماجی و ملی خدمات کو لیث کریں اور ملت کی ترقی کے تئیں اسی نہج پر جدوجہد کریں جو سر سید نے اپنائی تھی-

آج دانشگاہ پر اغیار و متعصبین کی یلغار ہے گزشتہ دنوں یوپی کے سربراہ نے مادر درسگاہ میں دلت رزرویشن کا شگوفہ چھوڑدیا تھا اسی طرح آئے دن جانبدار میڈیا اور نام نہاد رہنما اقلیتی کردار کو لیکر ووٹ بینک بنانے کے لئے بے تکے بیانات دیتے رہتے ہیں؛  افسوس اس بات کا ہے کہ  ٹی وی چینلوں پر ذراسی بات کو لیکر ڈبیٹ شروع کردیجاتی؛  مزید حیرت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ترجمان اپنی سہولت و مفاد کے اعتبار سے یونیورسٹی کو یرغمال بنانے کی کاوش کرتے ہیں اور یونیورسٹی کے بہانہ خوب ووٹ بینک کی سیاست کرتے ہیں – تصور کیجئے کہ جب تعلیمی ادارے نفرت آمیز سیاست کی زد میں آجائیں تو یقینی طور پر تعلیمی نظام متائثر ہوگا؛  اس لئے حکومتوں پر یہ ذمہداری عائد ہوتی ہے کہ وہ کم از کم اپنی مفاد پرست سیاست سے جامعات و تعلیمی اداروں کو آزاد رکھیں – علیگڑہ مسلم یونیورسٹی نے ہمیشہ ملک و ملت کی تعمیر اس کی ترقی کے لئے لائق فائق شخصیات کو جنم دیا؛ وطن دوستی؛  حب الوطنی؛  وفاداری اور جانثاری یونیورسٹی کا امتیازی وصف ہے؛  اس کے باوجود بھی یونیورسٹی کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے اس کا واضح مطلب یہ ہیکہ ملک میں کہیں نہ کہیں حاسدیں و متعصبین کا ٹولہ موجود ہے جو آئے دن بھولی بھالی عوام کے درمیان نفرت کی آبیاری کرتا رہتا ہے؛  چنانچہ ایسے نازک دور میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ملک میں ہورہی دوغلی سیاست اور نفرت کا خاتمہ کیا جائے تبھی جاکر ملک میں اقلیتوں کے تعلیمی ادارے محفوظ رہیں گے  اور اقلیتی طبقہ کی جان و مال بھی محفوظ رہے گی؛

 علیگڑہ مسلم یونیورسٹی ملت کا اثاثہ اور سرمایہ ہے؛  یہاں تعلیم کے لعل و گو ہر سے مزین کرنے کے ساتھ ساتھ باہمی الفت؛  اور تربیت و اصلاح پر بھی توجہ دیجاتی ہے؛  اس لئے ادارہ کا تشخص و امتیاز باقی رکھنا اور اس کے لئے کوشاں رہنا لازمی ہے؛  اس کے لئے ہمیں خود محنت کرنی ہوگی اور اپنے ادارے کے وقار کی بازیافت کے لئے تمام سیکولر اور ملی و سماجی تنظیموں کو یکجٹ ہونا ہوگا تبھی جاکر دانشگاہ علیگڑہ کی روایات کی شان اور وقار مجروح ہونے سے محفوظ ہو سکے گا-

آخر میں یہ عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہیکہ اگر ہم سر سید کے مشن کی ترویج و اشاعت کے متمنی ہیں تو ضروری ہیکہ آج ہم کو اپنی تمام تر طاقت و ثروت کو تعلیمی اداروں کے قیام میں صرف کرنا ہوگا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا  کہ سر سید کے اس ادارے کے قیام کے پس پردہ کیا مقاصد تھے؟  انہوں نے  ملت میں تعلیم کی شمع کیوں روشن کی؟ وہ مسلم سوسائٹی کو تعلیم یافتہ اور اپنی قوم کے بچوں کو آسمان کے مانند بلند کیوں دیکھنے چاہتے تھے ؟ ان تمام چیزوں کے جوابات کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور ان کے مشن کو اخلاص کے ساتھ آگے بڑھانا ہوگا در اصل  یہی بانئی درسگاہ کو سچا خراج عقیدت ہو پائے گا۔

یہ بتانا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اس وقت دانشگا ہ کی سر پرستی انتھائی زیرک اور معاملہ فہم شخصیت کرہی  ہے شیخ الجامعہ پروفیسر طارق منصور کےدور میں  یونیورسٹی کا تعلیمی معیار کافی بلند ہوا ہے  ادھر کیمپس میں پوری طرح امن وامان ہے؛  جہاں ادارہ علمی میدان میں سربلندی حاصل کرنے میں تلا ہوا ہے وہیں ادارہ میں ہر طر ح تعمیری اور فکری ترقی بھی بڑی تیزی سے ہو رہی ہے ظاہر ہے  ان تمام چیزوں کا سہرا شیخ الجامعہ علیگڑہ مسلم یونیورسٹی کے سر بندھتا ہے۔

تبصرے بند ہیں۔