اکبر پر لگے الزامات کی تفصیل اخباروں سے غائب کیوں ہے؟

رویش کمار

14 خواتین صحافیوں نے مبشر جاوید اکبر پر جنسی چھیڑ چھاڑ کے الزام لگائے ہیں۔ یہ سارے مضامین انگریزی میں لکھے گئے ہیں اور انگریزی کی ویب سائٹ پر آئے ہیں۔ ہفنگٹن پوسٹ، میڈیم، دی وائر، ووگ، فرسٹ پوسٹ، انڈین ایکسپریس۔ غزالہ وہاب، كنكا گہلوت، پریا رمانی، پریرنا، بندرا سنگھ، شما راہا، پریم پركر، سپرا شرما، سُتپا پال، ڈو پو کانپ (DU PUY KAMP)، روتھ ڈیوڈ، انسويا باسو، كادنبری،  ایم واڈے۔ ان چودہ خواتین صحافیوں کی یادداشتوں کو آپ غور سے پڑھیں۔

ان سب کی رپورٹ میں کچھ خاص چیزیں بار بار ملیں گی۔ جیسے، اکبر کا تنگ راستوں والا کمرہ، لیدر کی کرسی، اس کا پیچھے سے آکر کندھے کو پکڑ لینا، بات کرتے وقت چھاتی گھورتے رہنا، پکڑ کر چوم لینا اور اپنی زبان منہ میں جبرا ڈال دینا، لندن بیورو میں پوسٹنگ کا لالچ، صحافت میں کیریئر چمکا دینے کا اوفر یا برباد کر دینے کی دھمکی۔ ان سب کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اکبر ایک بیمار شکاری ہے۔ چودہ خواتین صحافیوں نے الزام لگائے ہیں، سیاق و اور حوالوں کے ساتھ۔

ان الزامات کے بارے میں رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی کے قومی صدر امت شاہ نے کہا ہے کہ وہ اکبر پر لگے الزامات کی جانچ کریں گے۔ جو پوسٹ کیا ہے انہیں چیک کریں گے، سچائی کا پتہ لگائیں گے، کس شخص نے لکھا ہے یہ بھی دیکھیں گے۔ کیا امت شاہ ان تمام 14 خواتین صحافیوں کو بلا کر اکبر کے سامنے جَن سنوائی کرنے والے ہیں؟ امت شاہ کس طرح چیک کریں گے؟ کیا وہ اشارہ دے رہے ہیں کہ اکبر کو بچانے کے طریقے نکال لیے جائیں گے۔ تحقیقات کے نام پر کمیٹی بنا دی جائے گی۔ کیا وہ کورٹ ہیں، جج ہیں، کیا ہیں؟ جو وہ چیک کریں گے! ایک بار بی جے پی کے صدر نتن گڈکری پر الزام لگے تھے۔ بی جے پی نے اندرونی لوک پال کی تشکیل کی تھی جنہیں ان دنوں ریزرو بینک کا رکن بنا دیا گیا ہے۔ بی جے پی حکومت کے پانچ سال ہونے کو آرہے ہیں، اصلی لوک پال کا ابھی تک پتہ نہیں چل پایا ہے۔

اکبر واپس آ گئے ہیں۔ کہا ہے کہ جلد ہی بیان آئے گا۔ اکبر کے جواب کا انتظار سب کو ہے۔ بہت سے ذرائع ابلاغ کے اداروں نے ان کی رائے مانگی ہے۔ ان کا بھی حق سنا جانا چاہئے مگر استعفی دینے کی بھی اپنی اخلاقیات ہوتی ہے۔ بہت سے چھوٹے بڑے لیڈروں نے معمولی الزام پر تحقیقات سے پہلے استعفی دیا ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے ریزی ڈینٹ ایڈیٹر کے ایس شری نواس نے استعفی دے دیا۔ ان پر سات خواتین صحافیوں نے الزام لگائے ہیں۔ ہندوستان ٹائمز کے سیاسی ایڈیٹر پرشانت جھا نے بھی استعفی دیا ہے۔

اب میں ایک دوسرے معاملے پر آتا ہوں۔ اکبر کی خبر کو انگریزی اور ہندی کے کئی اخباروں نے کیوں نہیں چھاپا؟ ایکسپریس اور ٹیلی گراف نے تفصیل سے چھاپا ہے۔ باقی انگریزی اخبار بھی ہندی اخبار کی طرح ڈرپوک نکلے۔ ہندی اخباروں میں جہاں یہ خبر چھپی ہے، ان کا تجزیہ کرنا چاہئے۔ دینک بھاسکر اور اکنامک ٹائمز نے اس خبر کو چھاپا ہے۔ مگر کیا ان میں جنسی استحصال کے الزامات کی تفصیلات ہیں؟ یا انہیں تنازعہ کی شکل میں ہی چھاپا ہے۔ ہندی کے کئی بڑے اخبارات نے اس خبر کو چھاپا ہی نہیں۔ کروڑوں قارئین تک یہ خبر نہیں پہنچی ہے۔ جہاں چھپا ہوا ہے وہاں صرف خانہ پوری کی گئی ہے۔ اندر کے صفحات پر تین چار لائن کی خبر چھپی ہے۔ ان میں اس کا ذکر ہی نہیں ہے کہ 14 خواتین صحافیوں نے جو الزام لگائے ہیں انکی تفصیلات کیا ہیں۔

"وہ کرسی سے اٹھا اور اپنی میز کا چکر لگاتے ہوئے میری طرف آیا، جہاں میں بیٹھی تھی۔ میں بھی اٹھ گئی اور اس سے ہاتھ ملایا۔ اس نے میرے کندھوں کے نیچے ہاتھوں کو دبوچ لیا اور اپنی طرف کھینچ لیا۔ میرے منہ میں اپنی زبان ڈال دی۔ میں وہاں کھڑی رہ گئی۔ اکبر نے جو کیا وہ بہت بھدا تھا۔ میری حدود سے کھلواڑ کیا۔ میرا اور میرے ماں باپ کے بھروسے کو تار تار کر دیا۔”

یہ بیان CNN کی تحقیقاتی صحافی ڈو پو کانپ کا ہے۔ مجھ سے نام کے تلفظ میں غلطی ہو سکتی ہے۔ کانپ نے لکھا ہے کہ میں 18 سال کی تھی، اکبر 56 سال کے۔ بھارت میں غیر ملکی نامہ نگار کے طور پر کام کر رہے اپنے والدین کے ذریعہ اکبر سے ملی تھی۔ خاتون صحافی کے والد نے اس معاملے کو لے کر اکبر کو ای میل بھی کیا تھا جسے ہفنگٹن پوسٹ کی بیتوا شرما اور امن سیٹھی نے چھاپا ہے۔ اکبر نے ای میل کا جواب دیا ہے کہ ”ان باتوں کو لے کر غلط فہمی ہو جاتی ہے۔ ان چیزوں کو لے کر بحث سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر کچھ بھی غیر مناسب ہوا ہے تو میں معافی مانگتا ہوں۔”

سپرنا شرما جو فلم كریٹك ہیں، انہوں نے بھی الزام لگائے ہیں۔ نیو كراپ کی بانی ایڈیٹر ہیں ستپا پال۔ انہوں نے تو 10 اکتوبر کو 32 ٹویٹس کئے اور بتایا ہے کہ کس طرح انڈیا ٹوڈے کے کولکتہ بیورو میں کام کرنے کے دوران اکبر نے تعلقات بنانے کی کوششیں کیں۔ یہ ساری باتیں 2010-11 کی ہیں۔ کیا ایک خاتون صحافی ستپا پال نے اکبر پر لگائے جنسی تشدد کے الزام لکھ دینے سے ہندی کا قاری جان پائے گا؟ کیا آپ نے ایک غیر ملکی خاتون صحافی ڈو پو کانپ کی تفصیلات کو اپنے ہندی اخبار میں چھپا دیکھا ہے؟ تبھی میں کہتا ہوں کہ ہندی کے اخبار ہندی کے قارئین کا قتل کر رہے ہیں۔ جب معلومات ہی نہیں ہوگی تو سمجھیے وہ شہری کیا ہوگا، ووٹر کیا ہوگا؟ ہندی کی ایک خاتون صحافی فیس بک پر  نے اپنی آب بیتی لکھی ہے۔  کیا کوئی ہندی کا اخبار ان کی آپ بیتی کو چھاپے گا؟

ششی پانڈے مشرا نے لکھا ہے کہ "بات 2010 کی ہے۔ تب میں آئینیكسٹ اخبار (دینک جاگرن) میں رپورٹر تھی۔ ہمارے یہاں ایک نیا انچارج آیا مشاہد۔ خواتین رپوٹرس کے ساتھ گندی گندی باتیں کرتا تھا۔ پر کسی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ اس کے خلاف کچھ بھی بولے۔ ایک دن مجھے بلا کر بولا كانڈم پر ایک کہانی کرو کہ آج کل لڑکیوں کو کس فلیور کے كانڈم پسند ہیں؟ میں نے پوچھا کہ سر کیا یہ خبر آپ چھاپیں گے؟ بولا خیر چھوڑو، تمہیں کس فلیور کے كانڈم پسند ہیں؟ میں اس کے کیبن سے گالیاں دیتے ہوئے باہر آ گئی۔ " ہندی کے اخبار ہندی کی خواتین صحافیوں کے می ٹو بیان نہیں چھاپ رہے ہیں۔ اس سے تاثر پیدا کیا جا رہا ہے کہ یہ سارا معاملہ انگریزی کی خواتین صحافیوں کا ہے، جبکہ یہ بات غلط ہے۔ مشاہد کا موقف ملے گا تو ضرور چھاپیں گے۔ بلکہ اسی مضمون میں شامل کر دوں گا۔

"اکبر اپنی کتاب کی پروف ریڈنگ کے لیے کہنے لگا۔ میری کرسی کے قریب آکر کھڑا ہو جاتا، مجھے کشیدگی میں دیکھ کر مساج کر دینے کی پیشکش کرنے لگتا۔ میرے انکار کر دینے پر وہ مجھے چومنے کی کوشش کرنے لگتا۔ میں گھبراہٹ دکھا کر گھوم جاتی تھی۔”

یہ تفصیل روتھ ڈیوڈ نام کی خاتون صحافی کا ہے۔ انہوں نے میڈیم نام کی ویب سائٹ پر آپ بیتی لکھی ہے۔ انگریزی میں۔ ہندی کے ایڈیٹر جنسی تشدد کے سارے بیانات غائب کر دے رہے ہیں۔ بہت سے بہت چومنے کی بات چھاپ دیں گے مگر اندھیرے میں چھاتی دبا دینے کی بات نہیں لکھیں گے جو اکبر کے بارے میں کئی خواتین صحافیوں نے لکھی ہے۔ جبرا کھینچ کر اکبر اپنی زبان ان کے گلے میں ڈھوس دیتا تھا اس کی تفصیلات نہیں چھاپیں گے۔ جبکہ ہندی کی عورتیں ٹھیک اسی طرح کے جنسی تشدد جھیل رہی ہیں۔ لیکن جب وہ اپنی ویب سائٹ پر قارئین کو لبھانے کے لئے جنس سے متعلق خبریں چھاپیں گے تب وہ انگریزی کے اخبارات سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔

کسی رسرچر کو تحقیق کرنا چاہئے کہ ہندی کی خاتون صحافی جب اپنے ساتھ ہوئے ان بیانات کو لکھتی ہیں تو کیا ان کی تفصیل اتنی واضح ہوتی ہے، جیسا انگریزی کی خاتون صحافی لکھ رہی ہیں؟ رسرچر کو ان ہندی صحافیوں سے بات بھی کرنا چاہیے تبھی پتہ چلے گا کہ جو گھٹا ہے، وہ انہوں نے ہو بہ ہو لکھا ہے یا بہت کچھ سوچ کر ترمیم کر دیا ہے اور باریک تفصیلات کی جگہ جنرل بات لکھ دی ہیں۔ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اکبر کے معاملے میں می ٹو کی تفصیلات کیسی ہیں اور باقی فلمی دنیا کے لوگوں پر لگے الزامات کی ڈٹیل کس طرح سے چھپی ہوئی ہیں۔ میں نے سب کی تفصیل نہیں پڑھی ہے اور میں ایسی باتوں کو مستند طریقے سے کہنے کا اہل نہیں ہوں۔ ریسرچ اور تعلیمی کام کا عمل، صحافت کے کام سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔

غزالہ وہاب نے دی وائر میں اپنی آپ بیتی انگریزی میں لکھی۔  کافی دیر بعد جب دی وائر میں اس کا ہندی ترجمہ آیا تو میں یہی دیکھنے گیا کہ کیا ہندی ترجمہ کے وقت ان کے رپورٹ کو چھوڑ دیا گیا ہے یا پھر ٹھیک ٹھیک وہ بات نہیں ہے جیسا غزالہ نے انگریزی میں کہا ہے۔ دی وائر ہندی کے مضمون کو اور قریب سے دیکھنے کی ضرورت ہے مگر سرسری طور پر لگا کہ ترجمہ کرنے والے نے کسی رپورٹ سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس نے اپنے قارئین کو چیلنج کیا ہے کہ وہ ہندی کی جھوٹی اخلاقیات کو چھوڑ غزالہ وہاب کے ساتھ اکبر نے جو کیا ہے اسے ہو بہ ہو پڑھیں۔

"کبھی کبھی جب انہیں اپنا ہفتہ وار کالم لکھنا ہوتا، وہ مجھے اپنے سامنے بٹھاتے۔ اس کے پیچھے خیال یہ تھا کہ اگر انہیں لکھتے وقت ایک موٹی ڈکشنری، جو ان کے کیبن کے دوسرے کونے پر ایک کم اونچائی کی تپائی پر رکھی ہوتی تھی، سے کوئی لفظ دیکھنا ہو، تو وہ وہاں تک جانے کی زحمت اٹھانے کی جگہ مجھے یہ کام کرنے کے لیے کہہ سکیں۔ اس کی ڈکشنری اتنی کم اونچائی پر رکھی گئی تھی کہ اس میں سے کچھ تلاش کرنے کے لئے کسی کو یا تو مکمل طور پر جھکنا یا اكڑو ہوکر (گھٹنے موڑ کر) بیٹھ پڑتا اور ایسے میں پیٹھ اکبر کی جانب ہوتی۔ 1997 کو ایک روز جب میں آدھی اكڑوں ہوکر ڈکشنری پر جھکی ہوئی تھی، وہ دبے پاؤں پیچھے سے آئے اور مجھے کمر سے پکڑ لیا۔ میں ڈر کے مارے کھڑے ہونے کی کوشش میں لڑکھڑا گئی۔ وہ اپنے ہاتھ میری چھاتی سے پھراتے ہوئے میرے گدی پر لے آئے۔ میں نے ان کا ہاتھ جھٹكنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے مضبوطی سے میری کمر پکڑ رکھی تھی اور اپنے انگوٹھے میری چھاتی سے رگڑ رہے تھے۔ دروازہ نہ صرف بند تھا، بلکہ ان کی پیٹھ بھی اس میں اڑی تھی۔ خوف کے ان چند لمحوں میں ہر طرح کے خیال میرے دماغ میں دوڑ گئے۔ آخر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ اس دوران مسلسل ایک مسکراہٹ ان کے چہرے پر تیرتی رہی۔ میں  ان کے کیبن سے بھاگتے ہوئے نکلی اور واش روم میں جاکر رونے لگی۔ خوف نے مجھے گھیر لیا تھا۔ میں نے خود سے کہا کہ یہ پھر نہیں ہوگا اور میرے مزاحمت نے انہیں یہ بتا دیا ہوگا کہ میں ان کی ‘ایک اور گرل فرینڈ’ نہیں بننا چاہتی۔ لیکن یہ اس برے خواب کی شروعات تھی۔ اگلی شام انہوں نے مجھے اپنے کیبن میں بلایا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر داخل ہوئی۔ وہ دروازے کے سامنے ہی کھڑے تھے اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہہ پاتی، انہوں نے دروازہ بند کر دیا اور مجھے اپنے جسم اور دروازے کے درمیان جکڑ لیا۔ میں نے خود کو چھڑانے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے مجھے پکڑے رکھا اور مجھے چومنے کے لیے جھکے۔ میں نے پوری طاقت سے اپنا منہ بند کئے ہوئے، اپنے چہرے کو ایک طرف جوجھ رہی تھی۔ یہ كھينچاتانی چلتی رہی، مجھے کامیابی نہیں ملی۔ میرے پاس بچ نکلنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ ڈر نے میری آواز چھین لی تھی۔ چونکہ میرے جسم دروازے کو دھکیل رہا تھا، تو تھوڑی دیر بعد انہوں نے مجھے جانے دیا۔ آنکھوں میں آنسو لیے میں وہاں سے بھاگی۔ بھاگتے ہوئے میں دفتر سے باہر نکلی اور سوریہ کرن بلڈنگ سے باہر آکر پارکنگ لاٹ میں پہنچی۔ آخر کار مجھے ایک اکیلی جگہ ملی، میں وہاں بیٹھی اور روتی رہی۔”

آپ نے جو حصہ پڑھا وہ دی وائر ہندی کی ویب سائٹ پر غزالہ  وہاب کا ترجمہ ہے۔ غزالہ فورس نیوز میگزین کی ایكزی كيوٹو ایڈیٹر ہیں۔ ڈریگن آن یور ڈورسٹیپ: منیجنگ چائنا تھرو ملٹری پاور کی سہ مصنفہ ہیں۔ كادنبری نے ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ انہوں نے اکبر سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ "سر، مجھے اچھا لگے گا جب آپ مجھ سے بات کریں تو چہرے کی طرف دیکھیں، چھاتی نہ گھوریں۔”

اگر ہندی کے اخبار یہ سب پرنٹ کرکے اپنے کروڑوں قارئین تک پہنچاتے تو وہ خواتین قارئین کو زیادہ با اختیار اور مضبوط بناتے۔ انہیں حوصلہ دیتے کہ اپنے ساتھ ہوئے جنسی تشدد کو اس طرح سے بیان کرنا ہے۔ آخر ہندی یا دیگر لسانی اخبارات کے پاس اخلاقیات کی کون سی چادر ہے جس کے نیچے یہ جنسی تشدد کے سارے بیانات و واقعات قارئین سے چھپا دیتے ہیں۔

مترجم: محمد اسعد فلاحی

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔