اور کیا دیکھنے کو باقی ہے؟

عبید الکبیر

ہجومی تشدد، اغوا، عصمت دری، قتل، بے روزگاری، غبن اور کالابازاری جی ہاں یہ ہیں وہ کارنامے جو گزشتہ چار سالوں سے تقریبا ہر روز ہماری میڈیا کا موضوع بحث بنتے ہیں۔ ملک کے لیے یہ مدعے کتنے مفید یا مضر ہیں اسے بتانے کی ضرورت نہیں تاہم بہ حیثیت ایک انسانی جمیعت کے یہ شرم ناک واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں۔ مگر تف ہے ہماری حالت پر کہ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی کچھ اہل منصب ان پر سیاست کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ بات اگر چہ قابل تسلیم ہے کہ جرائم کا وقوع کوئی نئی چیز نہیں تاہم جس ڈھٹائی کے ساتھ اور جن عناصر کے ہاتھوں ان دنوں یہ کاروبار ہورہا ہے وہ بہت چونکانے والا ہے۔ حال تو یہ ہے کہ اب اس قسم کی سفاکیوں میں کچھ خرقہ پوشوں کا بھی نام آرہا ہے۔ اس پہ طرہ یہ کہ ہمارے لائق نمائندے ان غلط کاریوں کی تاویلات میں دوسروں کو الجھا رہے ہیں۔

ہمارے مقتدر ادارے، شخصیات، اور ایجینسیاں سب کی سب جس ڈگر پہ چل پڑے ہیں وہ یقیناًبھارت کا ایک الگ ہی تصور پیش کررہاہے۔گزشتہ دنوں پے در پے جنسی تشدد کے جو دو واقعات پیش آئے اور اس پر مختلف فکر وخیال کے لوگوں کا جو رد عمل سامنے آیا کیا وہ محض ایک اتفاق تھا یا کچھ اور ؟ یہ سوال نظر انداز کیے جانے کے لائق نہیں ہے۔ کیا لا ء اینڈ آرڈر ناکام ہورہا ہے،یا ہمارے قانونی اداروں پر کسی خاص طبقہ کا تسلط اس کے لیے ذمہ دار ہے۔جمہوری اقدار کی پاسبانی کا فریضہ انجام دینے میں کوتاہی کہاں ہو رہی ہے ؟یہ اور اس قسم کے سینکڑوں سوالات ہیں جوشاید ہماری اور آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔ یہ بات خوش آئیند ہے کہ ہربارکی طرح اس بار بھی عوام اپنے غم وغصے کا اظہار ملک گیر پیمانے پر کررہی ہے۔جمہوریت کے بقا اور روشن مستقبل کے لیے عوامی بیداری ہی سب سے آخری تدبیر ہے۔ جہا ں تک مسائل کی بات ہے تو اس میں کیا شک کہ پچھلے چار سالوں سے ملک کی کثیر آبادی کی بیشتر توانائیاں انہی ہنگاموں اور شور وغوغا کی نذر ہو چکی ہیں۔

جے، این یو، کا سانحہ، اخلاق کا قتل، روہت کی خودکشی، پہلو خان یا آصفہ جیسی معصوم کے ساتھ کھلم کھلا بہیمیت کا مظاہرہ ہر جگہ اور ہر موقع پر ایک مہیب اندھیرا نظر آتا ہے۔ ایسا اندھیرا جس میں روشنی کا کہیں گذر نہیں عدل وانصاف کے مطالبے کے لیے آوازیں اٹھتی ہیں ، انسانی ضمیر کی کرنیں جا بجا چمکتی دکھائی دیتی ہیں ،شعلے بھڑکتے ہیں ، چنگاریاں پھوٹتی ہیں مگردفعتا کوئی فریبی ٹولہ ہماری نظروں کا قبلہ بدلنے کے لیے کسی آتش کدے سے ایک لاوا اٹھا کر لے آتا ہے۔ایک بڑا طبقہ عرصہ دراز سے اپنے آتش دانوں میں انہی شعلوں کو بھڑکائے جارہا ہے، کچھ لوگ سلگتے ہیں کچھ سلگائے جاتے ہیں اور کچھ لوگ انہی شعلوں میں جلاکر خاک کردیے جاتے ہیں۔ نگر نگر اور گلی گلی کسی ایک ہی مسلئے کی دھوم ہوتی ہے جس کا تعلق بسا اوقات ایک خاص طبقے سے ہوتا ہے۔اس صورت حال کو مثال سے سمجھنے کی اگر زحمت گوارا ہو تو صرف تین طلاق کے مسئلے یا نوٹ بندی کے فیصلے پر عنان توجہ منعطف کیجیے۔ہمارے بہت سے اہل وطن اسی گمان میں تھے اور شاید اب بھی ہیں کہ جن مسائل کو اجاگر کرکے ان کا حل فراہم کیا جارہا ہے وہ واقعی اہم اور قابل توجہ ہیں۔

لیکن غور کیجیے تو صاف سمجھ میں آئے گا کہ حقیقت در اصل ہے کیا۔واضح رہے کہ جو کچھ ہوا یا ہورہا ہے وہ بہر حال عوام ہی سے وابستہ مسائل ہیں ، عام آدمی ہی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن مسائل کو اگر بروقت حل نہ کیا جائے تو اس کے انجام کے خوف کی زحمت بھلا وہ لوگ کیا کریں اور کیوں کریں جو آج تو اقتدار میں ہیں لیکن کل کی کوئی ضمانت نہیں۔ ان کے لیے غالبا نفع کا سودا یہی ہے کہ وہ اپنے نامہ اعمال میں دانستہ کچھ ایسی خطائیں شامل کرتے جائیں جن کے انجام بد کے نام پر وہ کل بہ وقت ضرورت آپ سے ہمدردی کا موقع باقی رکھیں اور خواہی نہ خواہی آپ ایک بار پھر ان کے دام میں پھنس کر رہ جائیں۔ حالات کا تقاضا اگر دیکھیں تواس وقت بھارت میں مذہب اور ذات پات کے امتیازات سے کہیں زیادہ مظلوم اور آمادہ ظلم افراد کے درمیان امتیاز ضروری معلوم ہوتا ہے۔دلت ہوں یا مسلم، عیسائی ہوں یا کوئی اور طبقہ سب کے سب بے درد ہاتھوں کانشانہ بنے ہوئے ہیں۔ کہیں بھی امان نہیں ہے، نہ کوئی امان میں ہے۔ بلکہ ملک کے بعض خطوں میں تو ترقی کے نام پر ووٹنگ کا نقد انعام بھی ہاتھوں ہاتھ مل چکا ہے۔بے جان مجسموں کے ساتھ ساتھ عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ،نصابی کتابوں اور تاریخی آثار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، ملک کے دستور اساسی میں مختلف عنوانات سے ترمیم کی کوشش اور جمہوری اقدار کے تحفظ کی ضمانت سمجھے جانے والے اداروں پر تدریجا گرفت، آخر یہ سب ہو کیا رہا ہے؟اگر یہ سلسلہ تھما نہیں تو جمہوریت کا قلعہ بہت جلد پیوند خاک ہوکر رہ جائے گا۔اور عوامی آزادی کا سرمایہ کڑوروں ہاتھوں سے ایسے نکل جائیگا جس طرح مٹھی سے ریت کھسک جاتی ہے۔

بھارت کا باشندہ ہونے کی حیثیت سے ہمارا بنیادی فرض ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں ہوش کے ناخن لیں اور داخلی سلامتی کے لیے اپنے امکان کی حد تک اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں۔ مندر مسجد اور گرودوارا کی سیاست کا کوئی مفید نتیجہ کبھی نہیں نکلا ہے، آزاد بھارت کی ستر سالہ تاریخ اس کا واضح ثبوت ہے۔ مذہب سے کسے لگاؤ نہیں ہے لیکن مذہب سے وابستگی اور مذہبی جنون دو بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ اگر ہم ماضی اور حال میں نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ مذہب کا عنوان بھی اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایک زینے کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔خاکم بدہن سیاسی گلیاروں میں تو یہ چیز کبھی کبھی کہیں کہیں سکہ رائج الوقت کا مقام حاصل کر تی نظر آئی ہے لیکن جونہی قصر سلطانی میں ارباب حل وعقد کا نشیمن تعمیر ہوا تو ایک دم سے ترجیحات کا قبلہ بدل گیا اور سارے وعدے ارادے دھرے کے دھرے رہ گیے۔نہ کسانوں کو ان کی محنت کا واجب معاوضہ مل پایا نہ ہی نوجوانوں کے خوابوں کی کوئی تعبیر ڈھونڈی جاسکی۔ نہ عورتوں اور بچوں کے مسائل کا کوئی مداوا ہوا نہ ہی بزرگ افرادزندگی کے آخری ایام سکون سے گزار کر چین کی موت مر سکے۔ لے دے کہ پھر وہی بے روزگاری، مہنگائی، فتنہ، فساد، لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی۔کوئی آزاد قوم مسلسل ان حالات کا تجربہ کرکے کب تک تصویر بنی رہے گی، ایسے میں یہ سوال اس کے ذہن میں ضرورو پیدا ہوگا کہ :جن زمینی مسائل سے وہ نبرد آزاما ہے، جس بدلاؤ کی امید پر اس نے اپنی خود مختار حق رائے دہی کا اپنی دانست میں درست استعمال کیا ہے اس کا نتیجہ کہاں ہے؟کیا یہی بھارت ہم چاہتے ہیں جس میں جان مال اور آبرو کا یہ حشر ہو کہ معصوم اور کم سن بچے تک ایک مقدس مقام پر کسی خرقہ پوش کی ہوس کا نشانہ بن جائیں۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی کو کچھ بلند پرواز لوگ راتوں رات لے اڑیں۔ اور حیثیت عرفی کا حال یہ ہو کہ نچلے اور دبے کچلے لوگوں کی تو چھوڑیے، پارلیامنٹ میں موجود حزب اختلاف تک کو عزت کے لالے پڑے ہوئے ہوں۔ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناًایسا نہیں ہے تو پھر یہ سوچیے کہ پچھلے چارسالوں سے ملک کے طول وعرض میں جو حالات رونما ہوئے وہ کسی آغاز کا انجام تھے یا کسی انجام کا آغاز ہیں ؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔