پروفیسر ملک زادہ منظور احمد

محمد اویس سنبھلی

۴؍حرفی  ’’پریس‘‘ اپنے آپ میں بڑی وسعت اور ہمہ گیریت رکھتا ہے۔ لفظ ِ پریس کے آتے ہی ذہن کے پردے پر الاکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کا تصور ابھرتا ہے۔ دونوں شعبے اہم ہیں اور ان سے وابستہ افراد واشخاص کو صحافی، جرنلسٹ اور پترکار کے تمغوں سے نوازہ جاتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس پرنٹنگ پریس سے وابستہ افراد کو اتنا اہم یا قابل ذکر نہیں سمجھا جاتا لیکن میری فکر بالکل مختلف ہے۔

پرنٹنگ پریس سے وابستگی انسان کو بالغ نظر بناتی ہے۔ پریس مالکان پر تجربات و مشاہدات کا نیا جہاں منکشف ہوتا ہے جو ساری دنیا کے تجربات حاصل کرکے بھی ممکن نہیں۔ پرنٹنگ پریس کے ذریعہ ہر عمر اور رنگ و نسل کے افراد سے ملاقات ہوتی ہے۔ ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کا وہ طبقہ جو باپ اور دادا کی عمر کا ہے اُن سے بھی بار بار ملاقات ہوتی ہے۔ ملاقات کا سلسلہ دراز ہوتا ہے تو تعلق قرب اور قرب دوستی میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ عمروں کے تفاوت کا احساس بھی رفتہ رفتہ مٹ جاتا ہے۔ کچھ ایسی ہی پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کی کہانی ہے۔ بزرگوں اور دوستوں سے ان کے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا بالخصوص ماموں جان محترم حفیظ نعمانی صاحب کے ذریعہ، مگر براہِ راست ملاقات کی سعادت نصیب نہ ہوسکی تھی—– یہ سعادت نعمانی پرنٹنگ پریس کے ذریعہ ہی نصیب ہوئی۔ ادبی جریدہ ’’امکان‘‘ جس کے وہ مدیر اعلیٰ تھے بغرض اشاعت نعمانی پریس آیا تو بہت سے راز منکشف ہوئے۔ ہر ملاقات میں ایک پردا ہٹا اور ایک حقیقت سامنے آئی۔ گوکہ یہ ملاقاتیں کم ہیں مگر ان ملاقاتوں نے پروفیسر ملک زادہ منظور احمد کے قد کو میری نظروں میں بہت بلند رکردیا۔ رسالہ کی ادارت سے اشاعت تک کے سارے مراحل میں وہ پیش پیش رہتے۔ پرنٹنگ پریس سے ڈاکخانے تک جملہ کام انجام دیتے۔ شکوہ نہ شکایت، کہیں کسی مشاعرے یا کانفرنس سے لفافہ ملا اور ’’امکان‘‘ کا تازہ شمارہ شائع ہوگیا۔ جب تک حیات رہے تبھی تک ’’امکان‘‘ حیات رہا۔ اب وہ نہیں ہیں تو ’’امکان‘‘ کی اشاعت کے امکانات بھی معدوم ہیں۔ اب تو امید کی مدھم سی لَو بھی کہیں کسی سمت نظر نہیں آتی۔وہ بزرگ ضرور تھے مگر اُن کی فکر بوڑھی نہیں تھی۔ وہ علم و ادب کا آسمان تھے مگر زمین کی طرح ملتے تھے۔مکر و ریا سے کوسوں دور تھے۔اس لئے ان کی رحلت سے نہ صرف ایک عہد بلکہ  ایک فن کا بھی کا خاتمہ ہوگیا اور ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے کہ جس کے پُر کرنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ ماموں جان نے سچ لکھا ہے کہ” وہ مشاعروں کی نظامت کے موجد بھی تھے اور خاتم بھی”— اب کوئی شاگرد بنے یا مرید مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ فن انھیں پر ختم ہوا۔

مشاعرے جب سے ہوتے آئے ہیں ان میں نظامت بھی ہوتی ہی رہی ہے، لیکن شاید اردو مشاعروں کی پوری تاریخ میں ملک زادہ صاحب سے پہلے کسی نے نظامت کو وہ راہیں نہیں دکھائی تھیں جو ملک زادہ صاحب نے دکھائیں، اسی کا نتیجہ تھا کہ مشاعروں میں شعراء کون کون آرہے ہیں کے ساتھ یہ سوال بھی ہونے لگا کہ نظامت تو ملک زادہ صاحب ہی کررہے ہیں نا؟ اس حوالہ سے وہ اتنے معروف اور مشہور ہوئے کہ ان کی شاعری پیچھے رہ گئی، وہ پوری دنیا میں مشاعروں میں بلائے جاتے لیکن شاعر کی حیثیت سے کم اور ناظم مشاعرہ کی حیثیت سے زیادہ، آپ کہنے دیں تو میں کہوں کہ ان کی نظامت نے ان کی شاعری پر بہت ستم ڈھایا تھا، ورنہ وہ ایسے شاعر تھے کہ اگر وہ کامیاب ناظم مشاعرہ نہ بھی ہوتے تو بھی ان کا تعارف ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے ضرور ہوتا، ان کی حیات میں ہی نہ جانے ان کے کتنے اشعار تھے جو زباں زد خاص وعام ہوگئے تھے، یہ مشہور اشعار بھی تو ان ہی کے ہیں :

میں ایک جام ہوں کس کس کے ہونٹ تک پہنچوں

غضب کی پیاس لیے ہر بشر لگے ہے مجھے

وقت چلتا ہے اڑاتا ہوا لمحات کی گرد

پیرہن فکر کا ہر روز بدلتے رہیے

دیکھو گے تو ہر موڑ پر مل جائیں گی لاشیں

ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا

ملک زادہ صاحب کی شخصیت اور ان کے فن پر اس مجموعۂ مضامین میں بہت سے مضامین شامل ہیں، جن میں ممتاز اہل قلم نے ان کی زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی ہے، اس لیے کوئی ضرورت نہیں کہ میں بھی ان موضوعات پر گفتگو کروں، ویسے بھی ’’عرض ناشر ‘‘میں اتنی گنجائش کہاں ہوتی ہے؟ لیکن ہاں ایک ملاقات میں انہوں نے ایک واقعہ سنایا، جس کا تعلق نانا جان مولانا منظور نعمانیؒ سے تھا، یہ واقعہ انہوں نے اپنی کتاب ’رقص شرر‘ میں بھی تحریر کیا ہے، پس وہیں سے نقل کیا جاتا ہے:

’’۔۔۔۔۔لکھنؤ میں جن شخصیتوں سے مولانا (کوثر نیازی) میرے ہمراہ ملے ان میں عبدالقوی دریابادی اور مدیر’’صدق جدید‘‘ سے مولانا کی ملاقات موصوف کے مطب میں ہوئی۔۔۔۔۔۔ مولانا محمدمنظور نعمانی کے مکان پر بھی مولانا میرے ہمراہ گئے۔ نعمانی صاحب اس وقت بے حد علیل تھے۔ ان کے صاحب زادے حفیظ نعمانی سے میری ملاقات پہلے سے تھی۔ ہم انھیں کے ہمراہ مولانا سے ملنے گئے۔ اس ملاقات میں ایک واقعہ لطف دے گیا۔چائے آئی، مولانا نیازی نے چائے کی بے حد تعریف کی اور نعمانی صاحب سے دریافت کیا کہ عموماً مذہبی اور دینی اداروں میں یا علماء کرام کے گھروں پر جو چائے ملتی ہے وہ بے حد نفیس ہوتی ہے، آخر اس کی کیا وجہ ہے۔ مولانا منظور نعمانی نے ایک زیر لب بلیغ سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ’’بیچارے ایک ہی چیز تو پیتے ہیں اب کیا اس کو بھی خراب کرکے پئیں۔ ‘‘ پوری محفل قہقہ زار بن گئی۔ کچھ دیر کی گفتگو کے بعد ہم لوگ وہاں سے رخصت ہوگئے۔(’’رقص شرر‘‘صفحہ۳۷۸)

ملک زادہ منظور احمد صاحب اردو زبان کے عاشق تھے۔ انہوں نے نہ صرف اپنی نظامت سے مشاعروں کو وقار بخشا بلکہ اترپردیش میں اردو کو اس کا آئینی حق دلانے کے لئے اردو رابطہ کمیٹی کے بینر تلے ریاست گیر تحریک چلائی۔’’رقص شرر‘‘ اردو زبان کے حقوق کی سرگرمیوں اور اس کے لیے جاری جدوجہد کی ایک پوری داستان ہے۔ اس میں اپنوں کی کوتاہیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی سطح پر اردو زبان کے ساتھ جاری تعصب کو بھی بیان کیا گیا ہے نیز بڑی بے تکلفی کے ساتھ اپنی سرگزشت ہائے حیات کوقلم بند کیا ہے جسے پڑھ کر قاری کا ذوقِ وجدان جھوم اٹھتا ہے۔ اس میں ملک زادہ صاحب نے نہایت دیانتداری کے ساتھ اپنی زندگی کے تمام واقعات ولمحات قلم بند کردیئے ہیں۔

ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد کو شاعری اور نثر دونوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ جن لفظیات کا استعمال تقاریر میں کرتے تھے وہی لفظیات ان کی شاعری میں بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ وہ زبان وقلم دنوں کے دھنی تھے۔ ’’شہر سخن‘‘، ’’ مولاناابوالکلام آزاد فکر و فن‘‘، ’’رقص شرر‘‘، ’’شہر ادب‘‘ اور مجموعۂ غزلیات’’شہرستم‘‘ ان کی یاد دلاتے رہیں گے  ؎

فنا کے بعد بھی دنیا نہ بھولے گی تجھے روشن

ترا ذکر جنوں ہوتا رہے گا کو بہ کو برسوں

تبصرے بند ہیں۔