اویسی صاحب کی خدمت میں چند گزارشات

ابو زنیرہ

راقم کو اس بات کا پوری طرح احساس ھے کہ اویسی برادران کو مشورے دینا چھوٹا منھ بڑی بات ھوگی۔لیکن حالیہ انتخابات نے اور ھندوستان کے بدلتے حالات نے راقم کو اپنے احساسات کو تحریر کرنے کی ھمت دی۔

اویسی برادران سیاست کو ھم سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ بچپن ھی سے گھر میں سیاسی ماحول دیکھا ھے والد اور دادا دونوں کامیاب سیاست داں تھے۔
لیکن چند باتیں ہیں لگتا ھے جسے اویسی برادران مسلسل نظر انداز کررہے ہیں اور جس کا سیدھا اثر ھندوستان میں مسلم سیاست پر ھورہا ھے۔اس وقت اویسی صاحب ھندوستان میں مسلمانوں کی آواز مانے جاتے ہیں اور مسلمانوں آپکی طرز سیاست سے اختلاف رکھنے والے بھی آپکے بیباکانہ بیانات اور تبصروں کے عاشق ہیں رہی آپکی عوامی مقبولیت تو اسکا اندازہ سوشل مڈیا پر آپکی فولوینگ اور عوامی جلسوں میں لوگوں کے جم غفیر کو دیکھ کر ہی لگایا جاسکتاہے۔اسی لیے آپکے ذریعے لیےگئےغلط فیصلوں کے اثرات پوری ملت پر ھوگا۔

“خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے“

اویسی صاحب آپکو یہ طئے کرنا ہوگا کے آپکی منزل کیا ھے کیا آپ ملت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اپنی قوم کا وقاربحال کرنا چاہتے ہیں یا اپنی جماعت کو نیشنل پارٹی بنانا چاہتے ہو۔ اگر آپ اسی نیشنل پارٹی بنانا چاھتے ہو تو یہ ممکن نہیں ھے کیونکہ ھندوستان کی ہر ریاست کی اپنی ایک سیاست ھے اور اس سیاست کو وہاں کے مقامی لوگ ہی بہتر سمجھتے ہیں۔کئ علاقوں میں مسلمانوں کی اتنی نمائیندگی ہی نہیں کے آپکو وہاں کوئ کامیابی ملے۔
اویسی صاحب آج ملت ہند آپ سے قربانی چاہتی ھے ہم یہ بات اچہھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کام کسی بھی سیاست دان کے لیے آسان نہیں ھوتا اور جبکہ وہ اپنے عروج پر ہو۔لیکن جن حالات میں یہ ملت اس وقت کھڑی ھے سب کی نظریں آپ پر ٹکیں ھے کہ آپ کی ٹھوڑیسی قربانی بکھرتی ھوئ ملت کے لئے تنکے کا سہارا ھوگا۔

اللہ نے آپ بھائیوں کو بولنے کی صلاھیت سے نوازا ھے اس صلاحیت کو مفاد امت کع لئے استعمال کیجئے ۔آپ خود کو انھیں علاقوں میں محدود رکھیں جھاں آپکی پکڑ دوسری مسلم پارٹیوں سے زیادہ مضبوط ہو۔جن علاقوں میں اگر کوئ اور مسلم پارٹی موجود ہو تو آپ انکی حمایت کریں ۔اپنی شعلہ بیانی انکی کامیابی کے لئے استعمال کریں ۔

آج ہندوستان میں کئی ایسے لیڈر اور جماعتیں ہیں جن کا ایک دوسرے سے شدید فکری اختلاف ھے لیکن وہ لوگ کئی جگہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے نظر آتیں ہیں۔لالو پرساد یوپی اور مہاراشٹرا میں کانگریس کی حمایت میں اترتے ہٰیں یہی حال لفٹ پارٹیوں کا بھی ھے کہیں جگہ یہ لوگ کانگریس کی حمایت کرتے ہیں لیکن انکا فکری اختلاف اپنی جگہ قائم رہتا ھے۔پھر تمام مسلم سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کی مدد پر آمدہ کیوں نہیں ہوسکتی۔وجہ تو بس ایک ہی نظر آتی ھے اور وہ ھے انا۔

اویسی صاحب کچھ ایسی سیاسی تدبیر اختیار کیجیئے کے تمام مسم سیاسی پارٹیاں ایک ساتھ آکر کام کریں۔
مثلا

1)  کرناٹک میں ایس ڈی پی آئی اور پوپلر فرنٹ کی آپ حمایت کریں۔

2) یوپی میں پیس پارٹی آور راشٹریہ علماؤ کونسل کی۔

3) کیرلا میں مسلم لیگ کی ۔

4) دہلی اور بہار میں وئیلفر پارٹی کی ۔

5)  آسام میں بدرالدین اجمل صاحب کی۔

(اسطرح ان تمام پارٹیوں کو چاہیے کہ جن علاقوں میں ایم آئ ایم ایلیکشن لڑیں ان علاقوں میں یہ تمام پارٹیاں ایم آئ ایم کی حمایت کرے۔) ممکن ہو یہ اتحاد مسلمانان ہند کے بہترین مستقبل کا آغاز ہو۔

اویسی صاحب ہماری اصل جنگ تو آر ایس ایس کے ساتھ ھے اور اسکو صرف شعلہ بیانی سے نہیں ہارایا جاسکتا۔اسکے لیئے مظبوط سیاسی بصیرت کے ساتھ ساتھ صبر اور تحمل کی ضرورت ھے ۔آپ ایک ایسی جماعت سے نبردآزما ہو جس کی سیاسی ونگ دو سیٹوں سے سفر شروع کرتی ھے اور ساٹھ سال کے صبر کے بعد مکمل طور پر ایوان پر غالب آجاتی ھے۔اور ہم عجلت کے مارے چاہتے ہیں کے دو تین الیککشن میں نتیجئے ہمارے حق میں ھو۔ اویسی صاحب یہ چند گزرشات تھیں جسے آپکی خدمت میں پیش کردیا گیا کہ ممکن ہوتیرے دل میں اترجائےمیری بات۔
“میری آنکھ منتظر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی اور صبح نو کی“

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔