اُمیدِ وفا

ایم شفیع میر

دل میں ہزار تمنائوں کے خواب لئے آفاق اپنی معصوم سی زندگی اپنی پانچ بہنوں اور اپنے بڑے بھائی کی پرورش میں گزار رہا تھا ۔سب کا اکلوتا اور اپنے بھائی کا چھوٹا عزیز و رفیق آفاق کی حالت روتے روتے خراب ہو گئی تھی، اُکھڑے بال،سوجی آنکھیں ،سوگوار چہرہ اور ملگجا سا شکن آلود لباس۔اُس کے آنسو رمیز کو اپنے دل پر گرتے محسوس ہو رہے تھے۔اس نے بے دردی سے اپنی لال لال آنکھوں کو رگڑا اور جی کڑا کر کے بولا ’’بھائی‘‘ …بھائی !!رمیز چونک گیااور اپنے بھائی آفاق جسے وہ دل کا ٹکڑا کہہ کر پکارتا تھا کو بانہوں میں لیا اور اسے چوم چوم کر پیار کر نے لگا ۔ لیکن بچے کی یہ فطرت ہوتی ہے کہ جب بچہ روتا ہے تو اُس دوران اگر بچے کو پیار کیا جائے یا اُسے تسلیاں دی جائیں تاکہ بچہ خاموش ہو جائے لیکن بچہ اور بھی زیادہ چیخ چیخ کر رونے لگتا ہے ۔

آفاق اپنے بھائی سے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن لگاتار ہچکیاں اس لفظ کو اظہار ہونے سے رو ک رہی تھیں اور رمیز اسے بانہوں میں لئے بار بار کہتا کے اے میرے پیارے اور عزیز بھائی بول بول آپ کو کس نے مارا کون ہے وہ جس نے آپ کو رُولایا ۔آخر کار آفاق کی ہچکیاں جب کچھ قدرے تھم گئیں تو آفاق نے فوراً اپنے پیارے بھائی رمیز جسے وہ اپنے باپ سے بھی زیادہ پیار کرتا تھا سے کہا ……بابابابا،،، بھائی جان! ماں جی نے مجھے ڈانٹا … اُف! کتنی امید ٹکائی رکھیں تھیں آفاق نے اپنے بھائی رمیز سے وہ ماں جو اپنے اولاد کیلئے کیا کچھ نہیں کرتی ہیں جس کے قدموں تلے جنت ہے۔اُسی ماں کے ڈانٹنے کی شکایت لیکر آفاق اپنے بھائی رمیز کے پاس جا پہنچا۔ لیکن ماں کا دل کتنا وسیع ہو تا ہے ،اسی دوران ماں بھی اُن دونوں بھائیوں کی آپسی گتھم گتھی میں شامل ہو گئی آفاق کی  اپنے بھائی رمیز کے پاس یہ شکایت لیجانے پر ماں نے مسکرایا اور بیتاب چہرہ لئے آفاق کو نظروں نظروں سے پیار کرنے لگی ۔چند دنوں میں کتنا بڑا ہو گیا تھا آفاق …… ماں جی ! کی ڈانٹ سن کر سہم جانے والا آفاق اب ماں کی ڈانٹ ڈپٹ کی شکایت اپنے بھائی رمیز کے پاس پیش کرتا تھا اور رمیز اسے تسلیاں دیتا تھا۔

 ایک دن ایسا بھی آیا کہ پیار کے اس سنہرے دور نے مایوسیوں کی جانب رُخ کیا۔رمیز کا پیار آفاق کے تئیں کم ہوتا گیا، آفاق دنیا کی بھیڑ میں آئے روز اکیلا ہوتا چلا گیا ، معصوم سی زندگی میں مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ، پانچویں جماعت کا طالب علم تھا کہ اُس کے سر سے باپ کا سایہ اُٹھ گیا ،اب آفاق کی معصوم زندگی جو کمسنی اور نادانی میں گزر رہی تھی اسی کمسن زندگی کا ایک ایک پل اللہ رب العزت کی آزمائشوں میں بٹ گیا لیکن آفاق کو اس سب کی کوئی پرواہ نہیں تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اُس کا بھائی جسے وہ اپنے والد کی طرح سمجھتا تھا اس نازک موڑ میں اُسے تنہا نہیں چھوڑے گا ۔آفاق کو یقین تھا کہ رمیز اُسے باپ کی کمی محسوس ہونے نہیں دے گا ۔یوں تو والد کے انتقال کے وقت حسب دستور دعویداروں نے ڈھارس بندھائی جو اکثر رسم و رواج کے طور ہوا کرتا ہے لیکن کبھی کبھار ماضی کے رسم رواج زندگی کا چین و سکون چھین لیتی ہیں ، رسم رواج کی یہ جھوٹی تسلیاں انسان کو زندگی کے اصل مقام سے آگاہ نہ ہونے کا سبب بنتی ہیں ۔لیکن رسم و رواج کی اس بھیڑ میں بھی آفاق کو اگر حقیقی معنوں میں بھروسے کی کوئی کرن دکھائی دے رہی تھی تو وہ رمیز کا پیار تھا جس نے ناپ ناپ آفاق کی زندگی کو سنوارا تھا ۔

 لیکن وقت کی دہارا پلٹ گئی ، اب رمیز ماضی کا رمیز نہیں رہا تھا ،حالات نے اُ سکے پیا رکو نفرت میں بدل ڈالا تھا ۔رمیز جو آفاق کے بغیر ایک پل بھی گزارنا محال سمجھتا تھا اب یہ پیار کے اس عظیم رشتے کو سمجھنے کے بجائے اپنے گھر کو سمجھتا تھا ۔گھر کی فکر میں اس قدر مشغول ہو ا کہ اپنے معصوم بھائی کو مصیبتوں کا یہ موجیں مارتا دریا پار کرنے کیلئے اکیلا چھوڑ دیا۔پانچ برس گزر گئے آفاق کی حالت دن بدن ابتر ہو جا رہی تھی ،وہ دن بھر گلی کوچوں میں بھٹکتے پھرتے شام کو اپنے بے آس جھونپڑے میں آجاتا ۔ ماں اُسے کہتی آفاق دن بدن دربدر کیوں پھرتا رہتا ہے کوئی کام دھندہ کرو گے بھی یا کہ اسی طرح دربدر پھرتے رہوگے؟؟کل سے کوئی کام کرو، اس طرح اپنی زندگی کو برباد مت کرو ،لوگ تمہاری آوارگی کے قصے سناتے ہیں تم ہوکہ ٹس سے مس نہیں ۔میں جانتی ہوں کہ تمہاری زندگی میں قدم قدم پر مصیبتوں کا پہرہ لگا ہوا ہے لیکن اس طرح مصیبتوں سے منہ نہ چھپائو، دل کھول کر جوانمردی سے مصیبتوں کا مقابلہ کر و ،جب وہ وقت نہیں رہا تو یہ وقت بھی ٹل جائیگا۔آپ ہمت سے کام لو میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں ایک نہ ایک دن ضرور تمہاری زندگی میں بہار آئیگی۔آپ کامیابی کی منزل کو ضرور چھوئو گے آج لوگ تمہاری آوارگی کے قصے سناتے ہیں کل یہی لوگ تمہاری شہرت کے گن گائیں گے۔

 ماں جی! کے لگاتار اس نصیحت آمیز بھاشن کو سن سن کر آفاق نے ایک گہری سانس لی اور گلے میں پھنسی سوکھی روٹی کے ٹکڑے کو نگلتے ہوئے بولا……ماں !!…… بھائی جان کی بے رخی کا غم مت کرو وہ ضرور میری اس لاوارث زندگی کو ایک صحیح مقام پر لا کے کھڑا کر دے گا ،آخر وہ کتنا پیار کرتا تھا مجھ سے ،کیا وہ یہ سب بھول پائے گا؟؟وہ کبھی بھی ہم سے الگ نہیں ہوسکتا ،کچھ ہی دنوں کا تقاضا ہے ،دیکھنا اب اُسے میری یاد ستائے گی تو وہ ضرور میری معصوم زندگی کو مقام بخشنے کی کوشش کرے گا۔……ماں جی!! ماں جی!! کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ رمیز بھائی نے آخری سانسوں میں بھی ابا جان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ میں آفاق کی پڑھائی کو جاری رکھوں گا اور اسے ایک تعلیم یافتہ انسان بنائوں گا تاکہ دنیا ہمارے بھائی بھائی ہونے کی مثالیں پیش کریگا۔……اباجان! نے تو رمیز بھائی سے یہ بھی کہا تھا کہ آفاق کو اپنے سے الگ نہ کرنا یہ نادان ہے اس لئے آفاق کو میرے نا ہونے کا احساس نہ ہو یہ آپ کی ذمہ داری ہے ۔کیا رمیز بھائی ابا جان کی اس آخر ی نصیحت اور کئے گئے وعدے کو یونہی بھول جائیں گے؟؟آفاق کا اپنی ماں سے سوالوں کا یہ سلسلہ تھم گیا اور ماں نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے آفاق سے کہا … بیٹا…!!جب سر پر سے سائبان چھن جاتا ہے تو سگے بھی سوتیلے ہو جاتے ہیں ۔۔ اپنے بھی پرائے ہو جاتے ہیں پھر ان عارضی سہاروں کا کرنا بھی کیا ہے جو موسم کی طرح بدلنے میں دیر نہیں لگاتے ……اور وہ ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی آج اسے ایک ایک بات یاد آرہی تھی۔کیونکہ آج رمیز نے ماں سے کہہ دیا تھا کہ اب میں آپ کی خدمت نہیں کر پائوں گا!میرے اپنے بیوی بچے ہیں میں کب تک آپ کو کھلاتا پلاتا رہوں گا ۔آفاق سے کہہ دو کوئی کام دھندہ کرے مجھ پر نظر نہ رکھے ،آپ لوگوں کو بیٹھ بیٹھ کر کھلانا پلانا اب میرے بس میں نہیں ۔ماں جی کو معلوم ہو چکا تھا کہ رمیز اب اُن کو فضول بوجھ، ناکارہ وجود،خوامخواہ کی زمہ داری اورنہ جانے کیا کیا سمجھ رہا تھا ۔چھٹکارا پانے کیلئے رمیزکبھی اپنے کو یہ کہہ کوستاکہ یہ ذمہ داری لی ہی کیوں تھی ؟ تو کبھی انہیں دانا پانی بند کرنے کی دھمکیاں دیتا تھا ۔کبھی زیادہ جلال میں ہوتا تو مرحوم باپ کو طعنے دینے لگتا۔

 بیچارہ آفاق تو محبت کی تلاش میں تھا لیکن رمیز کا رویہ دیکھ کر خودہی دور ہو گیا۔اتنا خوش مزاج اور خوشیوں کے جھولنے والا آفاق اب گم سم رہنے لگا۔مگر نہ جانے کیوں جب اپنے دوستوں کے ساتھ مل جاتا تو محلہ کے معزز لوگ بھی اُسے کام چور ،بیروزگار اور نکما کہہ کر اُس کے خود ساختہ زخموں پر نمک چھڑک جاتے تو آفاق کومعصوم اور کمسن وجود اپنی ہستی بستی زندگی میں کانٹے کی طرح کا لگنے لگتا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ اتنی خوشحال زندگی اُن لوگوں کی بھی نہیں ہے جو اکثر اس پر طعنے کستے رہتے تھے ۔مگر اس کی خود ترسی نے اُسے شیر بنا دیا ۔آفاق نے ہار نہ مانی اور فکر ِ روزگار میں چل پڑا چند ہی دنوں کے بعد آفاق کو ایک نجی کلینک میں جاب مل گئی ،قلیل سی اُجرت ملنے لگی لیکن آفاق نے حامی بھر لی اور اس قلیل سی اُجرت میں کلینک پر کام کرنے لگا۔اب آفاق اپنے گھر کا سارا خرچہ اس اجرت سے پورا کرلیتا تھا۔قسمت کا تارہ چمکا اٹھا کہ آفاق کی سرکاری نوکری لگ گئی،نوکری کی یہ خبر لیکر آفاق فورا ً اپنی ماں کی بانہوں میں آ گرا اور ماں سے ماتھا چومنے کی مانگ کی ماں نے کہا آفاق آج تو اتنا خوش کیوں ہے ذرا مجھ بھی بتا دو ، آفاق نے ماں سے کہا ماں جی اب مصیبتوں سے ہمیں چھٹکارا ملے گا اور آپ کو بہت آرام ، بیٹا وہ کیسے……ماں جی!!

میری سرکار ی جاب لگ گئی اب میں ملازم ہو گیا۔ ماں نے یہ خوش خبری سنی اور آفاق کو اپنی بانہوں میں لیکر پیا رکرنے لگی اور اسی دوران ماں کی آنکھوں سے آنسوئوں کی برسات ہونے لگی ، آفاق نے ماں جی کے آنسو پونچھتے ہوئے ماں سے کہا کہ ماں …!! آپ رو کیوں رہی ہوماں نے کہا بیٹا آفاق یہ آنسوں خوشی کے ہیں ۔اب فوراً جا ئو اور اپنے بھائی رمیز کو یہ خوشخبری سنا ئو اور اُس کی دعائیں لے لو۔آفاق غصے سے لال ہو گیا اور ماں جی سے انکار کر دیا کہ رمیز بھائی جس نے مجھے آدھے رستے میں تنہا اپنے حال پہ چھوڑا تھا اس کے پاس جانے کو کہہ رہے ہو وہ میرا سگا بھائی نہیں سوتیلا ہے ۔ماں جی نے آفاق سے فوراً کہا کہ خبردار اگر دوبارہ ایسا لفظ منہ سے نکالا… رشتے سگے یا سوتیلے نہیں ہوتے بلکہ انسان کا رویہ انھیں قریب یا دور لاتا ہے-

تبصرے بند ہیں۔