اِقلیمِ سُخن کی ملکہ: لتا حیاؔ

محمد عبدالسمیع

  (پربھنی)

کسی اندرونی اُ کسا ہٹ کے نتیجہ میں ہونے والی ذہنی تبد یلی کو فکری انقلاب کہئے یا کوئی اور نام دیجئے حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک داخلی عمل ہے جسے قلبِ ما ہیت کہا جاتا ہے اور یہ اُس وقت ہوتا ہے جب ذہنِ انسانی انتشارِ فکری سے پاک ہوکر اصا بتِ فکر اختیار کرے۔ بے شک اس طرح کے فکری تغیرات اور ذہنی تبدیلیاں حیرت انگیز کارناموں کی مئوجب ہوتی ہیں۔ شاعری ان ہی دل گداز تبدیلیوں اور جاں گداز مرحلوں سے گزرنے کا نام ہے۔ ایک اچھی فکر، ایک عمدہ خیال جب شعری پیکر میں ڈھل جائے تو یہ روح تک کو سرمست و سر شار کردیتا ہے۔ اس پس منظر میں جب ہم معروف شاعرہ لتا حیاؔ کے کلام پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک ایسی ہی سر شاری ہمارا مقدر ہوتی ہے اور ہم فکر و خیال کے بحر بے پایاں میں گویا ڈوب جاتے ہیں۔

بات کاملین کی نہیں ایک ایسی شاعرہ کی ہے جو عروض کے بغیر شعر کہتی ہو اور اس پایہ کے شعر کہتی ہو کہ منہ سے بس واہ نکل جائے تو اسے محض عطائے خداوندی ہی کہا جا سکتا ہے۔

دُنیا کے تمام اہلِ نظر اس نظریہ میں ہم نوا اور متفق ہیں کہ ذوقِ شعری عطیئہ قدرت و فطرت ہے جس کو اکتساب سے بغیر لگائو اور فطری رجحان کے حاصل کرنا امرِ محال ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ’’لگا رہاہوں مضامین نو کے پھر انبار‘‘ کے مصداق لتا حیاؔ تسلسل و تواتر سے شعر کہتی آرہی ہیں، وہ گذشتہ رُبع صدی سے اس دشت کی سیاحی کررہی ہیں اور اس صحرا نوردی میں آبلہ پا بھی ہوئیں مگر اُن کی یہی آشفتہ سری اُن کی کامیابی و کامرانی کی ضامن بن گئی اور وہ یکتا و بے ہمتہ شاعرہ تسلیم کرلی گئیں۔

تو کیا یہ سب کسی تلمذ کے بغیر ممکن ہوا ؟  ہرگز نہیں !  میر تقی میرؔ ایک بڑے شاعر تھے جو خدائے سُخن کہلاتے تھے۔ لتا حیاؔ نے وجدانی طور پر انھیں اپنا روحانی اُستاد تسلیم کر لیا تھا اور اُن کے کلام بلاغتِ نظام سے فیض اُٹھاتی رہیں اور نہ صرف شاعری بلکہ زبان و بیان میں بھی وہ اُن کا تتبعُ کرتی رہیں۔

’’بھوت کا بھئے‘‘  اُن کا پہلا منظوم واقعہ ہے جو اسکول کے سالانہ مجلّہ میں شائع ہوا تھا اور جس سے اُن کی شاعری کی ابتداء ہوئی تھی۔ انھوں نے حضرتِ میرؔ کے آگے زانوے تلمذ کیا تہہ کیا کہ اوج و ارتقاء کے تمام آفاق اُن پر روشن ہوگئے، کیا فلم، کیا ٹی وی وہ اِن تابندہ جہانوں کی ثُریا ہو گیئں۔ اُن کا پہلا ٹی وی سیریل ’’آسمان ‘‘  تھا اس کے بعد ٹیپو سلطان، الف لیلیٰ اور کسک سے وہ معروف و مقبول ہوئیں اور پھر ای ٹی وی کے’’سویرا ‘‘  سیریل نے انھیں اقلیمِ سُخن کی ملکہ بنادیا۔

شاعری کی دنیا میں انھیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہندوستان کے تمام کُل ہند مشاعروں کے علاوہ پاکستان، امریکہ، کویت اور دوبئی کے عالمی مشاعروں میں بھی اُن کی شرکت باعثِ صد افتخار سمجھی جاتی ہے اور اس فقیدالمثال شہرت کا سبب اُن کی مشہورِ زمانہ نظم  ’’تجھے نئی صدی کا سلام اُردو ‘‘ہے۔ اس مقبول خاص و عام نظم کے ذریعہ اُنھوں نے اُردو زبان کی جن لطافتوں اور نزاکتوں کا ذِکر کیا ہے انھیں سُن کر اور پڑھ کر روح سرمست و سرشار ہوجاتی ہے۔ نظم کا پہلا بند ہے؎

صبح  کا   پہلا   پیام   اُردو

ڈھلتی ہوئی سی جیسے  شام اُردو

اُترے جوتارے وہی بام ا ُردو

بڑی  کمسن   گلفام   اُردو

تبصرے بند ہیں۔