آئین کا بدلنا ناممکن کیوں؟

مبین احمد جامعی

(اہرولی، امبیڈکرنگر، یو پی)

آئین ہند میں اقتصادی خستہ حالی کی بنیاد پرریزرویشن کا اہتمام نہیں ہے لہٰذاجنوری 2019میں 124ویں آئینی ترمیم بل کے ذریعے آرٹیکل 16-15کو تبدیل کیا گیا ہے۔ مودی حکومت نے آرٹیکل 15میں میں ایک شق ’معاشی طور پر کمزورشہریوں کے تمام صیغوں کی ترقی کے لیے خصوصی اہتمام ‘کا اضافہ کیا جس کے تحت (بلاتفریق مذہب )اقتصادی طور پرکمزور عام زمرے (جنرل) کو10فیصد ریزرویشن دیا گیا۔ بادی النظر میں یہ آئینی ترمیمی بل سپریم کورٹ کے اندرا ساہنی مقدمہ 1992کے فیصلے کو نظر انداز کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریزرویشن کی حد 50فیصد ہے۔ او بی سی کو 27، ایس سی کو 15اور ایس ٹی کو 7.5فیصد ریزرویشن ہے یعنی مجموعی طور پر 49.5ریزرویشن دیا جا چکا ہے جبکہ معذوروں کے لیے الگ سے ریزرویشن کا اہتمام ہے۔ مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے مطالبہ کیا تھا کہ 124ویں آئینی ترمیمی بل کوشیڈول9 میں ڈال دیا جائے تاکہ عدلیہ اس پر نظر ثانی (Review )نہ کر سکے۔ شیڈول9 کیا ہے ؟اور آئین میں اس کا وجود کب ہوا؟ کیا سپریم کورٹ آئینی ترمیم کو غیرآئینی قرار دے سکتا ہے؟

دوسری جانب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آرایس ایس)اور بی جے پی دن کے اجالے میں وطن عزیز ہندوستان کو ہندو راشٹربنانے کا خواب دیکھتے دیکھتے کھلے عام بڑبڑکرتے ہیں کہ ہم آئین بدل کر اپنی پسند کا ’ہندوستھان ‘بنائیں گے۔ اور ’جو ہاتھ ہندو لڑکیوں کو چھوئے گا اسے کاٹ ڈالیں گے‘ جیسے بیان دینے والے مرکزی وزیر بی جے پی کے رہنما اننت کمارہیگڑے کہتے ہیں کہ ہم پارلیمنٹ میں آئین ہی تو بدلنے آئے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟

15اگست 1947 کو آزاد ہونے کے بعد دوسال 11ماہ اور 18 دن میں آئین کی تکمیل ہوئی۔ 26جنوری 1950کو ہندوستان نے خود کو ایک سیکولر، عوامی اور جمہوری ملک ہونے کا اعلان کیا۔

آئین میں مذکور رہنما ہدایات (Directive Principles of State Polecy) لازمی طور پر نافذالعمل تو نہیں لیکن تمام حکومتوں کو ’رہنما ہدایات‘ کی روشنی میں کام کرنا ہے۔ ’رہنما ہدایات‘ کی آرٹیکل 38اور  39Bکے مطابق حکومت ہند کا فریضہ ہے کہ وہ تمام شہریوں کی فلاح و بہبوداور   معیشت میں ان کی یکساں حصہ داری کو یقینی بنائے تاکہ معیشت چند ہاتھوں میں سمٹ کر نہ رہ جائے اور عدم مساوات کم سے کم ہو بلکہ ختم ہو جائے۔

آزادی سے قبل زیادہ سے زیادہ محصولات وصولی کے لیے انگریزوں نے مختلف طریقے اپنائے جن کی وجہ سے چند زمینداروں کے پاس پانچ پانچ سو اور ہزار ہزار ایکڑ زمینیں اکٹھا ہو گئیں۔ ’ رہنما ہدایات‘کے آرٹیکل 38اور 39B کے مطابق حکومت کایہ فریضہ تھا کہ وہ ’لینڈ ریفارم‘ لائے۔ 1950میں ’زمینداری کاخاتمہ ایکٹ(Zamindari Abolition Act) لایاگیا۔ اس قانون کے تحت زمیندار وں کو محض 20ایکڑ زمین دے کر باقی ماندہ زمین کو مستحق ضرورتمندوں میں تقسیم کرنا تھا۔

جب زمینداروں سے ان کی زمینیں چھینی جانے لگیں تو انہوں نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور کہا کہ یہ قانون ہمارے بنیادی حقوق کو سلب کرتا ہے۔

واضح رہے کہ اس وقت تک (Right to Property) حق جائداد بنیادی حقوق میں شامل تھا۔ آرٹیکل 13کے مطابق ہر وہ قانون غیر آئینی ہوگا جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو اور ان کی خلاف ورزی کرتا ہو۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ’ زمینداری کاخاتمہ ایکٹ ‘کو غیر آئینی قراردے دیا اور کہا کہ حکومت کو زمینداروں سے زمین چھیننے کا کوئی حق نہیں۔ حق جائداد ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔

بہرکیف! حکومت ہند کو زمینداری کا خاتمہ کرنا تھا اور سپریم کورٹ’ زمینداری کا خاتمہ ایکٹ ‘کو غیر آئینی قراردے دیا تھا۔ ایسے میں اس نے طریقہ ڈھونڈا۔ اس نے سنہ1951میں آئین میں ترمیم کردی۔ یہ پہلی آئینی ترمیم تھی۔اولیں آئینی ترمیم 1951شیڈول 9اور آرٹیکل 31B کا اضافہ کیا گیا۔آرٹیکل 31B کے مطابق جو ایکٹ شیڈول9میں رکھے جائیں گے انھیں سپریم کورٹReviwe(نظر ثانی) اور غیر آئینی قرار نہیں دے سکتا۔

سپریم کورٹ نے 2015 میں قومی عدالتی تقرری کمیشن( او این جی سی) کو غیر آئینی قرار دیا تھا جو آئینی ترمیم بل کے ذریعے لایا گیاتھا۔ آئی آر کوہلوبنام ریاست تمل ناڈو کے فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ شیڈول 9میں ڈالے گئے قانون اور آئینی ترمیم پر نظر ثانی (Review )کر سکتا ہے کہ وہ آئین کے بنیاسی ڈھانچے کے خلاف ہے نہیں۔

شنکرپرساد سنگھ دیو بنام حکومت ہند1952، سجن سنگھ بنام صوبہ راجستھان1955

حکومت نے زمینداری کا خاتمہ ایکٹ کو شیڈول9میں ڈال دیا۔ پورے ملک میں زمینداری کے خاتمے کی سرگرمیاں زور پکڑنے لگیں۔

 پہلی آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ ایسے میں دو مقدمے شنکرپرساد سنگھ دیو بنام حکومت ہند1952اور سجن سنگھ بنام صوبہ راجستھان1955سامنے آئے جن میں عرضی گزاروں نے سپریم کورٹ میں کہا کہ حکومت آئین میں ترمیم کرکے بنیادی حق نہیں چھین سکتی کیونکہ آرٹیکل13میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہر وہ قانون غیر آئینی ہے جو بنیادی حقوق سے ٹکرائے۔ انہوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ اولین آئینی ترمیم کو غیر آئینی قرار دے۔

ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کا قد کافی اونچا تھا۔ وہ صف اول کے آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے صف افراد میں سے ایک تھے۔ زمینداری کے خاتمے کا مسئلہ عوام کے دلوں سے بے حد قریب تھا۔

سپریم کورٹ ان مقدمات کا تصفیہ کرتے وقت لفظ پر کھیل گیا۔ اس نے کہا کہ آرٹیکل13 میں Any Law تحریر ہے نہ کہ  Any Amendmend۔ گویا سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کو آئینی ترمیم سے بنیادی حقوق سلب کرنے کا اختیار دے دیا۔سنہ 1964میں وزیر اعظم نہرو کی موت ہو گئی۔ رفتہ رفتہ سپریم کورٹ بھی بدل گیا۔

گولک ناتھ بنام ریاست پنجاب1967

1967سے قبل اسی نوعیت کا ایک اور مقدمہ سامنے آیا۔ پنجاب میں دوبھائی ہینری گولک ناتھ اور ولیم گولک ناتھ کے پاس500ایکڑ زمین تھی۔ Punjab Security and Land Tenureقانون کے مطابق20ایکڑ چھوڑ کر باقی ماندہ زمین تحویل لے لی گئی۔ دونوں بھائیوں نے سپریم کورٹ دروازہ کھٹکھٹایا اور عرضی میں کہا کہ یہ کاروائی آرٹیکل14 (حق مساوات)، آرٹیکل 19(آزادی)اور آرٹیکل 31(پیشے کے حق) کے خلاف ہے۔ اس کاروائی نے ہمیں کئی بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔

دوسری جانب پنجاب کی ریاستی حکومت نے دلیل دی کہ جس قانون ے تحت ان کی زمین تحویل میں لی گئی ہے وہ شیڈول 9میں آتا ہے۔

ٓٓاب آزادی کو 20برس ہو چکے تھے اور نہرو دنیا میں نہیں تھے۔ اس مقدمے کی شنوائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم دوبارہ جانچ پرکھ کریں گے کہ آیا پارلیمنٹ آئینی ترمیم سے بنیادی حقوق سلب کر سکتی ہے یا نہیں ؟

 سپریم کورٹ نے گولک ناتھ بنام ریاست پنجاب 1967 کے مقدمے میں فیصلہ سنایاکہ آئین کو اس طرح سے ترمیم نہیں کیا جاسکتا کہ شہری بنیادی حقوق سے محروم ہوجائے۔ گویاسپریم کورٹ نے اپنے ہی سابقہ فیصلے سے پلٹ گیا۔

اندرا گاندھی اور سپریم کورٹ

وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے سے قبل کانگریس کے اندراندراگاندھی نے شدید مخالفتوں کا سامنا کیا تھا لہٰذا انہوں نے کچھ سوشلسٹ طریقۂ کار کو اختیار کیا تاکہ عوام کو رام کرسکیں۔

محترمہ گاندھی نے بینکوں کو قومیا لیا۔ e Previy Purs (اولیں وزیر داخلہ سردار پٹیل نے جب تمام ریاستوں کا ہندوستان میں انضمام کیا تو انہوں نے ریاستوں کے راجاؤں اور نوابوں کو سالانہ وظیفہ (Annual Grant)دینے، ذاتی جھنڈا لگانے اور لقب (Title) لگانے کے لیے خصوصی مراعات دینے کا وعدہ کیا تھا) کو ختم کر دیا۔

اندرا گاندھی نے پہلے کی طرح دوبارہ پارلیمنٹ کی طاقت حاصل کرنے کی کوشش میں کئی آئینی ترامیم(Amendmend 24,25,26 and 29 )  کیے۔

آئینی ترمیم25میں آرٹیکل 31Aکو تبدیل کیا گیا۔ آرٹیکل 31A کے مطابق حکومت اگر کسی شہری سے زمین لیتی ہے اور معاوضہ کم دیتی ہے تو وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے سپریم کورٹ نہیں جا سکتا۔

آئینی ترمیم 25میں نیا آرٹیکل 31Cضم کیا گیا۔ آرٹیکل 31Cکے مطابق اگر حکومت رہنما ہدایات (Directive Principles of State Polecy) کو نافذ کرنے کے لیے کوئی قانون بناتی ہے تواسے سپریم کورٹ Review (نظر ثانی) نہیں کرسکتاخواہ وہ قانون شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیہی کیوں نہ کرتا ہو۔

آئینی ترمیم 29 میں ’لینڈ ریفارم‘ سے متعلق کیرالا کے دو ایکٹ کو شیڈول9میں ڈال دیا گیا تاکہ عدلیہ ان پر نظر ثانی(Review) نہ کرسکے۔

گویا ان آئینی ترمیات کے ذریعے گولک ناتھ بنام پنجاب1967 میں دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کوبے اثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

 کیشوانند بھارتی بنام ریاست کیرالا

سنہ 1972 میں کیرالامیں ’لینڈ ریفارم ‘ آیا۔ یہاں کیشوانند بھارتی کا مٹھ تھا۔ مٹھ کے تحت 500ایکڑ زمین تھی جو حکومت کی تحویل میں چلی گئی۔

کیشوانند بھارتی نے سپریم کورٹ میں عرضی دے کر کہا کہ ہمارے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ یہ بے حد معروف مقدمہ ہے جسے کیشوانند بھارتی بنام ریاست کیرالاکہا جاتا ہے۔ اسی سے آئین میں ’بنیادی ڈھانچے‘ کا تصور نکل کر آیا۔

سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت13 ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے کی تھی۔ 1973میں 7,6 سے فیصلہ آیا جس میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کو آئینی ترمیم کرنے کی مکمل آزادی ہے لیکن اس سے آئین کے’ بنیادی ڈھانچے‘ کی خلاف ورز ی نہیں ہونی چاہیے۔ بنیادی ڈھانچے میں ’کیا آتاہے اور کیا نہیں آتا‘ یہ سپریم کورٹ طے کرے گا۔

آئین کا بنیادی ڈھانچہ

اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سیکری نے اس فیصلے میں کئی باتوں کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قراردیا مثلاً آئین کی بالادستی، عوامی اور جمہوری حکومت، آئین کا سیکولر کردار، پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان طاقت کا توازن ( دائرۂ اختیار) تاکہ Cheque and Balance کا نظام قائم رہے  دوسرے لفظوں میں ’آگ کے لیے پانی کا خطرہ‘ بنا رہے۔ ان کے علاوہ جسٹس گروور نے Unity of Intergrity of the Nation، Sovereignty of the Country اور جسٹس ہیگڑے نے ملک کا جمہوری کردار، Unity of Country(اٹوٹ ہندوستان)وغیرہ جیسے فیچرس کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دیا۔

سپریم کورٹ جن باتوں کو آئین کا بنیادی ڈھانچہ قرار دے گی پارلیمنٹ (حکومت) ان کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی۔ کیا آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے اور کیا نہیں، یہ طے کرنے کا اختیار سپریم کورٹ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔

گولک ناتھ بنام ریاست پنجاب 1967 کے فیصلے کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک طرح سے توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ 1967میں سپریم کورٹ نے کہا تھاکہ آرٹیکل 368محض ایک طریقہ بتاتا ہے۔ یہ پارلیمنٹ کو طاقت نہیں دیتا۔

کیشوانند بھارتی بنام ریاست کیرالا1973کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل368پارلیمنٹ کو طاقت بھی دیتا اور آئین میں ترمیم کرنے کا طریقہ بھی بتاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ پارلیمنٹ ہر طرح کی آئینی ترمیم کر سکتی ہے لیکن اس ترمیم سے آئین کے ’بنیادی ڈھانچے‘ کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے۔ گویا 1973میں سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ پارلیمنٹ کے پاس غیرمحدود اختیارنہیں ہے۔ ہاں ! وہ آرٹیکل 368کے تحت آئینی ترمیم ضرور کرسکتی ہے۔

کیشوانند بھارتی بنام ریاست کیرالا 1973 کے فیصلے پر تنقید

قانون کے ماہرین نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی تنقید کی ہے۔ ایک طرف انہوں نے کہا کہ یہ  Tyranny of Unelectedہے۔ آئین کابنیادی ڈھانچہ کیاہے اور کیا نہیں یہ طے کرنے کا اختیار سپریم کورٹ نے اپنے پاس رکھا ہے جسے عوام نے منتخب نہیں کیا اور نہ ہی ان کے درمیان اس کی کوئی جواب دہی طے ہوتی ہے۔ اس سے عوامی نمائندوں کی طاقت محدود ہو جاتی ہے۔

دوسری طرف اس فیصلے کے حق میں کئی دلیلیں دی جاتی ہیں مثلاً فرض کیجیے!اگر آئین میں ترمیم کرنے کے اختیارات پارلیمنٹ کو غیر محدو د حاصل ہو گئے اورکوئی ایسی پارٹی بر سر اقتدار آگئی جس کے پاس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں اکثریت ہے تو وہ یہ بھی کرسکتی ہے کہ ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دے، ملک پر دوبارہ مغل یا برطونوی حکومت نافذ کردے، آرٹیکل1کو بدل دے جس میں حکومت ہند کے بارے میں بتایا گیا ہے، آرٹیکل 21کو تبدیل کر دے جو ہر انسان کو جینے کا حق دیتا ہے اورخدا نخواستہ ہندوستان کو امریکی حکومت کے ماتحت کردے ایسی صورت میں آئین ہند، آئین ہند ہی نہیں رہے گا بلکہ امریکی آئین ہوجائے گا۔

یہ جان لینے کے بعد بھی ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے کیا آپ پارلیمنٹ کو کامل اختیارات دیے جانے کی وکالت کرنا پسند کریں گے؟ ہر گز نہیں۔ آج جو بھی ہمیں حاصل ہے یہ انسانیت کی اب تک کی پونجی ہے جسے کوئی بھی عقلمندتاراج ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔

آئین کے ’بنیادی ڈھانچے‘کا تصور بالکل درست ہے۔ یہ اکثریت کی حامل حکومت کے قوت و اختیار کو محدود کرتا ہے۔ در حقیقت ترمیم کا مطلب آئین میں حسب ضرورت معمولی تبدیلی لاناہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آئین ہی بدل ڈالو۔ ظاہر سی بات ہے کہ مکان کی مرمت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتاکہ مکان کی بنیاد ہی کھود ڈالو۔ ایسی صورتحال میں مکان، مکان ہی نہیں رہ جائے گا بلکہ کھنڈر ہو جائے گا، منہدم ہو جائے گا۔ آرٹیکل 368کے تحت پارلیمنٹ کو اختیار ہے کہ وہ آئین میں حسب ضرورت معمولی تبدیلی لائے۔ یہ کسی بھی پارٹی کی حکومت اور حکمراں کو بے لگام ہونے سے روکتا ہے بہ الفاظ دیگر حکومت کو فاششٹ اور حکمراں کو ہٹلر نہیں بننے دیتا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔