معتزلہ کے شبہات کا علمی رد

محمد عرفان شيخ یونس سراجی

معتزلہ  کی لغوی تعریف: ”معتزلہ “معتزلی کا واحد ہے، جس کا معنی  دور ہونا اور کنارہ کشی اختیار کرنا ہے۔ معتزلہ متکلمین کا وہ گروہ اور فرقہ ہے جو اہل السنہ  والجماعہ   کی بعض  معتقدات میں مخالفت کرتے ہیں، خصوصا ان  کے رئیس اور سر خیل  واصل بن عطا  جو اپنی  جماعت سمیت  حسن   بصری  کی مجلس سے متنازل ہوگیا تھا۔(المعجم الوسیط، ص: 599)

معتزلہ کی اصطلاحی تعریف: یہ ایسا   عقلانی، فلسفی   اور تطرف پسندانہ فرقہ ہے  جوحسن بصری رحمہ اللہ کی مجلس سے کنارہ کشی اختیارکرنے والا "خرافاتی "شخص  واصل  بن عطا الغزال کے پیروکار ہے۔(المعتزلہ وأصولہم الخمسہ وموقف أہل السنہ منہا، ص: 13)

امام  ابن ابی العز رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : ” معتزلہ عمرو بن عبید اور واصل بن عطا کے متبعین کو کہتے ہیں“۔(شرح  العقیدۃ الطحاویۃ، ص:  398)

معتزلہ کا ظہور:  فرقہ معتزلہ  قرن ثانی کے اوائل کی پیداوار ہے۔( المعتزلہ وأصولہم الخمسہ، ص: 13)

وجہ تسمیہ: جب عمر وبن عبید اور واصل بن عطا کے متبعین اور پیروکاران نے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی وفات کے بعد  اعتزال اختیار کرلیا اور اہل السنہ والجماعہ سے الگ تھلگ بیٹھنے لگے، تو بعدازاں  قتادہ اور ان کے علاوہ  دیگر لوگوں نے انہیں ”معتزلہ “کہنا شروع کردیا۔(شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ص: 398۔تحقیق:   الشیخ شعیب الأرناؤوط)

معتزلہ کے عقائد :

یہ ایسی جماعت  ہے جو اللہ کی صفات  کے علاوہ محض اسماء کا اثبات کرتی ہےاور اسماء کو صرف علم شمار کرتی ہے۔ ان میں سے بعض لوگ تمام اسماء کو مترادف گردانتے ہیں، جیسے علیم، قدیر، سمیع، بصیر ایک چیزہے، اور بعض کا اعتقاد ہے کہ  تمام اسماء  ایک دوسرے سے متباین اور مختلف ہے تاہم اللہ تعالى علیم ہے مگر بغیر علم کے، قدیر ہے مگر بغیر قدرت کے، بصیر ہے مگر بغیر بصر کے وغیر ہ وغیرہ۔ ( تقریب التدمریہ :شیخ محمدبن العثیمین رحمہ اللہ، ص: 29)

شبہ :

معتزلہ کا اعتقاد ہے کہ اللہ کے حق میں صفات کا اثبات کرنا تشبیہ  کا طلبگار ہے۔ بنابریں  کہ اس  رؤے زمیں پر  کوئی ایسی چیز  نہیں جو مجسم  ہو اور وہ صفات میں سے کسی صفت سے متصف نہ ہو۔ تمام اجسام ایک دوسرے کے مشابہ ہے، تو ایسی صورت میں صفات کا اثبات تشبیہ کا متقاضی ہے۔(تقریب التدمریہ  : شیخ محمدبن العثیمین رحمہ اللہ، ص: ۲۹)

مذکورہ بالا شبہ کی ابن العثیمین  رحمہ اللہ نے کئی طرق سے اپنی کتاب ”تقریب التدمریہ “ میں  تردید کی ہے۔ ان طرق  میں سے  بعض کو قلمبند کرنا مناسب  سمجھتا ہوں، جو ذیل کے سطور میں  مذکو ر ہیں:۔

1۔ یقینا اللہ تعالى نے اپنی ذات مقدس کو متعدد ناموں سے موسوم کیا ہے اور متعدد صفات سے متصف کیاہے۔ اگر صفات کا اثبات تشبیہ کا متقاضی ہے، تو اسماء  بدرجہ اولی اس چیز کا مستحق ہیں، اور اسماء تشبیہ کا متقاضی نہیں ہیں، تو صفات بھی تشبیہ سے پرے ہیں۔دونوں صورتوں میں تناقض ہے۔ اگر وہ لوگ دونوں کا اثبات کریں گے تو اقوال سلف کی مطابقت کریں  گے، اور اگر دونوں کا انکار کریں گے تو غلاۃ جہمیہ اور باطنیہ کی موافقت کریں گے، اور اگر دونوں کے درمیان تفریق کریں گے تو تناقض اور تباین میں داخل ہوجائیں گے۔

2۔ اللہ تعالى نے اپنے اسماء  کو ”حسنی “سے متصف کیا ہے، اورہم لوگوں کو اس کے ذریعہ  اوراد وظائف کرنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ”وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ فَادْعُوهُ بِهَا ۖ وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ“. (سورہ عراف: 180) ترجمہ: ”اور اللہ کے اچھے نام ہے، سو تم  اللہ کو انہی ناموں سے پکارو، اور ایسے لوگوں سے تعلق ہی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں، ان لوگوں کو ان کے کیے کی ضرور سزا ملے گی“۔ اور یہ آیت اس چیزکا  متقاضی ہےکہ اللہ کے تمام اسماء نہایت ہی عظیم  وشاہکار معانی پر  دلالت کرتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ ہماری دعاؤں میں آلہ کار ثابت ہوتے ہیں۔ اگر اللہ تعالى کے تمام اسماء محض علم ہوتے تو تعیین مسمى  (اللہ وحدہ) کے علاوہ کسی اور معنی پر دلالت کرتے، اس پر مستزاد وہ اسماء "حسنی” ہیں اور ہماری دعاؤں میں وسیلہ بنتے ہیں۔

3۔ اللہ تعالى نے اپنے لیے نفی مماثلت کے ساتھ اجمالی وتفصیلی دونوں طور سے  اپنی ذات کےلیے صفات کو ثابت کیا ہے، اللہ تعالى کا فرمان ہے :”وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَىٰ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ“.(سورہ نحل: 60) ترجمہ:”اللہ کے لیے تو بہت بلند صفت ہے، وہ بڑا غالب اور باحکمت ہے“۔ نیز اللہ کا فرمان گرامی ہے: ”لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ “.(سوره شورى: 11)ترجمہ: ”اس جیسی کوئی چیز نہیں وہ سننے اوردیکھنے والاہے“۔

دونوں آیات اس بات پردلالت کرتی ہیں کہ  صفات کااثبات تمثیل کا تقاضا نہیں کرتا، اور اگر ایسا ہوتا تو اللہ کا کلام متناقض ہوتا۔ والعياذ بالله

4۔ جو اعلى صفتوں سے متصف نہ ہو اس کارب اور الہ ہونا درست نہیں ہے، اس لیے ابراہیم علیہ السلام  نے اپنے والد پر اس کے غیر اللہ  کو الہ بنانے پر نقد کیا اور فرمایا، جیساکہ اللہ تعالى  کا فرمان ہے : ” يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا “.(سورہ مریم:42) ترجمہ: ”اے میرے ابا! آپ ان کی پوجا پاٹ کیوں  کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں ؟ نہ آپ کو کچھ بھی فائدہ پہونچاسکیں“۔

5۔ اس کرہ ارضی پر قیام پذیر تمام لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی صفت ہو کیوں کہ کسی بھی ذات کا وجود بغیر صفات کےناممکن ہے، تواب ضروری ہے کہ ہمارے مالک حقیقی جسے کبھی فنا نہیں، ہمیشہ سے باقی ہے اور باقی رہنے والا ہے اپنی مناسب صفات سے متصف ہوں۔

6۔ اور ان کا قول: ” اس  رؤے زمیں پر  کوئی ایسی چیز  نہیں جو مجسم  ہو اور وہ صفات میں سے کسی صفت سے متصف نہ ہو “ تو یہ ممنوع ہے۔ کیوں کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا وصف سے متصف ہونا صحیح ہے، جیسے کہاجاتاہے : لیل طویل، ونہار قصیر، وبرد شدید ، وحرخفیف و غیر ہ وغیرہ، جبکہ یہ اجسام  نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہواکہ بطور اثبات اور نفی    لفظ "جسم "کی اضافت اللہ کی طرف کرنا ان بدعی   وخرافاتی امور میں سے ہے جس کے توسط سے  اہل تعطیل  اللہ کی ثابت شدہ  صفات کی نفی تک   پہونچ جاتے ہیں۔

آخر میں اللہ سے دعا ہےکہ ہمیں باطل  وخرافاتی عقائد سے محفوظ رکھے نیز کتاب وسنت کو کما حقہ سمجھنے کی توفیق ارزانی عطافرمایے۔ آمین

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔