آج بازار میں پابجولاں چلو

آبیناز جان علی

پورٹ لوئیس کے بلو پینی میوزیم میں ۶ جلائی سے ۸ ستمبر تک بازار کے تھیم پر مصوری کی نمائش ہو رہی ہے۔ نمائش گاہ میں قدم رکھتے ہی ایک الگ دنیا میں پہنچنے کا گمان ہوتا ہے۔ حجرے کی ڈائیں دیوار کے درمیان ٹیوی کے اسکرین پر بازار سے منسلک آواریں اور تصاویر متواتر نشر ہورہے ہیں۔  اس کے ساتھ ساتھ سبزی فروشوں کی آوازیں اپنے سامان کی تعریف و توضیح کر رہی ہیں۔ کریول زبان کو سن کر لبوں پر ہنسی چھوٹتی ہے اور قدم خود بخود اندر کی طرف بڑھتے ہیں۔  رنگین مصوری آنکھوں کے لئے مقناطیس کا کام کرتی ہیں اور اپنے ساتھ ماضی  میں لے جانے کی دعوت دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔

بازار وہ جامِ جم ہے جس میں موریشس کے سماج کی پوری عکاسی نظر آتی ہے۔ یہاں فروخت ہونے والی سبزیاں اور پھل اس جزیرے کی مقامی کاشتکاری کا پتہ دیتے ہیں۔  ان کو خریدنے والے عوام میں مختلف نسل اور الگ الگ عقیدت کی پیروی کرنے والے ہیں۔  پھر بھی مقامی بولی میں گفت و شنید اور ہنسی مذاق موریشس میں اتحاد کی صاف دلیل پیش کرتی ہیں۔  اس طرح یہ جزیرہ پوری دنیا میں انسانیت کے لئے مثال قائم کرتا ہے۔ موریشس کے بازار تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔  پورٹ لوئیس، واکوا، روزہل اور کاتربورن جیسے بازار نے ان شہروں کو پنپتے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دیکھے ہیں۔  پورٹ لوئیس کے بازار کی عمارت ۱۸۳۹ء؁ میں تعمیر ہوئی۔ یہ انگریزوں کی حکمرانی اور ۱۹۶۸ء؁ کی آزادی کا شاہد ہے۔ انگلینڈ کے شاہی خاندان کا اس بازار میں استقبال کیا گیا۔ یہاں وزراء سبزیاں خریدنے آتے تھے۔ اس بازار نے اپنے سامنے جدید عمارتوں کی تعمیر دیکھی۔ موریشس کی معاشی زندگی میں تغیر اور یہاں کے لوگوں کے معیارِ زندگی میں ترقی کی داستان اسی بازار سے مل سکتی ہے۔ وقت کے ساتھ پورٹ لوئیس کے بازار کی عمارت میں رونما تبدیلیوں کو فنکاروں نے بحسن و خوبی کینوس پر اتارا ہے۔

مصّوری میں مقامی باشندوں کی روزمرہ معمولات کو رنگوں کے ذریعے اجاگر کیا گیا۔ گاجر، ٹماٹر، ناریل، انناس اور کیلے جیسے تازہ پھل اور سبزیاں ہر زور بازار سے گھر کا راستہ طے کرتے ہیں۔  اس بازار سے لوگوں کی روزی روٹی جڑی ہے۔ یہیں پر وہ دوست بناتے ہیں اور اپنے سکھ دکھ بانٹتے ہیں۔  ان تمام چیزوں کے علاوہ بازار میں انواع و اقسام کے مصالحہ جات، پکورے اور مشروبات بھی فروخت ہوتے ہیں جن سے مقامی وراثت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ پورٹ لوئیس کی مسلسل گرمی میں بازار میں آلودہ بہت مشہور ہے۔ اس میں ٹھنڈا دودھ، شربت اور تخم ِبالنگا ملائے جاتے ہیں۔  مزید برآں بازار کی ٹوکریاں بہت مقبول ہیں۔ یہ ’واکوا‘ کے پتوں سے بنائے گئے ہیں۔  ہر گھر میں بازار کے لئے مخصوص ٹوکری ضرور ہوتی ہے جس میں تمام سامان بھر کرہم خوشی خوشی گھر لوٹتے ہیں۔  ’واکوا ‘کے انہی پتوں سے سبزی فروش کی بڑی تھالیاں بنائی گئیں ہیں جن میں وہ نفاست سے اپنے سامان کو سجاتے ہیں۔  اس نمائش میں گونی، ناریل کے پتوں سے بنائے گئے جھاڑو دیکھنے کو ملے۔  پرانے زمانے میں فرش کو پالش کرنے کے لئے سوکھے ناریل کے برش کو بھی جگہ دی گئی ہے۔

نمائش گاہ میں ان تمام تفصیلات کے علاوہ موریشس کے دلفریب قدرتی مناظر کی جھلکیاں ہیں۔  سڑک کے کنارے چھوٹاخیمہ لگائے لوگ پھل پیچنے میں منہمک نظر آتے ہیں۔  پس منظر میں کوہسار کا دلفریب نظارہ اور ہریالی روح کو تازگی عطا کرتے ہیں۔ جزیرئہ روڈیگس کے بازار کو بھی اس نمائش میں شامل کیا گیا ہے۔ وہاں فروخت ہونے والی تازہ مچھلیاں، کیکڑے اور سیپ کو عمدگی سے ابھارا گیا ہے۔

اس کے علاوہ پرانی تاریخی تصاویربھی اس نمائش کے حصّے ہیں۔  ان تصویروں میں پرانی عمارتوں، شاہراہوں، گاڑیوں اور قدیم طرزِ زیست کی عکاسی ہے۔ ان پر نظر ڈالتے ہی دل جھوم اٹھتا ہے۔ تصاویر کے ذریعے مقامی کسان اپنی سبزیاں اور پھل اپنے کھیتوں سے بازاز میں پہنچاتے ہوئے دکھائے  گئے ہیں۔ نیز پرانے اور نئے وزن تولنے والے مختلف آلات کی موجودگی بھی باعثِ پرکشش ہے۔

یہ نمائش ہمیں ان جگہوں کی اہمیت و آفادیت پر غور وفکر کی دعوت دیتی ہے جن کے پاس ہم اکثر گزرتے ہیں لیکن ہم نے ان کو کم توجہ دی ہوگی۔ اس نمائش کے دورے سے میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ہم جب بازار جاتے ہیں تو اپنی تاریخ، اپنی مادری زبان، اپنی تہذیب اور موریشس کی مخصوص طرزِ زندگی میں بندھ جاتے ہیں۔

اس نمائش کی کامیابی میں فیصل دیلو، فریڈریک سِرافن، نصرین بانو عاشق، جی۔ ایو دیوڈ، پینو راگوسا، ملکہ دھرن تیلک، پائولو آلیوم اور ریاض اولادین کی مہارت اور محنت سر چڑھ کر بولتی ہیں۔  ان آٹھ فنکاروں نے آٹھ مختلف اور دلفریب انداز میں موریشس کے بازار کی انفرادیت کو کینوس پرپیش کیا ہے۔ اس نمائش کی کامیابی پر ان کو دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔

تبصرے بند ہیں۔