المیہ

ذیشان الہی

میں نے دیکھا انہیں

کچھ اشاروں اشاروں میں کہتے ہوئے

ہاتھوں سے دل کی شکلیں بناتے ہوئے

اور ہواؤں میں بوسے اڑاتے ہوئے

میں نے دیکھا کہ آنگن میں اک شخص بے جان و ساکت پڑا

سینہ زن اہلِ خانہ سے بے اعتنا

اجلی چادر میں لپٹا ہوا

منتظر ہے کہ اب

چار کاندھوں کا اس کو سہارا ملے

آخرِ کار مٹی ٹھکانے لگے

میں نے دیکھا تھے جتنے بھی چہرے وہاں

رنج و غم کی تاسف کی تصویر تھے

کچھ پہ جبراً اداسی تھی چھائی ہوئی

کچھ حقیقت میں مغموم و دل گیر تھے

انہی چہروں میں دیکھا انہیں

زیرِ لب مسکراتے

نگاہوں کی تحریر سے دل کے جذبوں کی ترسیل کرتے ہوئے

اور پھر گھر کے اک

قدرے سنسان گوشے کی جانب سرکتے ہوئے

ضرب سی ایک دل پر لگی

حلق میں میرے اشکوں کا گولا پھنسا

ڈبڈبائی ہوئی آنکھ کو

آستیں سے کیا خشک اور

بڑھ کے میت کو کاندھا دیا

تبصرے بند ہیں۔