آخری بات!

حفیظ نعمانی

حفیظ نام کے گنہگار پر پاک پروردگار کے اتنے احسانات ہیں کہ جب خیال آتا ہے کہ میدان حشر میں ان کا حساب دینے کا وقت آیا تو کیا ہوگا؟ تو کانپ جاتا ہوں میرے مولا نے طبیعت میں ضد نہیں دی اور نہ جہالت دی۔ اگر کسی نے کسی غلطی پر توجہ دلائی تو فوراً تسلیم کرکے معافی مانگ لی۔ میں نے جو برسوں پہلے الوداع کا مسئلہ کو اٹھایا تھا تو یہ کوئی علم کا مسئلہ نہیں تھا۔ بات صرف یہ تھا کہ جب آخری جمعہ میں جمعۃ الوداع ہے تو 30  رمضان کو جو آخری جمعہ پڑا تو اسے الوداع کے طور پر کیوں نہیں منایا گیا؟ اور یہ کسی ایک شہر، ایک بستی یا ایک صوبہ میں نہیں ہوا پورے ملک میں ہوا تو جس رمضان المبارک میں پانچ جمعہ ہوں اور چوتھے کو الوداع منایا جائے اور آخری جمعہ کو عام جمعہ کی طرح نماز پڑھی جائے اور کہیں سے کوئی آواز نہ آئے تو سوال پیدا ہوا کہ پھر یہ کیا ہے؟

اب عمر کا 83  واں سال چل رہا ہے۔ اپنے بچپن میں سنبھل میں ایک دور کے رشتہ کے چچا کو دیکھا کہ وہ آٹھ بجے نئے کپڑے پہن کر گھر سے نکلے۔ کسی نے معلوم کیا کہ بھائی یامین کہاں کی تیاری ہے؟ ہنس کر کہا کہ دہلی کی جامع مسجد میں الوداع پڑھنے جارہا ہوں ۔ یہ بات شاید 72  سال پہلے کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ الوداع کی اہمیت سو برس پہلے بھی تھی۔ اس وقت سے اب تک کسی نے کیوں نہیں بتایا کہ الوداع کیا ہے؟ ہمارے کہنے کے بعد چہ میگوئیاں ہوئیں لیکن آج تک میرے بار بار عرض کرنے کے بعد بھی کسی نے روشنی نہیں ڈالی کہ قرآن یا حدیث یا صحاؓبہ کرام نے آخری جمعہ کو الوداع کے طور پر بتایا ہو۔ اس مرتبہ مسلسل ٹیلیفون آرہے ہیں ۔ میں نے ہر کسی سے درخواست کی کہ وہ وضاحت فرمادیں کہ دین میں ہے؟ اور علماء کے نزدیک جو دین نہ ہو اور دین کہہ کر کیا جائے وہ بدعت ہے۔ ایک صاحب نے غصہ میں کہا کہ ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ اس چھٹی میں بچوں کے کپڑے اور عید کا سامان مسلمان ملازمین کو خریدنے کا موقع مل جاتا ہے۔ مسلک وَسلک آپ جانیں ۔

ہم نے عرض کیا تھا کہ آخری عشرہ میں کوئی طاق رات لیلۃ القدر ہے جس کی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے زیادہ ہے اور ایک سورۃ قرآن میں موجود ہے۔ ایک سورۃ جس چیز کے نام سے ہے جس کے 2  رُکوع ہیں پہلا رکوع کافی بڑا ہے۔ جس میں ہر چیز کی اللہ کی تسبیح پڑھنے کی خبر دی گئی ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ حضور رسول اکرمؐ سے پہلے دنیا کے کونہ کونہ میں پیغمبر بھیجے گئے یہودیوں کے پاس اللہ کی کتاب تورات ہے اس پر انہوں نے عمل نہیں کیا اور جو اللہ کی کتاب پر عمل نہ کرے اس کی حالت اس گدھے کی ہے جس پر کتابیں لادلی ہوں اور وہ کچھ نہ سمجھے۔ پورے رکوع میں جمعہ کا ذکر نہیں ۔ دوسرا رکوع چھوٹا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اے ایمان والو جب جمعہ کے دن نماز کے لئے پکارا جائے تو فوراً چل پڑو اللہ کی طرف۔ اور خرید و فروخت چھوڑ دیا کرو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اگر تم کچھ سمجھ رکھتے ہو۔ پھر جب نماز پوری ہوچکے تو زمین پر چلو پھرو اور اللہ کی روزی تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہو تاکہ تم فلاح پائو اور بعض لوگوں نے جب کبھی ایک سودے یا تماشہ کی چیز کو دیکھا تو اس کی طرف دوڑتے ہوئے بکھرے اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیا۔ آپ کہہ دیجئے کہ جو نئی چیز اللہ کے پاس ہے وہ کہیں بہتر ہے تماشوں اور سودے سے۔ اللہ سب سے اچھا روزی پہونچانے والا ہے۔‘‘

سورئہ بقرہ کے 22  ویں رکوع میں رمضان میں روزوں کے فرض ہونے کا بیان ہے اور کہا گیا ہے کہ رمضان میں ہی قرآن اتارا گیا۔ اس میں رمضان کے چند مسئلے بھی ذکر کردیئے اور مال خرچ کرنے اور بخل نہ کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اس میں حج و عمرہ کا بیان بھی ہے۔ غرض کہ جمعۃ الوداع کہیں نہیں ہے اور انتہا یہ ہے کہ ایسی متعدد حدیثیں ہیں جن میں جمعہ کو رات اور دن میں درود شریف زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

حضرت ابودرداءؓ نے حضور اقدسؐ کا ارشاد نقل کیا کہ میرے اوپر جمعہ کے دن کثرت سے درود بھیجاکرو اس لئے کہ یہ ایسا مبارک دن ہے کہ ملائکہ اس میں حاضر ہوتے ہیں اور جب کوئی شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ اس کے فارغ ہوتے ہی مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔

ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جمعہ کے دن میرے اوپر کثرت سے درود بھیجا کرو اس لئے کہ میری اُمت کے درود ہر جمعہ کو پیش کئے جاتے ہیں ۔

ایک حدیث میں حضرت عمرؓ سے یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ میرے اوپر روشن رات جمعہ کی رات اور روشن دن جمعہ ہیں ان میں کثرت سے درود بھیجا کرو اس لئے کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے اور میں تمہارے لئے دعا و استغفار کرتا ہوں ۔

حافظ ابن قیمؒ سے نقل کیا گیا ہے جمعہ کے دن درود شریف کی زیادہ فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور رسول اکرمؐ کی ذات اطہر ساری مخلوق کی سردار ہے۔ اس لئے جمعہ کو وہ خصوصیت ہے جو اور دنوں کو نہیں ۔

ہم نے قرآن عظیم، حدیث شریف اور حضرت عمرؓ کا ایک قول نقل کردیا۔ حدیث شریف میں بار بار جمعہ کو کثرت سے درود بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے اور ایک حدیث میں تو یہ بھی ہے کہ اگر جمعہ کے دن عصر کی نماز کے بعد اپنی جگہ سے اٹھنے سے پہلے ایک درود 80  بار پڑھے اور اس کے بعد قبول ہونے کی دعا پڑھ کر اپنے کام کرے تو اس کے 80  سال کے گناہ معاف ہوں گے اور 80  سال کی عبادت کا ثواب ملے گا غرض کہ سب کچھ ملا مگر یہ کہیں نہیں ملا کہ رمضان رلمبارک کے آخری جمعہ کو اگر تم نے یہ پڑھا تو یہ ملے گا اور یہ کیا تو یہ ملے گا۔ بلکہ سورئہ جمعہ میں جیسے کہ ہم نے ترجمہ نقل کیا ہے یہ حکم ہے کہ نماز کے بعد اگر کہیں سودے یا تماشہ کی طرف دوڑے تو فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ نئی چیز اللہ کے پاس ہے اور وہ کہیں بہتر ہے تماشوں اور سودوں سے اور اللہ ہی اچھا روزی دینے والا ہے۔

اپنی زندگی کے 12  برس کے بارے میں تو کہہ نہیں سکتے اس سے قبل اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ ٹیلے کی مسجد (لکھنؤ میں ) کے سامنے بریانی، کباب، چاٹ، شربت اور پانی کی سبیل لگتی تھی۔ اور جھولے، بچوں کے کھلونے اور دیہاتی عورتوں کے شوق کی چیزوں کا پورا بازار لگتا تھا اور روزہ داروں کے لئے اس راستہ پر چلنا عذاب تھا۔ قرآن پاک میں الوداع تو نہیں آیا مگر تماشے اور سودے کا ذکر آگیا اور اس کے پاس جانے سے روکا بھی گیا ہے۔ یعنی ہم مسلمان وہ تو کرتے ہیں جس کا کوئی ذکر نہیں یعنی الوداع اور اس سے باز نہیں آتے یعنی تماشے اور سودے جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔

ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ جو حضرات جمعۃ الوداع کو اتنا اہم مانتے ہیں کہ اس کا خطبہ بھی الگ کرلیا ہے وہ کہیں تو دکھادیں کہ اس کی دین میں کوئی اہمیت ہے؟ تاکہ ہم جو گناہگار ہورہے ہیں وہ اللہ سے معافی مانگ لیں برسوں پہلے ہم جب گھر میں سب بچوں کیلئے عید کے کپڑے لائے تو ایک کام کرنے والی بچی کا بھی سوٹ لائے۔ اس نے دیکھا اور معلوم کیا کہ اور الوداع کا جوڑا نہیں لائے؟ یہ بات برسوں سے ہمارے اوپر بوجھ ہے۔ اگر کوئی صاحب الوداع کی اہمیت ثابت کردیں تو ہم اب پوتے پوتیوں کے لئے الوداع کا جوڑا بھی لا تو سکتے نہیں منگوا دیں ۔ حیرت ہے برسہابرس سے الوداع پر عمل ہورہا ہے اور یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کس نے اس کی ہدایت دی؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔