آخر ہماری حالت کیوں نہیں سدھر رہی ہے؟

 عبدالعزیز

  میں اپنے آبائی گاؤں اہتیہ گیا تھا۔ میرا گاؤں فیض آباد اور اجودھیا (دونوں Twin City سے) تقریباً 40/45کیلو میٹر دوری پر واقع ہے۔ 30 اکتوبر کو جب اپنے ریلوے اسٹیشن اکبر پور پہنچا اور جیپ میں سوار ہوگیا۔ ڈرائیور مسلمان تھا اور اکبر پور ہی کا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اب اتر پردیش میں یوگی کی حکومت ہے۔ بقرعید کیسے گزری؟ تو اس نے کہاکہ یہاں غیروں کی طرف سے کوئی ہنگامہ یا فساد برپا نہیں ہوا۔ البتہ مسلمانوں کے دو گروپ میں لڑائی ضرور شروع ہوئی مگر پولس کی مداخلت سے خونریزی کی نوبت نہیں آئی۔ اس نے کہاکہ عید قرباں سے پہلے پولس نے مسلمانوں میں سے جو لوگ ذمہ دار تھے انھیں بلاکر کہہ دیا تھا کہ کسی بڑے مدرسے میں جہاں جگہ ہو وہاں چہار دیواری کے اندر قربانی کریں ۔ راستہ یا گھر میں نہ کریں ۔ ایک مدرسہ میں عین قربانی کے وقت مسلمانوں کے دو گروپ آپس میں لڑ پڑے۔ دونوں نے چھری ہاتھ میں لے لی۔ ایک دوسرے کا تعاقب کرنے لگے۔ پولس نے جب ایسا منظر راستہ میں دیکھا تو دونوں کو روکا، سمجھایا بجھایا کہ حالات تمہارے خلاف ہیں پھر بھی تم لوگ ایک دوسرے سے نبرد آزما ہو۔ بہر حال پولس کی مداخلت سے معاملہ آگے نہیں بڑھا۔

 کلکتہ واپسی سے ایک روز پہلے مجھے کلکتہ کے کچھ لوگوں نے فون پر بتایا کہ کل (5نومبر) اقبال احمد اور جاوید احمد خان کے گروپوں کے درمیان اسلامیہ اسپتال کی انتظامیہ کمیٹی کا انتخاب ہے۔ آج ہی سے حج ہاؤس (بیت الحجاج) جہاں الیکشن ہونے والا ہے پولس کا سخت بندوبست ہے۔ کل ریف اتار دینے کی بھی خبر ہے۔ 5نومبر کی شام 5بجے فون سے لوگوں نے بتایا کہ حج ہاؤس کو پولس چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا اور ریف بھی اتار دی گئی ہے۔ ایسا سماں ہے کہ اسمبلی اور لوک سبھا الیکشن میں بھی کبھی نظر نہیں آیا۔ ہنگامہ اور توڑ پھوڑ کے واقعات بھی رونما ہوئے ہیں ۔ ایک دوسرے پر الزام در الزام کا سلسلہ جاری ہے۔

 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ مسجد کی شہادت سے تین چار سال پہلے ٹرین دیر سے پہنچنے کی وجہ سے میں اکبر پور ہی میں رک گیا تھا۔ ایک صاحب کے گھر میں بیٹھا تھا کہ ایک 80 سالہ ہندو صاحب مکان سے ملنے آیا۔ اس نے گفتگو کے دوران کہا کہ ’’ہم ہندو جب آپس میں لڑتے تھے تو میاں کے گھر کے دروازے اور دیوار کو چھوکر قسمیں کھاتے تھے۔ ہمارے لئے میاں (مسلمان) کا گھر اس قدر پَوِتر (مقدس) تھا مگر آج مسلمان جھوٹ بولنے لگے ہیں ، جھوٹی گواہی دیتے ہیں اور آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں ۔ اب ہم ہندوؤں کے نزدیک نہ ان کا وقار باقی رہا اور نہ ہی ان کی عبادت گاہ اور نہ ہی ان کا گھر دروازہ محترم اور مقدس رہا‘‘۔

  اس واقعہ کے تین یا چار سال بعد بابری مسجد منہدم کردی گئی۔ رد عمل میں دو تین ہزار مسلمان بھی شہید کر دیئے گئے اور اس کے بعد جو کچھ ہوا ہم آپ اس سے واقف ہیں ۔

 اب میں دو مذکورہ واقعات پر بھی کچھ تبصرہ کروں گا۔ آپ غور فرمائیے؛ عید الاضحی یعنی قربانی کا دن ہے۔ مسلمان اس روز حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی عدیم المثال قربانی کی یاد گار کے طور پر مناتے ہیں ۔ کس دن کی یادگار جس دن حضرت ابراہیمؑ نے اپنے چہیتے اور اکلوتے بیٹے کی قربانی اللہ کی راہ میں پیش کی۔ اللہ کے دو سعادت مند بندوں نے اللہ کی فرماں برداری کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ اسی روز اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا گلا کاٹنے کا مظاہرہ کر رہا ہو اور رسمی طور پر جانوروں کی قربانی کا فریضہ بھی ادا کر رہا ہو ۔ ہم آپ تو مسلمان ہیں فقہ کی موشگافیوں کی وجہ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کس کی قربانی کی یاد میں جانوروں کی قربانی کر رہے ہیں یا یہی قربانی ہے جسے کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ایک ہاتھ میں مسلمانوں کو ذبح کرنے کا جذبہ موجزن ہے اور دوسری طرف کسی جانور کو ذبح کرنے کا مظاہرہ ہے؟ لیکن غیر مسلم کو ایسی قربانیوں پر ہم جس قدر بھی لیکچر دیں اور انھیں سمجھائیں کہ ہماری نیت بہت اچھی ہے، ہمارا عمل بہت پاکیزہ ہے۔ قربانی کی یہ عظمتیں ہیں ؟ کیا ہماری حالت بد دیکھ کر وہ ہماری باتیں ماننے کیلئے تیار ہوگا؟

اسلامیہ اسپتال کلکتہ کا ایک اسپتال ہے جو مسلمانوں کا اسپتال ہے۔ یاد آتا ہے کہ چناؤٹ ( پشاور) کے محمد دین نامی ایک خیر پسند اور صاحب ثروت نے مریضوں کی راحت رسانی کیلئے قائم کیا تھا۔ راقم الحروف بھی ملا جان محمد کے ساتھ اکثر و بیشتر اسلامیہ اسپتال کے گیٹ پر بیٹھ جاتا تھا۔ ڈاکٹر مقبول احمد مرحوم نگراں تھے۔ ملا جان صاحب کسی صاحب ثروت کو ڈھونڈتے تھے کہ اسپتال کی انتظامیہ کمیٹی کا صدر ہوجائے مگر مشکل سے کوئی تیار ہوتا تھا۔ ایک بار جب انور محمود مرحوم جنرل سکریٹری یا صدر کے عہدہ پر فائز ہوئے تو انھوں نے اسے ہر ممکن کوشش کی کہ اس کا شمار اچھے اسپتالوں میں ہونے لگے۔ اسپتال کی رنگائی پوتائی تو ہوئی جس سے اس کی شکل بدل گئی۔ ڈاکٹر مقبول صاحب کی کوششوں سے کچھ اچھے ڈاکٹر بھی اسپتال میں آنے لگے مگر اس کا شمار اچھے اسپتالوں میں نہیں ہوا۔ انور محمود ایک ایسے مسلمان تھے کہ وہ ملت سے بہت کم سروکار رکھتے تھے مگر ڈاکٹر مقبول احمد صاحب کی کوششوں سے وہ ملت کے کاموں سے دلچسپی لینے لگے۔ وہ اسپتال روزانہ آتے تھے اور بے لوث خدمت کرتے تھے۔ کبھی انھوں نے نہ اپنا نام اخبار میں چھپایا اور نہ ہی کسی قسم کی پریس کانفرنس کی۔ ان کے بعد ہی مقامی افراد کی اسپتال میں آماج گاہ بن گئی۔ اسپتال کے بجائے وہ کچھ اور نظر آنے لگا۔ کچھ لوگوں نے اصلاح حال کی کوشش کی مگر کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔

 سلطان احمد مرحوم کا زمانہ آیا تو ترقی کے کچھ مدارج ضرور طے ہوئے۔ پارک سرکس میں اسپتال کا برانچ بھی قائم ہوگیا مگر ان کے ساتھ جو لوگ تھے ان کے بارے میں شہر کے لوگوں کی رائے بہت اچھی نہیں تھی۔ سلطان صاحب جب تک اسپتال کے جنرل سکریٹری رہے کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوا، لیکن ان کے بعد ایک اور سیاسی شخصیت اپنے لوگوں کے ساتھ انتظامیہ میں شامل ہونے کیلئے سامنے آگئی۔ کچھ لوگوں نے مجھے بتایا کہ کہاں تک صحیح ہے ، نہیں کہا جاسکتا کہ سلطان احمد مرحوم کے بھائی اقبال احمد نے اپنے حریف کو یہ دعوت دی کہ وہ کمیٹی میں اپنے تین آدمیوں کو شامل کردیں ۔ اس طرح الیکشن لڑنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔میرے خیال سے یہ تجویز معقول تھی۔ جاوید احمد خانصاحب کے سامنے اگر یہ تجویز پیش کی گئی تھی تو انھیں انکار نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو گزشتہ اتوار (5نومبر) کو جو کچھ ہوا وہ نہیں ہوتا اور نہ مسلمانوں کی جگ ہنسائی ہوتی۔ کلکتہ کے مسلمانوں کی جو تصویر بنگلہ و ہندی اخبارات اور بنگلہ نیوز چینلوں میں آئی ہے اسے دیکھ کر غیر مسلم بھائیوں نے یقینا یہی سوچا ہوگا کہ مسلمان خدمت خلق کے اداروں میں صدر اور سکریٹری بننے کیلئے اپنے بھائیوں کا سرقلم کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ فتنہ وفساد برپا کرتے ہیں تو پھر ان کا جب دوسروں سے سامنا ہوگا تو کیا کریں گے؟ اس واقعہ کے بعد راقم نے غیر مسلموں کے اداروں کا حال معلوم کرنا چاہا تو معلوم ہوا کہ اس قسم کی حرکتیں ان کے اداروں میں نہیں ہوتیں کہ ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں اور پھر ایک دوسرے کے سامنے نہ آسکیں ۔

 راقم نے یہ چند باتیں محض اصلاح حال کیلئے لکھی ہیں ۔ ممکن ہے کچھ باتیں چھوٹ گئی ہوں جو بعد میں بھی لکھی جاسکتی ہیں اور کچھ غلط ہوں تو اس کی تصحیح بھی کی جاسکتی ہے مگر یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ کلکتہ کا ہر مسلمان اسلامیہ اسپتال کے حالیہ واقعہ کی کھلے مذمت کرتا ہوا نظر آیا ۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کی باتیں اخباروں یا ٹی وی چینلوں پر نہیں آئیں ۔ تین روز پہلے جو اس واقعہ پر تبصرہ کیا تھا اور 100 سے زائد اردو اخباروں میں بھیجا تھا ، بیشتر اخباروں نے اسے شائع کیا۔ کلکتہ کے اخباروں نے بھی شائع کیا تو میرے پاس کلکتہ اور کلکتہ کے باہر سے بہت سے فون آئے کہ ملی اداروں کا حال بیمار جیسا ہوگیا ہے۔ اس کی شفایابی کیلئے دعا اور دوا ضروری ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔