آدتیہ ناتھ کا وزیر اعلیٰ بننا مودی کیلئے خطرہ کی گھنٹی

ندیم عبدالقدیر

2014ء کے بعدپہلی بار بی جےپی میں مودی کے علاوہ کسی اورطاقتور لیڈر کا عروج نظر آیا ہے ۔ اس عروج سے پارٹی کی سیاست نے ایک نئی انگڑائی لی ہے۔ آر ایس ایس نےمودی پر واضح کردیا کہ بی جےپی شخصیات پر منحصر جماعت نہیں ہے ۔ سنگھ پریوارجب مودی پیدا کرسکتا ہے تو پھر وہ مودی کا جواب بھی پیدا کرنے کا دم رکھتا ہے ۔ آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے سے ایک بات اور صاف ہوگئی کہ بی جے پی او ر سنگھ پریوار میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ بی جےپی کی نکیل سنگھ پریوار کے ہاتھ میں ہے اور مودی جیسے لوگ کٹھ پتلی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔

ہر پارٹی سربراہ کے دل کے کسی طاق میں اپنی امارات کی درازیٔ عمر کی آرزو کے چراغ ہمیشہ روشن رہتے ہیں۔اختیارات کے سولہ سنگھار سے محروم ہوجانے کا خوف بھی پریشان کرتا رہتا ہے۔ اس پریشانی میں اس وقت اضافہ ہوجاتا ہے جب پارٹی میں کوئی بڑا لیڈر سر ابھارنے لگتا ہے ۔ اس بات کا خصوصی اہتمام کرنا پڑتا ہے کہ پارٹی کے تناور درخت کی سب سے بلند شاخ پر کوئی اور لیڈر اپنا گھونسلہ بنانے کیلئے تنکوں کوجمع کرنا نہ شروع کردے۔ اس کا پہلا سبق یہی ہوتا ہے کہ کسی بھی لیڈر کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیا جائے ۔ شاطر سیاستداں کو تو چھوڑئیے ایک عام سیاستداں بھی سیاست کے ان رموز و نکات کو سمجھتا ہے کہ پارٹی میں کسی بھی لیڈر کی ایک حد سے زیادہ مقبولیت اعلیٰ کمان کیلئے دردِ سر بن سکتی ہے ۔ اپنی موجودگی اور اہمیت کو زندہ رکھنے کیلئے سیاست میں اپنے آپ کو بلند کرنے سے زیادہ دوسروں کے بال و پر کو کترنے کا کام کرنا پڑتا ہے ۔

2014ء عام انتخابات میں مودی کو وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد کرنے کے ساتھ ہی آر ایس ایس نے انہیں پوری چھوٹ بھی دے دی ۔ سنگھ کی طرف سے حمایت حاصل ہوجانے کے بعد مودی نے پارٹی کو کسی تاناشاہ کی طرح چلایا۔ لال کرشن اڈوانی کا کام تو سنگھ پریوار نے ہی تمام کردیا تھا ۔ مودی نے بھی اپنے استاد کا دفاع نہیں کرنا وقت کا عین تقاضا سمجھا ۔ پارٹی صدر کے طور پر انہوںنے اپنے معتمد امیت شاہ کو نامزد کیاتاکہ طاقت کا یہ محور بھی ان کے ہی تابع رہے۔ وہ الیکشن تو کہیں سے بھی لڑسکتے تھے لیکن انہوں نے مرلی منوہر جوشی کی سیٹ غصب کرکے وارانسی کے راستے ہی لوک سبھا پہنچنے کو ترجیح دی۔ اپنے گجرات کی باگ ڈور بھی ایسے کے ہاتھ میں دی جو کل ان کیلئے خطرہ نہ بن جائے ۔ ان سب کے علاوہ یشونت سنہا، جسونت سنگھ ، ارون شوری اور رام جیٹھ ملانی وہ نام ہیں جو پچھلی این ڈی اے حکومت میں اہم وزارت پر فائز تھے لیکن مودی نے ان میں سے کسی کو بھی وزارت سے سرفراز نہیں کیا۔ ارون جیٹلی اور سشما سوراج کو چھوڑ کر انہوں نے پچھلی نسل کے تمام لیڈروں سیاست سے رختِ سفر باندھنے پر مجبور کردیا۔ مودی کسی بھی بڑے نام کو اہم عہدے پر دیکھنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے گوا جیسی چھوٹی سی ریاست کے وزیر اعلیٰ کو وزارت دفاع عنایت کردی۔ سمرتی ایرانی کو فروغ انسانی وسائل کی وزارت کا تحفہ دیا۔

ریاستوں میں بھی کسی بڑے لیڈر کو پنپنے کا موقع نہیں دیا۔ ہریانہ میں پہلی بار الیکشن لڑنے والے کھٹر کو ریاست کا وزیر اعلیٰ بنادیا جبکہ کھٹر جاٹ بھی نہیں ہیں اور اس وقت ان سے بھی سینئر اور قد آور لیڈران کیپٹن ابھیمنیو، اوم پرکاش دھانکر، راج سنگھ موراور بی جےپی کے ہریانہ کے صدر رام بلاس شرماوزیر اعلیٰ بننے کے خواہشمند تھے ۔یہی صورتحال مہاراشٹر میں بھی تھی ۔ اس وقت نتن گڈکری اور کھڑسے بی جےپی کے اہم لیڈران تھے لیکن مودی نے ان لیڈران کو حاشیے پر رکھ کر غیر معروف دیویندر فرنویس پر اپنی نظر کرم ڈالی۔

یوگی آدتیہ ناتھ کا معاملہ تھوڑا الگ ہے ۔ یوگی آدتیہ ناتھ دیگر بی جے پی لیڈران کی طرح نہیں ہیں ۔ وہ دیویندر فرنویس، کھٹر ، آنندی بین مہتا، منوہر پاریکریا سمرتی ایرانی نہیں ہیں۔ جس طرح مودی کے بھکتوں کی فوج ہے اسی طرح آدتیہ ناتھ بھی اپنے حامیوں کی ایک فوج رکھتے ہیں۔آدتیہ ناتھ بی جےپی سے الیکشن بھلے ہی لڑے ہوںلیکن وہ بی جےپی کے دیگر لیڈران کی طرح پارٹی کے محتاج نہیں ہیں۔وہ پروانچل اور مشرقی اترپردیش میں ا ثر، رسوخ ، مقبولیت اور پکڑ رکھتے ہیںساتھ ہی گورکھ پور مٹھ کے مہنت بھی ہیں۔ ان کی اپنی ایک تنظیم ’ہندو یووا واہنی ‘ بھی ہے جو اکثر اپنے کارناموں کے سبب اخبارات کی سرخیوں میں رہتی ہے۔

ساتھ ہی وہ کٹر ہندوتوا وادی اور مسلم مخالف شخصیت بھی ہیںجو کہ آر ایس ایس کا منبع حیات ہے ۔ وزارت اعلیٰ حاصل ہوجانے کے بعد یوگی کی طاقت میں یقینا اضافہ ہوگا یوپی میں ان کی کٹر ہندوتوا وادی کی امیج مقبولیت کی نئی بلندیوں کو چھوئے گی۔ اس ریاست سے سب سے زیادہ اراکین لوک سبھا اور راجیہ سبھا ہوتے ہیں۔ بی جےپی کی موجودہ حکومت میں بھی سب سے زیادہ ممبران یعنی 72؍ یو پی سے ہی ہیں۔پچھلی این ڈی اے حکومت میں بھی سب سے زیادہ ممبران یعنی 29؍یوپی سے تھے۔ اتنی بڑی سیاسی طاقت والی ریاست کے اب یوگی ’مکھیا ‘ہونگے۔ یہ یقینا مودی کےلئے اچھی خبر نہیں ہے۔

مودی کی اب تک کی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات بہت آسانی سے سمجھی جاسکتی ہے کہ آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنانے کا مشورہ مودی کا تو قطعی نہیں ہوسکتا ہے ۔ 2002ء سے پہلے مودی غیر معروف لیڈر کی حیثیت رکھتے تھے۔ یوگی کے ساتھ معاملہ ایسا نہیں ہے۔ یوگی کی موجودگی میں مودی کے سر پر ایک طاقتور بغاوت کا خطرہ ہمیشہ منڈلاتا رہے گا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مودی کے خطرات کو دفع کرنے اور انہیں تسلی دینے کیلئے سنگھ پریوار نے دو نائب وزراء بھی جوڑ دئیے۔ یہ آدتیہ ناتھ پر نظر رکھنے اور ان کے اختیارات کو تقسیم کرکے کم کرنے کی کوشش ہے۔جوکھم تو آر ایس ایس نے بھی اٹھایا ہے ۔ حالات اگر ساز گار رہے تو یوگی آر ایس ایس کے لئے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔ اب یوپی میں اختیارات کے تین مراکز ہونگے ۔

ایک یوگی آدتیہ ناتھ ، دوسرے وزیر اعظم مودی اور تیسرا سنگھ پریوار۔ ان تینوں میں تعاون اگر ٹھیک رہا تب تو ایک طوفان آنا ہے اور اگر ان تینوں میں تعاون ٹھیک نہیں رہا تب بھی ایک طوفان آنا ہے ۔ یوپی کی سیاست اپنی آغوش میں ابھی بہت کچھ سمیٹے ہوئے ہے جو آہستہ آہستہ پردہ ہستی پر کھلیں گے۔ تب تک انتظار کیجئے۔ 2014ء کے بعدپہلی بار بی جےپی میں مودی کے علاوہ کسی اورطاقتور لیڈر کا عروج نظر آیا ہے ۔ اس عروج سے پارٹی کی سیاست نے ایک نئی انگڑائی لی ہے۔ آر ایس ایس نےمودی پر واضح کردیا کہ بی جےپی شخصیات پر منحصر جماعت نہیں ہے ۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔