‘سپریم کورٹ’ صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔

ابو زنیرہ

چند دنوں قبل سپریم کورٹ نے بابری مسجد مقدمہ میں ایک عجیب بات کہی کہ بابری مسجد کا مسئلہ دونوں فریق آپسی رضامندی سے طئے کرلیں۔اس بات کو پڑھ کر راقم کو ایک مثال یاد آگئ سوچا آپ لوگوں سے بھی بیان کرتا چلوں۔ایک گاوں میں دو لوگوں میں زمین کو لیکر جھگڑا ہوگیا۔بات پنچایت تک پہنچ گئی -فریق اول مظلوم کسان تھا اور فریق ثانی ظالم ٹھاکر۔پنچایت اسی کشمکش رہی کس کے حق میں فیصلہ کیا جائے ۔اگر فیصلہ ٹھاکر کے حق میں کرتے ہیں تو گاوں والوں کا اعتماد پنچایت پر سے اٹھ جائیگا اور اگر فیصلہ ٹھاکر کے خلاف دیا جائے تو ٹھاکر نے کب اس فیصلے کو ماننا تھا۔الٹا پنچایت کی بےعزتی ہوتی کے پنچایت نے ظالم کے سامنے گھٹنے ٹیک دییے لہذا پنچایت تیسرا راستہ نکالا جس سے بھنس بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے ۔پنچایت نے کہا دونوں فریق آپسی رضامندی سے اسکا حل نکال لیں ۔کسان تو منھ دیکھتا رہ گیا لیکن ٹھاکر نے اپنے دبنگ انداز میں مونچھوں کو تائو دی اور کہا میں نا کہتا تھا ھونا تو وہی ھے جو میں چاہتا ہوں۔

زرا اس مثال کو دیکھیے اور حآلیہ دنوں کے سپریم کورٹ کے بیان کو دیکھیے ۔دونوں میں کتنی ممثالت ہے۔سپریم کورٹ بھی تو ٹھاکر کے سامنے بےبس ہے نا۔اگر سپریم کورٹ مسلمانؤں کے حق میں فیصلہ دیتی تو ظالم قابضوں نے کونسا ماننا تھا اور اگر قابضوں کے حق میں فیصلہ دیتی تو لوگوں کا رہاسہا اعتماد بھی عدلیہ سے اتھ جاتا ایسے میں سپریم کورٹ نے بھی وہی کیا جو ان پنچوں نے کیا تھا کے مسئلہ کا حل نکالے بغیر پھر معاملے کو دونوں فریق پر چھوڑ دیا۔اور اس بار پھر مظلوم کسان کی طرح مسلمان منھ دیکھتا رہ گیا اور ظالم یوگی ٹھاکر کی طرح اکڑتا ہوا کہنے لگا ہاں ہم بات چیت کو تیار ھے۔

اگر عدالت کی شان میں گستاخی نہ ہوتو (بھروسہ نہیں کل اس بات کو بھی دیش مخالف کہا جاسکتا ھے۔)ایک سوال عدالت سے کرسکتا ھوں ۔ “کیا جن سے آج عدلیہ ہمیں بات چیت کرنے کہ رہی ہے کیا انھوں نے ہم سے بات چیت کرکے مسجد شہید کی تھی ۔تو بات چیت کس مسئلہ پر کریں ۔“

سپریم کورٹ کے ذریعے اس بار پھر اغیار نے ایک چال چلی ہے کہ جسے مسلمان پھر انکے دام فریب میں آگئے ہیں ۔اب اگر مسلمان بات چیت سے انکار کرتے ہیں تو انکا زرخرید میڈیا کہے گا دیکھا مسلمان اس مسئلہ کا حل چاہتے ہی نہیں ورنہ ضرور یہ لوگ بات چیت کے لیے راضی ہوجاتے۔اور اگر مسلمان بات چیت کے لیے راضی ہو بھی گئے تو یہ لوگ ایسی شرطیں مسلمانوں کے سامنے رکھیں گئے جو مسلمانوں کو کسی قیمت پر منظور نہ ہوگا ۔اس وقت بھی ان کا غلام میڈیا کہے گا دیکھو مسلمان تو کسی بات پر ہی راضی نہیں ہوتے۔

ممکن یہ بھی ہے کے یہ ہماری قیادت کو توڑنے کی کوشش کریں گے اور ان کے غلام یہ بات مسلمانوں میں عام کرنے کی کوشش کریں کے چوںکہ ان کی کوئی نمائندہ تنظیم موجود نہیں ھے لہذا ہم فریق ثانی کس سے بات کرے۔

راقم کو ایک اور خدشہ بھی ہے جو فیسبک اور واٹس اپ کے ذریعہ ہورہا ہے کہ کہیں مولانا وحیدالدین خاں صاحب “تعبیر پوری ناہوجائے“ کہ مسلمان مسجد کے حق سے دستبردار ہوجائیں۔ آج مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کا رجحان اس طرف ہوچالا ہے کے مسجد مندر نا بناتے ہوئے کوئی اسکول کوئی ہاسپٹل کیوں نہیں تعمیر کیا جاتا۔یہ بات امت کے مستقبل کے لئے بہت خطرناک ہے علماء اور تمام دینی تنظیموں کو چاہیے کے اس فکرکو فوری طور پر ختم کرنے کی کوشش کریں۔

اللہ ہند کے مسلمانوں کو استقامت اور صبر دے اور ہمیشہ اپنی امان میں رکھے ۔(آمین)

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔