تمہی بتائو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟

حفیظ نعمانی

ہر زمانہ میں کوئی ایک فتنہ پرور ہوتا ہے اور وہ اپنی فتنہ پروری کرکے انجام و کو پہنچ جاتا ہے۔ آج کے دور میں سب سے بڑا فتنہ سبرامنیم سوامی بنے ہوئے ہیں ۔ وہ جنتا پارٹی 1977کی پیداوار ہیں ۔ ابتدا سیکولر مکھوٹہ سے کی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ پارٹی کا انجام یہ ہوا کہ اس کی ہر چیز ختم ہوگئی صرف انتخابی نشان ہل دھر کسان اور اس کے صدر سبرامنیم سوامی رہ گئے۔ انھوں نے برسوں کوشش کی کہ کوئی انہیں گود لے لے اور وہ انتخابی نشان کے ساتھ اس کی خدمت میں لگ جائیں لیکن ببول کے کانٹوں جیسے اس نیتا کو نہ کسی نے کھاد دیا نہ پانی تو انھوں نے مسلمانوں کے خلاف بیانات دینا شروع کیے۔ اور ان کی نگاہ بی جے پی کی طرف رہی۔ وہاں انھیں 2014میں بھی ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ شاید یہ سوچ کر نہیں دیا کہ انہیں ہضم کون کرے گا۔ لیکن انھوں نے اپنی مہم جاری رکھی اور وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کی روزی روٹی کا انتظام اس طرح کیا کہ انہیں راجیہ سبھا کا ممبر بنا دیا۔

بابری مسجد کو رام مندر بنانے کی تحریک کو 70برس ہوگئے۔ شری سوامی اس کی کسی بھی تحریک میں نظر نہیں آئے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ مسجد کو شہید کرنے کی سازش اور اس کے لیے غنڈوں کو ورغلانے کی تحریک جب بوڑھے لیڈر ایڈوانی نے رتھ یاترا کے ذریعہ شروع کی تب بھی اس میں سبرامنیم سوامی کہیں نظر نہیں آئے اور اسی لیے وہ ان مجرموں میں نہیں ہیں جن کا مقدمہ رائے بریلی میں چل رہا ہے اور اب ہائی کورٹ سے یہ منظور کرانے کے بعد کہ ان بوڑھے بیلوں پر مقدمہ نہ چلایا جائے۔ مقدمہ سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ لیکن ہر وقت پٹر پٹر بولنے کے شوقین سوامی کی زبان نہیں رُک رہی۔ اور اب وہ یہ جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسجد ا ور مندر کے معاملہ میں سو کروڑ ہندوئوں کے ترجمان صرف وہ ہیں ۔

تین دن پہلے انھوں نے کہا کہ مسلمان سرجو ندی کی دوسری طرف مسجد کے لیے زمین لے لیں اور رام مندر کی جگہ چھوڑ دیں وہ یہ سمجھ رہے ہیں   کہ مسلمانوں کے لیے سرجو ندی بھی کوئی مقدس ندی ہے جس کے پاس ایک مسجد بھی ہونا چاہیے اور یہ بھی کہہ دیا کہ وہ زمین دے دیں گے جیسے مسلمانوں کو کہیں زمین مل ہی نہیں رہی ہے اور وہ سوامی جیسے گھٹیا ہندو سے زمین لے کر مسجد بنالیں گے۔ آگے انھوں نے کہا ہے کہ ورنہ وہ 2018میں جب راجیہ سبھا میں ان کی اکثریت ہوجائے گی وہ قا نون بنا کر مسجد کی زمین پر مندر بنالیں گے۔ سوامی ہوں یا کوئی اور سب کی عقل اتنی موٹی ہے کہ وہ مسلمانوں کی یہ بات لاکھوں سے سننے کے بعد بھی نہیں سمجھ پائے کہ ہندوستان کے صرف ۲۰ کروڑ نہیں پوری دنیا کے مسلمان بھی چاہیں تو وہ مسجد کی زمین کسی کو نہیں دے سکتے اور مندر کے لیے جہاں صرف اور صرف شرک ہوگا وہاں کے بارے میں تو سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن اگر آخری عدالت یہ فیصلہ کردے کہ یہ زمین مسجد کی نہیں ہے یا کوئی بھی حکومت قانون بنادے کہ ہم اپنی اکثریت کے بل پر زمین مندر کو دے رہے ہیں تو ا ربوں مسلمانوں میں سے کسی کو شکایت نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ اس کی ذمہ داری مسلمانوں پہ نہیں ہوگی۔

مسلمان ہر پارٹی کے پاس ہیں اور یہ ان کی مرضی ہے کہ وہ سیاسی رہیں یا نہ رہیں اور ہیں تو کس پارٹی میں ہیں ۔ آر ایس ایس کے پاس بھی مسلم منچ ہے انھوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ سرجو ندی کے دوسرے کنارے پر وہ ا یک مسجد بنائیں گے اور دنیا میں یہ پیغام دیا جائے گا کہ مسلمانوں نے اپنی مرضی سے مسجد دے کر دوسرے کنارے پر مسجد بنالی۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں عیدین کا خطبہ موہن بھاگوت صاحب دیا کریں یا وہ جس کو بھی مقرر کردیں ۔

اب سوامی نے کہنا شروع کردیا ہے کہ مغل بادشاہوں نے ہزاروں مندر گرائے تھے، ہم صرف تین واپس مانگ رہے ہیں ۔ ایودھیا کاشی اور متھرا۔ یہ اتنے گھٹیا آدمی کی اتنی گھٹیا بات ہے جس کا جواب علماء کرام نہیں دیں گے۔ اس لیے کہ سوامی کے سال دو سال میں مرنے کے بعد جب کوئی دوسرا فتنہ پرور پیدا ہوگا تو وہ کہے گا کہ سبرامنیم سوامی کو سو کروڑ ہندوئوں کی طرف سے معاملہ کرنے کا کیا حق تھا؟ ایسی مسجدیں تین نہیں تیس ہیں ، میرٹھ کی جامع مسجد اور سنبھل کی جامع مسجد کے پھاٹک پر بڑے بڑے بورڈ لگے ہیں جن پر مقدمہ کے فیصلہ کی عبارت لکھی ہے کہ کس جج نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ مسجد ہے اورہمیشہ سے مسجد میں ہے۔ایسی نہ جانے کتنی مسجدیں ہیں جن پر ہندوئوں نے مقدمے کیے اور فیصلہ ان کے خلاف ہوا۔ اب وہ سبرامنیم کے بعد ان مسجدوں کی بات کریں گے۔ اور ان کے بعد دوسرے ہندومزید مسجدوں کی بات اور یہ سلسلہ اس وقت ختم ہوگا جب ملک میں کوئی بڑی مسجد نہیں رہے گی۔ سبرامنیم سوامی باربار کہہ چکے ہیں کہ نماز کے لیے مسجد ضروری نہیں ۔ وہ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ نماز ہر جگہ پڑھی جاسکتی ہے اور یہی اس کی دلیل ہے کہ نماز عبادت ہے اور پوجا صرف دکھاوا ہے اور اور پیسوں کا کھیل۔مندروں میں جتنے چڑھاوے چڑھتے ہیں ان کے بارے میں ہوسکتا ہے کہ کبھی ایسا ہوجائے کہ حکومت کے خزانے سے زیادہ مندر کا خزانہ ہوجائے۔ اور یہ ہر ہندو جانتا ہے کہ مسجدوں میں چڑھاوے نہیں چڑھتے اور جس مسجد کی جائیداد مکان دکانیں ہوں ان میں وہی ہوتا ہے جو مندروں میں ہوتا ہے۔

ہم صرف اس وقت یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سبرامنیم ہوں یا دوسرے ہندو یہ کہنا بند کردیں کہ ہم قانون بنا کر لے لیں گے۔ وہ 2019کی بات اس لیے کررہے ہیں کہ 2019میں  انھیں ا لیکشن لڑنا ہے اور الیکشن کے لیے موضوع چاہیے۔ سوامی نے جو اب کاشی اور متھرا جوڑا ہے وہ اس لیے کہ سیدھے سادے اور جاہل ہندوئوں کے ووٹ کے لیے ایک مسجد ضروری ہے تاکہ زعفرانی ہندو مخالف پارٹی کے ہندوئوں کے لیے یہ کہہ سکیں کہ وہ تمہارے مندروں کو مسلمانوں کے پاس رکھ کر انہیں ملچھ کررہے ہیں اور ہم پوجا کے لیے انھیں مسلمانوں سے واپس لینا چاہتے ہیں ۔ ہندو کو مندر میں آنے کی اجازت ہو یا نہ ہو اس سے محبت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے راج محل میں داخلہ تو نہیں مل سکتا مگر راجہ سے  محبت کرنا تو فرض ہے۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ دلتوں کو مندروں میں قدم رکھنے کی تو کیا پوجا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور بابری مسجد کو شہید کرنے والوں میں اکثریت ان کی تھی جن کو رام مندر اگربن گیا تو اندر آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ لیکن اگر کاشی اور متھرا کے لیے ضروری ہوا تو وہ پھر اپنی خدمات پیش کردیں گے اس لیے کہ جب تک الیکشن ہیں مسجد اور مندر ضرور رہیں گے۔

آخری بات ہر ہندو لیڈر سے یہ کہنا ہے کہ جب 1948میں مسجد میں مورتیاں رکھ دیں تو ہم نے کیا کرلیا؟ جب اس میں سرکاری تالہ پڑ گیا تو کیا کرلیا؟ پھر جب تالا کھل گیا اور پوجا ہونے لگی تو کیا کرلیا؟ اور جب مسجد شہید ہوگئی تو کیا کرلیا؟ یہ صرف ذاتی بات ہے کہ اگر سپریم کورٹ فیصلہ دے بھی دے کہ یہ زمین مسجد کی ہے تو وہاں کون مسجد بنائے گا اور بن گئی تو کون نماز پڑھے گا جبکہ ایودھیا میں مسلمانوں کو جانے کی بھی اجازت نہیں ہے ؟؟؟؟؟م اور کسی بھی فیصلہ کے بغیر مندر بن جائے تو کون روک لے گا؟

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔