آزادی عمل اور آزادی انتخاب!

ڈاکٹر محمد رفعت

دینِ حق — اِسلام — نے اِنسانوں پر جو احسانات کیے ہیں اُن میں ایک یہ ہے کہ وہ اِنسانوں کوخود اُن کی فطرت سے آگاہ کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ انسان کا تعارف خود اپنے آپ سے کراتا ہے۔ اس تعارف کے ذیل میں وہ انسانی فطرت کا یہ بنیادی وصف سامنے لاتا ہے کہ اِنسان کوآزادی عمل حاصل ہے۔ بلاشبہ اِنسان، طبعی قوانین کے دائرے ہی میں کام کرسکتا ہے لیکن اس دائرے کے اندر عمل کی راہیں اُس پر کھلی ہوئی ہیں۔ وہ مجبورِ محض نہیں ہے، مادی قوتوں کا کھلونا نہیں ہے یا تناسخ کی کسی پُراسرار گردش میں محبوس نہیں ہے بلکہ اپنا آزاد، ارادہ رکھتا ہےاوراِس ارادے کوعملی جامہ پہنانے کے لیے خود اپنی قوتوں سے اورکائنات کے وسائل سے کام لے سکتا ہے۔ با شعور ہستی ہونا اورعمل پر قدر  ت رکھنا، اِنسان کی بنیادی صفات ہیں۔ اِس لیے کسی اِنسان کی آزادی عمل پر قد غن لگائی جائے یا اُسے محدود کیا جائے تووہ سخت پریشانی محسوس کرتا ہے اورپوری کوشش کرتا ہے کہ اُسے عمل کی آزادی دوبارہ مِل جائے۔ اس آزادی کے حصول کے لیے بسا اوقات وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ قربانی کے اِس جذبے کی بنیاد، ہر اِنسان کے وِجدان میں پیوست یہ احساس ہے کہ وہ ایک آزاد ہستی ہے، چنانچہ وہ چاہتا ہے کہ اُس کے اپنے شعور کی عائد کردہ بندشوں کے علاوہ اُس کی آزادی عمل پر کوئی تحدید نہ ہو۔

شعور اورارادے کی موجودگی اورعمل پر قدرت کے ساتھ اِنسان میں اخلاقی حِس بھی موجود ہے جواِنسانی کاموں کے سلسلے میں ایک اہم سوال کا جواب طلب کرتی ہےیعنی ’’یہ کام اچھے ہیں یا بُرے ؟‘ ‘ اس سوال کا پس منظر یہ ہے کہ اِنسان کی آزادی عمل، زندگی کے ہر موڑ پر عمل کی بہت سی راہیں اُس کے سامنے لاتی ہے۔ اِن راہوں میں انتخاب کا سوال در پیش ہوتا ہے۔ اس طرح اِنسانی فطرت کے دو نمایاں خصائص کا تعارف کراتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِنسان کو آزادی عمل بھی حاصل ہے اورآزادی انتخاب بھی۔ اِنسانی زندگی کے لیے جو نظریہ حیات بھی زیر غور لایا جائے اُس میں یہ خوبی ہونی چاہیے کہ وہ اِنسان کی آزادی انتخاب کو مجرو ح نہ کرے۔ اگر اِنسان کی آزادی عمل سلب کرلی جائے یا مفلوج بنادی جائے اور اسی طرح اگر اپنے کاموں میں اُسے انتخاب کی آزادی حاصل نہ ہوبلکہ وہ کسی خاص راہ کواختیار کرنے کے لیے مجبور کردیا جائے تو اس کی اِنسانی شخصیت مجروح ہوجائے گی۔ اُس کی  صلاحیتیں ٹھٹھر جائیں گی اوراُن کی نشوونما نہ ہوسکے گی۔ اِسلامی نظریہ حیات میں فطرتِ اِنسانی کی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے تاکہ اِنسانی زندگی وسعتوں سے ہم کنار ہوسکے۔

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے جوئے کم آب

اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی

آزادی عمل پر تحدید کے محرّکات

ہر اِنسان دنیا میں اکیلا آتاہے اوردنیا سے رخصت ہوتے وقت بھی وہ تنہاہوتا ہے۔ حساب کے دِن اللہ کے سامنے اپنی زندگی کے کاموں کی جوابدہی کرتے وقت بھی وہ اکیلا ہی ہوگا۔ لیکن اپنی دنیوی زندگی میں وہ تنہا نہیں ہوتا بلکہ اپنی انفرادی شخصیت کا پورا احساس رکھنے کے باوجود، دوسرے اِنسانوں کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ دوسرے اِنسانوں کے ساتھ رہنا اُس کی فطرت کا تقاضاہے اور اُس کی ضرورت بھی۔ واقعتاً اِنسانی نفسیات کی ساخت ایسی ہے کہ اِنسان اکیلا نہیں رہ سکتا۔ اِس طر ح اُس کی بنیادی ضرورتیں اُسی وقت پوری ہوسکتی ہیں جب اِنسانی معاشرہ اُس کے گردو پیش موجود ہواور وہ، اُس معاشرے کا حصہ ہو۔ اِنسان کی تمدنی ترقی کے ساتھ اِنسانی معاشرہ زیادہ منظم ہوتا چلا گیا ہے اور فرد   و معاشرے کے باہمی تعامل نے زیادہ متنوع شکلیں اختیار کرلی ہیں۔ معاشرے کے اجتماعی اداروں میں ایک کلیدی ادارہ — ریاست ہے جودوسرے اجتماعی اداروں سے اس اعتبار سے ممتاز ہے کہ وہ بزورِ قوت بھی افرادسے اپنی بات منواسکتا ہے جبکہ دوسرے اجتماعی اداروں کوفرد پر اس درجے کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔

یہ واقعہ ہے کہ معاشرہ اورریاست — فرد کی آزادیِ عمل اورآزادی انتخاب پر بندشیں لگاتے ہیں اور تحدیدات عائد کرتے ہیں۔ معاشرے اورریاست کی تجویز کردہ اِن تحدیدات کے پیچھے، کچھ محرکات کارفرماہوتے ہیں۔ ان محرکات میں سے ایک اہم محرّک — نظم وضبط (Law and order) کی برقراری کی خواہش ہے۔ ریاست اکثر اِس لیے افراد کی آزادی عمل وانتخاب کومحدود کرتی ہے کہ امن وامان قائم رہے اورانسانی اختلافات، تصادم کی شکلیں اختیار نہ کرنے پائیں۔ عموماً افراد نے ریاست کی عائد کردہ اِن تحدیدات کونا گزیر سمجھا ہے اوراِن کی موجودگی پر اعتراضـ نہیں کیا ہے۔ اکثر اجتماعیات پر غور کرنے والے، اس سلسلے میں صرف اتنا چاہتے رہے ہیں کہ ریاست کی عائد کردہ بندشیں، معقول (REASONABLE) ہوں اورناگزیر (MINIMUM)حد سے تجاوز نہ کریں۔

اب ریاست کے علاوہ بقیہ اجتماعی اداروں پر غور کیجئے۔ ریاست کے پاس قوتِ قاہرہ (COERCIVE POWER)ہوتی ہے جودوسرے اجتماعی ادارو ں کے پاس نہیں ہوتی۔ اس طاقت کےنہ ہونے کے باوجود معاشرے کی روایات اور طور طریقے، عموماً افراد کو اپنے سانچے میں ڈھال لیتےہیں اور ڈھالے رکھتے ہیں۔ معاشرے کے عام چلن کے خلاف رویہ اختیار کرنا افراد کے لیے بڑا مشکل ہوتا ہے۔ افراد کواپنا  پابند بنا ئے رکھنے کے لیے جومحرّک — معاشرے کے سامنے ہوتا ہے وہ عافیت پسندی (STATUS QUOISM) ہے۔ معاشرے کے کارفرما عناصر عموماً عافیت پسند ہوتے ہیں اور بحرانی کیفیت (CRISIS)سے ڈرتے ہیں جوان کے خیال میں اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرے میں رائج معیارات اورسماج میں مقبول رسوم ورواج — زیرِ بحث آجائیں اور اُن کے بارے میں ذہنوں میں یہ سوالات پیدا ہونے لگیں کہ یہ معیارات وروایات صحیح، مناسب، معقول، موزوں اورمفید ہیں یا نا درست، غیر مناسب، غیر معقول، نا موزوں اور مضر ہیں۔ بے اطمینانی کی کیفیت سے بچنے کے لیے معاشروں میں یہ رجحان پیدا ہوتا ہے کہ افراد کی آزادی عمل پر (اور آزادی اظہارِ خیال  پر) پابندیا ں لگائیں۔

ریاست کی یہ خواہش کہ نظم وضبط اورامن وامان باقی رہے اوراِسی طرح معاشرے کے بڑوں کی یہ خواہش کہ بحرانی کیفیت پیدا نہ ہو— ایسے رجحانات ہیں جنہیں محض مفاد پرستی پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن افراد کی آزادی پر تحدید عائد کرنے کے ایسے محرکات بھی ہوتے ہیں جو مفاد پرستی پر مبنی ہوتے ہیں۔ ہر سماج میں ایسے عناصر موجود ہوتے ہیں جوانسانوں کے حقوق سلب کرتےہیں، لوگوں پر زیادتی کرتے ہیں اورکمزوروں کا استحصال کرتے ہیں۔ ایسے عناصر کواقتدار مِل جاتا ہے تووہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے عام اِنسانوں کی آزادیِ عمل اور آزادیِ انتخاب پر   نامعقول بندشیں عائد کردیتے ہیں اور اِس طرح قانون اور نظامِ قانون کو قیامِ عدل کے بجائے ظلم وستم کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔

غور وفکر کے اِس مرحلے پر پہنچ کر ایک اہم سوال ہمارے سامنے آتا ہے :

’’کیا ایسی صورت ممکن ہے کہ افراد کوآزادی عمل وآزادی انتخاب حاصل ہواور نظم وضبط بھی برقرار رہے اورمعاشرہ غیر ضروری بحرانی کیفیت سے دوچار نہ ہونے پائے ؟‘‘ اِسلام اس سوال کا اطمینان بخش جواب فراہم کرتا ہے۔

شعور اور شخصیت انسانی

مندرجہ بالا سوال کا جواب دیتے ہوئے اِسلام دو اہم گوشے ہمارے سامنے لاتا ہے۔ جہاں تک فرد کی آزادیِ عمل اور آزادی انتخاب کا تعلق ہے، اُس کی ماہیت پر غور کرتے وقت یہ حقیقت ہمارے سامنے آچکی ہے کہ ہر فرد کا اپنا شعور لا محالہ اُس کے عمل کو ایک متعین رُخ فراہم کرتا ہے  ( یہ بھی کہا جاسکتا ہےکہ فرد کا ضمیر، اس کی آزادی عمل اور آزادی انتخاب پر تحدید عائد کرتا ہے ) البتہ ضمیر اور شعور کی عائد کردہ یہ بندشیں، چونکہ خود فرد کے اندرون سے ابھرتی ہیں اس لیے فرد کی آزاد عامل کی حیثیت، اس نوع کی تحدید سے متاثر نہیں ہوتی۔ اسلام نے اِس بنیادی حقیقت کوکلیدی اہمیت دی ہے۔

غور وفکر کا دوسرا اہم گوشہ یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک، عمل کی بنیاد، ایما ن ہے اورایمان کو شعوری و زندہ ایمان ہونا چاہیے۔ اِنسان کے شعور کوایمان کی روشنی ملے اوراُس کا ضمیر، ایمان سے توانائی حاصل کرے تو اُس کے عمل کودرست رُخ مِل جاتا ہے۔ اِس طرح اِسلام — اِنسان کے شعور کو اِنسان کی انفرادی شخصیت اور معاشرہ وریاست کے درمیان — ایک موثر واسطے (LINK)کی حیثیت دے دیتا ہے۔ چنانچہ فرد، ایک مجبور اِنسان کی طرح سماج اورریاست کا جامد جُز نہیں بنتا بلکہ ایک با شعور اِنسان بن کر سماج اورریاست سے تعلق رکھنے والا موثّر عامل بن جاتا ہے۔ ایمان کی دولت سے مالا مال، باشعور اور با ضمیر شخص، سماج کی روایات وچلن کا اندھا مقلّد ہونے کے بجائے اپنے اختیارِ تمیزی سے کام لیتا ہے اور غلط وصحیح میں امتیاز کرتا ہے۔ خیر میں تعاون کے ساتھ وہ پوری وضاحت کے ساتھ یہ موقف سامنے لاتا ہے کہ شر میں تعاون نہیں کیا جاسکتا۔ اِسی طرح وہ نظم وضبط کی برقراری میں ریاست کے اداروں کے رول کوتسلیم کرتا ہے اور اس سلسلے میں اُن کے ساتھ تعاون کرتا ہے لیکن یہ سب اِس لیے کرتا ہے تاکہ زمین میں فساد برپا نہ ہو۔ چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فرد کی آزادی کی بحالی کے لیے اسلام کی تجویز کردہ صور ت میں، انسانی عمل پر محض وہی تحدیدات عائد ہوتی ہیں جن کے عائد کیے جانے کا مطالبہ، اِنسان کا اپنا شعور اور ضمیر کرتا ہے۔ باقی رہیں بیرونی وخارجی تحدیدات تو ا ُن میں سے، فرد صرف اُن بندشوں کو، روا سمجھتا ہے جواُس کے شعور اورضمیر سے ہم آہنگ ہوں۔ اس صورت میں ریاست کی قوتِ قاہرہ اور معاشرے کی ناروا، روایت پسندی، فرد کی شخصیت اور اُس کی آزادی کو مجرو ح نہیں کر پاتی۔

صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بگل بھی ہے

انہی پابندیوں میں حاصل آزادی کو توکرلے

ایمان اورشعور

زندہ وحقیقی ایمان حاصل ہوتو انسان کی فکر ونظرمیں صالحیت آجاتی ہے اور وہ اندھیروں سے نکل کرروشنی میں آجاتا ہے۔ قرآن مجید کا  ارشاد ہے :

 لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللہِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۤ لَاانْفِصَامَ لَہَا۝۰ۭ وَاللہُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝۲۵۶ اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۝۰ۙ يُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ۝۰ۥۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰۗــــُٔــھُمُ الطَّاغُوْتُ۝۰ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ۝۰ۚ ھُمْ فِيْہَا خٰلِدُوْنَ۝۲۵۷ۧ  (سورہ بقرہ۔ آیات 256، 257)

’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جوکوئی طاغوت کا اِنکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ اوراللہ (جِس کا سہارا اُس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی ومد دگار اللہ ہے اوروہ اُن کوتاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور (اس کے برعکس) جولوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی ومددگار، طاغوت ہیں اورو ہ انہیں روشنی سے نکال کر تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے۔ ‘‘

اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پر ایمان لا کر اِنسان غلط خیالات، کج فکری اور انتشارِ فکر کے اندھیروں سے نجات پالیتا ہے اورایسی روشنی میں آجاتا ہے جس کی بدولت اُس کے خیالات درست اورحق کے ترجمان ہوجاتے ہیں، اُسے راست فکری میسر آتی ہے، اُس کی عقل صحیح نتائج اخذ کرنے کی اہل ہوجاتی ہے اورغلط اورصحیح میں تمیز پر وہ قادر ہوجاتا ہے۔ ایسا انسان معاشرے کی غلط روایات اور جاہلی  رسوم سے متاثر نہیں ہوتا بلکہ معاشرے کواِن گمراہیوں سے نجات دلانے والا مؤثر عامل بن جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ایسے انسانی کردار کا تذکرہ کیا گیا ہے :

اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰہُ وَجَعَلْنَا لَہٗ نُوْرًا يَّمْشِيْ بِہٖ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُہٗ فِي الظُّلُمٰتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْہَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكٰفِرِيْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝۱۲۲ (سورہ انعام۔ آیت 122)

’’کیا وہ شخص جوپہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اُسے زندگی بخشی اوراس کووہ روشنی عطا کی جِس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے، اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جوتاریکیوں میں پڑاہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو؟ کافروں کے لیے اسی طر ح  اُن کے (بُرے ) اعمال خوش نما بنادیے گئے ہیں۔ ‘‘

یہاں قرآن مجید نے ہدایت سے محرومی کے دور کو، جوایک انسان پر گزرا، حالتِ موت سے تعبیر کیا ہے۔ جب اُـس اِنسان کواللہ کی توفیق سے ہدایت مل گئی تووہ مُردہ نہیں رہا بلکہ زندہ ہوگیا۔ یہ باشعور، بیدار ضمیر شخص، اِنسانی معاشرے سے الگ تھلگ نہیں رہتا۔ بلکہ اپنے نور کے ہمرا ہ وہ اِنسانوں کے درمیان رہتا بستا ہے۔ اُس کی ایمانی کیفیت نے اُسےوہ روشنی بخشی ہے کہ معاشرے کے اندھیرے اُس پر غالب نہیں آنے پاتے۔ اس کے برعکس اُس کے وجود سے اندھیرا مٹنے لگتا ہے  اوراُن لوگوں میں جوحق سے محروم تھے، حق شناسی کی اہلیت پیدا ہونے لگتی ہے۔

یہ اِسلام کا کارنامہ ہے کہ وہ فرد کی آزادی کو محفوظ رکھتے ہوئے اُسے معاشرہ کا کارآمد جُز بناتا ہے۔ باطل سے سمجھوتہ کیے بغیر، معاشرے سے مثبت تعلق کی استواری کا ڈھنگ اِسلام نے سکھایا ہے۔ ریاست کے ظلم کا ساتھ دیے بغیر نظم وضبط کی برقراری کا سبق اِسلام نے دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اِسلام کے علاوہ، دوسرا کوئی نظریہ حیات اِنسان کی ایسی رہنمائی نہیں کرتا جہاں انسان کی آزادی سلب نہ ہو اوروہ معاشرہ وریاست سے لا تعلق بھی نہ ہو۔ اہلِ ایمان کو دینِ حق کی اس خوبی کی قدرو قیمت کا اِدراک کرنا چاہیے اورعالمِ انسانیت کو اس سے آگاہ کرنا چاہیے تاکہ اِنسان کو وہ آزادی عمل اور آزادی انتخاب میسر آسکے، جس کی طلب اُس کی فطرت میں پائی جاتی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔