آصفہ کے قتل کا فرضی خاکہ اور پولیس کی کارکردگی

ایم شفیع میر

 اخلاقیات اور حسن سلوک کسی بھی فرد کا ذاتی فعل ہے۔ انسان کا رویہ اسکے اپنے ظرف، خاندانی اقدار اور تربیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ لیکن جب کسی معاشرے میں اخلاقی اقدار کو دفن کیا جاتا ہے تومسلسل پستی اور زبوں حالی اس معاشرے کا مقدر بن جاتی ہے۔ ریاست جموں کشمیر آج کل ایسے ہی کچھ ادوار سے گزر رہی ہے جہاں اخلاقی اقدار کا روز ایک نیا جنازہ نکل رہا ہے۔انسانیت کے نام طمانچوں کی پوچھاڑ ہو رہی ہے۔ صوبہ جموں کے ضلع کھٹوعہ میں ایک ایسا ہی افسوس ناک واقعہ پیش آیاجس نے انسانیت، اخلاقیات، آداب و احترام سے جڑے تمام ابواب کے پرخچے اڑا دیے۔پولیس نے غیر سنجیدگی کی طوفان ِ بد تمیزی کی تمام حدیں عبورکر تے ہوئے ایک سات سالہ معصوم بچی کو اپنی کام چوری کا شکار بنا دیا۔ یہ کہانی ایک سات سالہ معصوم بچی آصفہ کی ہے جسے کوئی اغواء کر کے لیاگیا تھا اغواء شدہ آصفہ کے والدین اپنی معصوم سی بچی کی جلد از جلد بازیابی کی تگ و دو میں پولیس تھانہ کے دفتر کے باہر ایڑھیاں رگڑ تے رہے تاکہ پولیس جلدی سے معصوم بچی کی تلاش کیلئے کوئی فوری اقدام اٹھائے لیکن افسوس صد افسوس…!!

پولیس  کی اپنی فرائض منصبی کو بالائے طاق رکھا دیااور غیرسنجیدگی کی ایسی غلیظ مثال پیش کر دی جو محکمہ پولیس کے نام پر سیاہ داغ ہے۔ پولیس کا غیر اخلاقی اور انسانیت سوز راویہ دیکھئے کہ معصوم بچی کے والدین کی آنکھوں سے بہتے اشکوں کے سمندراپنی ننھی کلی فکر و سوچ سے چہرے پر چھائی مایوسی کی بھی لاج نہ رکھ سکے اور مجبور و مظلوم والدین پر اپنی طاقت آزمانے لگے۔ پھر وہی ہوا جس کی فکر والدین کو ستائے جارہی تھی، معصوم بچی کا اغوا کے بعد قتل کیا گیا …جی ہاں ! اُس معصوم بچی کا قتل جس کی رپورٹ سات روز قبل اُس کے والدین نے پولیس تھانہ میں درج کرائی تھی جس پر پولیس نے انتہا درجے کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔پولیس کی یہی غیر سنجیدگی اُن کی ناقص کار کردگی کا ثبوت پیش کرنے لگی۔

 جی ہاں …!!کھٹوعہ واقعہ جموں و کشمیرپولیس کی کارکردگی کا امتحان بن گیا ہے۔ لوگ بے وجہ پولیس کے خلاف احتجاج نہیں کررہے ہیں ۔آپ ذرا اس پہلو پر غور کیجئے۔یہ بات جو عام فہم سی اور سادہ سی ہے کہ پولیس نے آصفہ قتل کیس کے ملزم کا جو خاکہ بنایا ہے کتنا بچگانہ ہے۔یہ بات ہر باشعور اور بالغ نظر کے اذہان سے چپکی ہوئی ہے لیکن عام آدمی خاموش اس لئے ہے کہ کوئی کالم نگار، کوئی اینکر یا کوئی تجزیہ کار ابھی تک اس موضوع کے پیچھے نہیں پڑاکہ آصفہ قتل کیس میں جو خاکہ مجرم کا پولیس کی جانب سے منظر عام پر لایا گیا ہے،یہ کتنا احمقانہ ہے۔اُسے اقلیتی طبقے کے تئیں کھلی دشمنی سے تعبیر نہ کیا جائے تو پھر کیا کہا جائے۔ چاپلوس میڈیا اگر ایک سرکاری اسکیم ’’ بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو‘‘ قصیدہ گوئی کرنے میں اپنی نام نہاد صحافت کا ہنرپیش کرتے ہیں تو کیوں آج ایک بیٹی کے وحشیانہ قتل پر خاموش ہے، کہاں گیا وہ ارنب جو خود کو ملک کا ایک سچا اور ایماندار صحافی قرار دے رہا ہے، کہاں گیاوزیر اعظم ہند مودی کا’’بیٹی بچائو، بیٹی پڑھائو ‘‘ کا کھوکھلا نعرہ۔ قابل ِ رحم تو یہ ہے کہ ریاست میں ایک خاتون وزیر اعلیٰ کے ہوتے ہوئے بھی معصوم بچیاں عصمت دری کا شکار ہو رہی ہیں اور وہ ’’ لاڈلی بیٹی ‘‘نام نہاد اسکیم کا نعرہ دیکر اپنی سیاسی بساط کے ترانے اپنی ہر تقریر اور تحریر میں لکھ پیش کر رہی ہے۔ایک طرف سے جہاں ارباب اقتدار آصفہ کے قاتل کو گرفتار کرنے کیلئے پولیس کو سراہا رہی ہے وہیں پولیس کی مہارت پر ہر انسان کے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے اور پولیس کی مہارت پر بے بہا سوال اُبھر آتے ہیں کہ جیسے پولیس مجرم کو بچانا چاہتی ہے۔

تیز ترار پولیس سربراہ کی اس سانحہ پر خاموشی ہزار سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ وہیں مقامی نمائندے چوہدری لال سنگھ کی خاموشی بھی مجرمانہ سی لگ رہی ہے۔ گو یا وہ خانہ بدوشوں کے ساتھ پیش آئے اس واقع پر خوشی منارہے ہوں ۔یہاں ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ سانحہ کا انجام دینا اور پولیس کی کاروائی کرنا دو مختلف نہیں بلکہ دو متضاد اقدام ہیں ۔پولیس کی طرف سے ملزم کا بالکل متضاد خاکہ پیش کرنا جان بوجھ کر ایسا بنایا گیا ہے تاکہ اصل مجرم تک پہنچا نہ جاسکے۔کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک پندرہ سالہ لڑکا ایک سات سالہ معصوم بچی کو اغواء کرتا ہے۔ وہ لڑکا اسی گائوں سات روز تک اس لڑکی کو اپنی تحویل میں رکھتا ہے اور پھر معصوم کلی کی آبروریزی کی جاتی ہے، پھر بجلی کے کرنٹ دیئے جاتے ہیں اور اس کے بعد اس معصوم بچی کا قتل کیا جاتا ہے لیکن سات روز تک اسی گائوں میں پولیس کومجرم کا کوئی سراغ نہ ملنا’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ‘‘کے مصداق پردے کے پیچھے کوئی اور ہی کہانی پیش کر رہا ہے۔

یہ قتل ایک سوچی سمجھی سازش اور پولیس انتظامیہ کی مدد سے انجام دیا گیا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ پولیس ابھی اتنی گئی گزری نہیں ہے کہ ایک ہی گائوں میں سات روز سے ایک پندرہ سالہ لڑکا آصفہ کو اپنی تحویل میں رکھتا ہے اور پھر سات روز کے بعد اس کا قتل کر دیتا ہے۔ سات روز تک پولیس اس کا پتہ لگانے میں ناکام ہوتی ہے اورآصفہ کا قتل ہونے کے محض ایک روز بعد پولیس ملزم کو گرفتار کرلیتی ہے۔ یہ کسی فلمی اپیسوڈ جیسا انجام دیا گیا واقعہ نہیں تو اور کیا ہے؟؟اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس نے آصفہ کے قتل سانحہ پر جہاں ناقابلِ معاف غفلت شعاری برتی ہے وہیں اس انسانیت سوز واقعہ کو انجام دینے میں پولیس کی حصہ داری کی بو بھی آ رہی ہے۔عام لوگوں کا پولیس کے تئیں غصہ ہونا،، بیزار ہوناایک لازمی امر ہے۔ پولیس جسے قوم کا محافظ سمجھا جاتا ہے اور جس کے نام پر پولیس کروڑوں کی تنخواہیں وصولتی ہے اگر پولیس اس میں ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے اور آئے روز لفظ ’’محافظ ‘‘کا جنازہ نکلتا نظر آ رہا ہو تو پھر عام لوگوں کا پولیس پر عدم اعتماد کا اظہار کر نا لازمی سا بنتا ہے۔

 گوکہ ماضی سے لیکر آج تک ایسے واقعات کو ہمیشہ بیان بازیوں اور لواحقین کو بطورِ معاوضہ فراہم کر نے تک محدود کیا جا تا رہا ہے لیکن بار بار رونما ہو رہے ایسے سارے واقعات اور اٹھتے سوالات ارباب اقتدار و اختیار کے منہ پر طمانچہ ہیں ۔ حکمران کوئی بچے نہیں جن کو سب بتانا پڑے کہ کس طرح اصطلاحات نافذ کرنی ہیں ،کیا سیکورٹی پلان بنانے ہیں ،یہ سب اگر ہو رہا ہے تو یہ محض حکومت کی غیر سنجیدگی کا نتیجہ ہے جو ہر سانحہ کواپنی چوڑی چکلی باتوں ، فریب کاریوں اور مالی امداد کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔ لیکن یاد رہے عوام بچے ہیں کہ آپ کے دوروں اور تقریروں کے لولی پاپ سے بہل جائیں گے۔

   یاد رہے جب تک اس قابل شکن سانحہ میں ملوث حقیقی قصوار کو سامنے نہ لایا جائے تب تک بد اخلاقی، غفلت شعاری اورغیر ذمہ درانہ رویے کاداغ پوری پولیس فورس کے دامن پر لگارہے گا۔کیونکہ پولیس ایسا محکمہ ہے جسے ریاست نے عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لئے چنا ہے لیکن اگر یہ لوگ عوامی مشکلات کو لیکر غیر سنجیدگی برتیں تو بلاشبہ اپنے پیشے کے ساتھ بے ایمانی کرنے والے ایسے پولس اہلکاروں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔ پولیس سربراہ سے یہ گزارش ہے کہ وہ سیاسی بیانات سے زیادہ فرائض منصبی کا ثبوت پیش کریں اور محکمہ پولیس کے دامن کو  الزامات کی گندگی سے پاک رکھنے میں اپنی توجہ دیں تاکہ مستقبل انھیں ایک ایماندر، انسان دوست آفیسر کے طور یاد رکھا جائے اور پولیس محکمہ کے ان ذمہ دار پولیس افسروں کو بھی یاد رکھا جائے جنھوں نے قومی حفاظت کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔