آصفہ! ہمیں معاف کردے

قاسم سید

کیا ہم واقعی مہذب‘باشعورسماج کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ کیا ہمیں اس بات پر فخر کرنے کا حق ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے باشندے ہیں اور کیا سماج مذہبی‘ لسانی ‘تہذیبی اورثقافتی بنیادو ں پر اتنی بری طرح منقسم ہوگیا ہے کہ وہ صحیح اور غلط ‘سچ اور جھوٹ‘اچھے اور برے کی تمیز بھی بھلا بیٹھا ہے کیونکہ انسان اور جانور کے درمیان تہذیبی شعور کی یہی لکیر فرق کرتی ہے یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں کی سیاست نے اتنا بے غیرت‘ بے شرم‘ بے حیا اور ڈھیٹ بنادیا ہے کہ ملزم اور مجرم کی حمایت یا مخالفت میں بھی مذہب کو تلاش کیا جانے لگا ہے۔ انسانیت کاپانی مرچکا ہے۔ قانون ہاتھ میں لینے ‘خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے اور لااینڈ آرڈر کو اپنی جیب میں سمجھنے کا رجحان سفاکیت کی تمام حدوں کو پارکرگیا ہے۔

کیا ستر سال کی جمہوری بنیادیں اتنی کمزور تھیں کہ چند سالوں میں انہیں کھوکھلا کردیاگیا کہ ہم جمہوریت کے ساتھ صبر کھوتے جارہے ہیں اور آمرانہ طرز حکومت کے حق میں وزن ڈال رہے ہیں۔ جس سے مختصرمدت میں مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں، لیکن یہ ملک گذشتہ ستر سال کی کامیابیوں کو اپنے ہاتھوں تباہ کردے گا افسوس کہ ووٹوں کی سیاست کے خمار میں کون کون سے جوہر ضائع ہو رہے ہیں نہ سیاست دانوں کو فکر ہے اور نہ ہی سماجی مفکروں کو‘ اخلاقی گراوٹ کے زوال کا عروج یہ ہے کہ زانیوں اور بدکاروں کو بچانے کے لئے ترنگا یاترانکالی جائے اور جے شری کے نعروں میں معصومیت کی چیخیں دبادی جائیں اور کہیں پوری حکومت محض اس لئے عصمت دری کے ملزم کے حق میں کھڑی ہوجائے کہ وہ حکمرا ں کی ذات سے تعلق رکھتا ہے کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ وکلا جو عدالتوں کے رفیق اور قانون کے رکھوالے ہوتے ہیں ان کی پوری تنظیم کسی ملزم کے لئے سڑک پر اتر آئے کیونکہ وہ ہندو ہے اور مظلوم مسلمان۔ ان کی آنکھوں پر بھی قانون کی دیوی کی طرح پٹی بندھی ہے؟ کیا ہم نئی نسلوں کو تیار کررہے ہیںکہ وہ دوسرے مذہب والوں کی عصمتوں سے کھیلیں اور پھر ان کو بچائیں۔

عدالت کا محاصرہ کرلیاجائے کہ ملزم وہاں پہنچ نہ سکے اور اس کی ریمانڈ کی مدت ختم ہوجائے۔ پولیس چارج شیٹ پیش کرنے میں ناکام رہے۔ اس مجرمانہ ذہنیت کی سفاکیت ودرندگی کو مخلوط حکومت میں شریک پارٹی کے وزیروں کا تحفظ ملے۔ مطلب انسانیت مر چکی ہے۔ ہمارے سماج کے لئے بے شرمی‘ بے حیائی اور بے غیرتی جیسے الفاظ بھی ناکافی ہیں۔ کیا بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو کا عملی نمونہ یہی ہے کہ حکمراں طبقہ ان کی عزت کو تار تار کرے اور مجرموں کو سیاسی وقانونی تحفظ فراہم کرے۔ پورا سیاسی سسٹم ان کے بچائو میں کھڑاہوجائے۔ یہ سوچ کر دماغ کی رگیں چٹخنے لگتی ہیں۔ رگوں کا خون ابلنے کی بجائے منجمد اور سرد ہونے لگتا ہے۔ آنکھیںپتھرائی سی ہوجاتی ہیں کیونکہ ہر بچی کو دیکھ کر آصفہ سامنے آجاتی ہے معصوم سی گڑیا کھلونوں سے کھیلنے کی عمر کسی کی بیٹی، گڈی ہر بیٹی میں نظرآنے والی آٹھ سال کی آصفہ، اس ملک میں روزانہ نہ جانے کتنی بچیاں درندگی کا شکار بنتی ہیں۔ مگر آصفہ کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ فرقہ وارانہ ذہنیت کا سب سے بدترین نمونہ ہے۔ ایک ریٹائرڈ ہندو افسر اپنے نابالغ بھتیجہ کو اکساتا ہے کہ وہ بکریاں چرانے والی اس بچی کا اغوا کرے۔ اغوا کرلیاگیا ایک مندر میں رکھاگیا جہاں بھکت ماتھا ٹیک کر بھگوا ن سے آشیرواد لیتے ہیں جموں کی آٹھ سالہ آصفہ سے کئی دنوں تک اجتماعی درندگی، رشتہ داروں کو بلابلاکر معصوم کے ساتھ بربریت، بے ہوشی کی دوائیں، بھوکے پیٹ بے ضمیر، پولیس افسر نے بھی منہ کالا کیا جب دل بھر گیا تو اس کا گلا گھونٹ دیا اور پھر پتھر سے سرکچل دیا۔ ملزم پکڑے گئے۔ پولیس کو چارج شیٹ پیش کرنے کے لئے پسینہ بہانا پڑا کیونکہ جموں بار ایسوسی ایشن اسے ہندوئوں پراتیاچار مانتی ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ صدیوں کے مظالم کا ردعمل ہے جموں وکشمیر سرکار میں بی جے پی کوٹہ کے وزیر ملزموں کی گرفتاری کے خلاف مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس جلوس کو ترنگا یاترا کا نام دیاجاتا ہے۔ جے شری رام کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ کیا مریادا پرشوتم شری رام اسی کام کے لئے رہ گئے؟ان کو جرائم پیشہ عناصر کی ڈھال بنادیاگیا؟ کیاہمارے سینے میںکوئی ہوک اٹھی، اپنی معصوم بچی کو وارفتگی کے ساتھ اپنی گود میں بھرلیا کہ خدانہ کرے وہ کسی کی نظر بدکا شکار رہے۔

اخبارات کی شہ سرخیوں میں آئی آصفہ بھی غریب بکروال گھر کی بیٹی تھی اسے محض اس لئے انصاف سے محروم نہ رکھاجائے کہ وہ مسلمان تھی اور دوسرا دھرم ماننے والی تھی اور ملزمو ں کو اس لئے نہ بچایاجائے کہ وہ ہندو ہیں کیونکہ اگرانصاف بھی ہندو مسلم بنادیاگیا یہ ملک باقی نہیں رہے گا اسی آس نے اب تک مظلوموں اور محروم طبقات کے جذبات ‘غصہ اشتعال‘ ردعمل اور انتقامی جنون پر باندھ بنا رکھا ہے کہ انصاف تاخیر سے ہی سہی مگر ملتا ہے‘اس باندھ کو ہندومسلم نفرت کے سیلاب میں بہانے کی کوشش بہت ہی خطرناک‘ تباہ کن اور بھیانک نتائج کو جنم دے گی۔ یہ سوچنا بھی محال ہے کہ آخر آٹھ سال کی معصوم بچی جس کے ساتھ نہ صرف درندگی کی گئی بلکہ بے رحمانہ طریقہ سے سرکچل کر مارڈالاگیا۔ مشتعل بھیڑ اسے انصاف دینے کی راہ میں مزاحم ہوگی اور ایسے ملزموں کے حق میں کھڑی ہوجائے گی سماجی گراوٹ اور اخلاقی زوال کی اس سے بدتر مثال نہیں ملے گی۔

معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو کے علمبردار انکائونٹر اسپیشلسٹ وزیراعلی کے راج میں ایک لڑکی گذشتہ ایک سال سے سڑکوں پر دھکے کھارہی ہے کہ ان کے ایم ایل اے نے اس کی عصمت سے کھلواڑ کیا اور پولیس نے رپورٹ درج نہیں کی۔ مجسٹریٹ کے یہاں بیان درج کرانے کے بعد رپورٹ لکھی گئی توایم ایل اے ملزم کا نام غائب‘ وہ خودکشی کی کوشش کرتی ہے تو میڈیا کی شہ سرخی بن جاتی ہے۔ ایم ایل اے کےحق میں یہاں بھی پورا سسٹم کھڑا ہوجاتا ہے سرکار سے لے کر انتظامیہ اور پولیس معاملہ کو دبانے اور مظلوم کو ظالم ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ ملنے کا وقت نہیں دیتے لیکن ملزم ان سے ملنے میں کامیاب ہے۔ اس لڑکی کے باپ کو ایم ایل کا بھائی اتنا مارتا ہے کہ اس کی آنتیں پھٹ جاتی ہیں‘ جسم کے اندرونی حصوں کے زخموں میں خون کا رسائو اور گہری چوٹوں کے سبب اس کی موت ہوجاتی ہے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں 14زخموں کی بات سامنے آتی ہے اسی حالت میں جیل بھیج دیاجاتا ہے جہاں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ دیتا ہے۔ یہی نہیں ایم ایل اے کو مکمل سرکاری پروٹوکول حاصل ہے۔ اس کی گرفتاری تودور ایس ایس پی کے گھر چائے پلاکررخصت کیاجاتا ہے جب ایس آئی ٹی تحقیق کرنے جاتی ہے ہزاروں کی بھیڑ گھیرائو کرتی ہے۔ طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ یہ سب سنت یوگی کے راج میں ہی ممکن ہے۔ کیونکہ ملزم ٹھاکر ہے اور وزیراعلیٰ بھی ٹھاکر‘ یوگی راج میں اعلی ذاتوں نے اختیارات سنبھال لئے ہیں اقلیتوں اور دلتوں پر مظالم میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ انکائونٹر میں جو مارے جاتے ہیں ان میں بھی اکثریت دلتوں پسماندہ ذاتوں اوراقلیت کی ہے تو سوال یہ پیداہوتا ہے کہ آخر سماج اتنا بے حس اور ضمیر مردہ کیوں ہوتاجارہا ہے کہ جہاں زانیوں کو بھی عزت مآب کہاجارہا ہے۔ یہ بھیڑ اپنے حقوق کی بازیابی اور تحفظ کے لئے سڑکوں پر نہیں اترتی لیکن بھاڑے کے ٹٹو بن کر ظالموں کو بچانے کے لئے آجاتی ہے۔ وہ ان ہاتھوں کو پکڑنے میں ناکام ہے جو اس پر ظلم کے لئے اٹھتے ہیں بلکہ غیر محسوس طریقہ سے ان کی آلہ کار بن جاتی ہے۔

کہیں مذہب کے نام پر تو کہیں ذات پات کے نام پر‘ لنگایت کے علیحدہ مذہبی درجہ دینے کی مانگ کو تسلیم کرنے سے بوکھلائی طاقتیں اپنے شکنجہ کو کسی قیمت پر کمزور ہونے نہیں دیناچاہتیں اس لئے مذہب اور ذات کے نام پر بھیڑ کا خون گرم کیاجارہا ہے۔ معاملہ آصفہ کی مظلومیت اور سینگرکی حیوانیت کا نہیں بلکہ انسانیت‘قانون اور مذہبی ہم آہنگی کا ہے۔ اگر اس کھیل کو جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تو پھر گھر گھر آصفہ جیسی وارداتیں(خدانخواستہ) اور سینگر جیسے بھیڑئیے لہو سے سنے منہ لے کر دندناتے پھریں گے۔ اب بھلے ہی یوگی راج سینگر پر میڈیا ٹرائل اور چوطرفہ دبائو کے بعد مقدمات قائم کرے اسے گرفتار بھی کرلے لیکن وہ ذہنیت بے نقاب ہوگئی جس نےملک میں اخلاقیات وانسانیت کاجنازہ نکال دیا ہے۔ گئورکشکوں کی دہشت گردی اور بےگناہوں کو پیٹ پیٹ کر مارڈالنےکی مذہبی شناخت کی بنا پر انجام دی گئی واراداتوں پر آنکھیں موندنے کا ہی نتیجہ ہے کہ سماجی مجرم قانون کو آنکھیں دکھارہے ہیں۔ اسے ہندو مسلم چشمہ سے نہ دیکھاجائے یہ انسانیت اور اخلاقیات کا سوال ہے۔ ملک کی جمہوری قدروں کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ یہ قانون کی حکمرانی کا مسئلہ ہے۔

یہ آئینی اداروں کے وقار اور دبدبہ کو چیلنج ہے۔ یہ انتظامیہ کی سچی اور غیر جانبدارانہ کارکردگی کا امتحان ہے۔ اگر ان سوالوں کے جواب میں مایوسی ہاتھ لگی تو پھر وہ انارکی پیداہوگی جس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مشتعل اور جنونی بے قابو ہجومی ذہنیت سے ملک کو بچانے کے لئے گھر سے باہر نکلناہوگا ورنہ کل کوئی دستک ہمارے گھر پر بھی سنائی دے سکتی ہے شاید کوئی آصفہ محفوظ نہیں رہے گی۔ اور ہاں آصفہ ہمیں معاف کردے، ہمارے پاس اور بھی کام ہیں، ہمیں شریعت بچانا ہے اور ملک بھی، تیرے لئے سوچنے کا ہمارے پاس وقت بھی نہیں۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔