آنحضرت ؐ کا اپنے رفقاء کے ساتھ برتاؤ (قسط اول)

تحریر: خرم مرادؒ  ………    ترتیب: عبدالعزیز

کسی عقیدہ اورمقصدپرمسلمانوں کوجمع کرلیناکوئی آسان کام نہیں ، لیکن کہیں زیادہ مشکل کام اُن کوجمع رکھنے کاکام ہے۔ یعنی اُن کوایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرنا، شیرازہ بندی کرکے ایک وحدت بنادینا، مزاج میں ہم آہنگی پیداکرنا، جذب ولگن کوبرقراراورزندہ رکھنا، سردوگرم میں اپنے مقصدپرقائم رکھنااوراپنی راہ پرآگے بڑھانا۔افتراق وانتشارہراجتماعی وحدت میں آسانی سے گھس کراس کوکمزورکردیتے ہیں۔اورایک قائد کاکمال یہ ہے کہ وہ دعوت پرلبیک کہنے والوں کودعوت پرمجتمع رکھے۔

دعوت کی اپنی کشش اورداعی کے اخلاق کے علاوہ ، حالات کادباؤ،تقریر، تحریر، نعرے بھی بھیڑجمع کرلینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس بھیڑکوایک اجتماعی قوت میں بدل دینااوراس قوت سے اس طرح کام لیناکہ اوّل اورآخرساتھ چلنے والے اپنے قائد کے والد وشیفتہ رہیں ، ایک بالکل مختلف نوعیت کی شخصیت کامطالبہ کرتے ہیں ۔ اوراس لحاظ سے نبی کریم ﷺکی سیرت ایک بہترین نمونہ ہے ۔ انسانوں کوجمع کرکے ان سے کام دوسرے لیڈروں نے بھی لیاہے ۔ حق کے لئے بھی لیاہے اورباطل کے لئے بھی ۔ لیکن عام طورپرساتھ کام کرنے والوں نے کسی نہ کسی مرحلہ پرکسی بے اطمینانی کااظہارکیاہے ۔ صرف آپؐ کے ساتھی اورمتبعین آپؐ کے دورمیں بھی ٗاورآج ۱۴۰۰ برس بعدتک بھی آپؐ کے اسی طرح گرویدہ رہے ہیں اورآپؐ سے اسی طرح بے پناہ محبت کرنے والے رہے ہیں جس طرح کہ روزاوّل تھے۔

رؤف رحیم

یہ کس چیزکااعجازتھا؟ اس لحاظ سے بھی آپؐ کے اسوہ کے گوناگوں پہلوہیں جن کاتذکرہ کیاجاسکتاہے ،اوران میں سے بعض کاتذکرہ ہم کریںگے ۔لیکن میراخیال ہے کہ آپؐ کے اس پورے اسوہ کے سارے پہلوؤںکودوالفاظ میں سمیٹاجاسکتاہے ۔وہی الفاظ جوقرآن نے آپؐ کے لئے استعمال کئے ہیںیعنی آپؐ اپنے ساتھیوں کے لئے مومنین کی جماعت کے لئے رؤف رحیم تھے۔

’’دیکھو تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیاہے ۔ جوخود تم ہی میں سے ہے ، تمہارانقصان میں پڑنا ، اس میں شاق ہے ۔ تمہاری فلاح کاوہ حریص ہے ۔ ایمان لانے والوں کے لئے وہ شفیق اوررحیم ہے۔‘‘     (التوبہ -۹  :  ۲۸)

یہ وہ الفاظ ہیں جو صفاتِ الٰہی کے اظہارکے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں ۔گویااللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے اخلاق وبرتاؤاورآپؐکی صفات کے لئے وہی الفاظ استعمال کردیئے جواس نے خود اپنے لئے کئے ہیں۔ اس سے جہاں اللہ تعالیٰ کی حد تک انسانی زبان کی تنگ دامنی ظاہر ہوتی ہے ، وہاں نبی کریم ﷺکی حدتک آپؐکی شان اوررفعت کااظہارہوتاہے ۔ یہ ملحوظ رہے کہ سارے انسانوں اورمخلوقات کے لئے آپؐکے وجود، آپؐکے کارنامہ رسالت وہدایت ، انداز تبشیر، دعوت الی اللہ اورقیام قسط اورآپؐ کے اخلاق کریمانہ کوقرآن مجیدنے سمیٹ کرایک ہی لفظ سے اداکیاہے ٗ رحمۃ اللعالمین۔

اپنے ساتھیوں کے ساتھ آپؐکے تعلق اورروش کے جس پہلو کوچاہئے دیکھ لیجئے ۔جس زاویہ سے چاہئے نظرڈال لیجئے ۔ جس رنگ کوچاہئے اُبھارلیجئے ۔ تصویرایک ہی بنے گی۔ سراپاشفقت۔ سراپارحمت۔ اسی طرح ان دونوں الفاظ کووسعت دیجئے ، توہرصفت اورہراخلاق ان میں سماجائے گا۔ ساتھیوں سے محبت ، ان کی قدر، ان کی بھلائی کی حرص، ان کی خدمت ، ان کی تزکیہ، ان کی تعلیم ، ان سے مشورہ ، ان کے ساتھ عفوودرگزراوریہاں تک کہ ان کی تادیب وتعزیربھی ۔ آخراللہ تعالیٰ نے بھی اسم ذات کے طورپراگرکسی دوسرے لفظ کواستعمال کیاہے تووہ رحمن کالفظ ہے ۔اورصفت رحمن بھی اس کی تقریباًہرصفت کااحاطہ کرتی ہے خواہ وہ خالقیت ہویارزاقیت ٗوہ علم ہویاقدرت‘امن وسلام ہویاجبروت وملکوت ۔ اورپھربات یہ ہے کہ اگررحمن کارسول، رؤف رحیم نہ ہوتاتوکیاہوتا۔

قرآن مجیدکی اس آیت میںہی آپؐکی سیرت کے ان دونوں جامع پہلوؤںکی تشریح ہوتی ہے ۔ رؤف میں منفی یعنی رفع شراوردفع مضرّت کاپہلوغالب ہے ۔ یعنی وہ مہربانی جوکسی ایسی چیزمیں نہ ڈالے ، کسی ایسی چیزکوبرداشت نہ کرے ، ہرایسی چیزکودفع کرنے میں لگ جائے جوتکلیف ومشقت ، نقصان یاآزارکاباعث ہوسکتی ہو۔اوررحمت میں مثبت یعنی عطائے خیرکاپہلوغالب ہے ۔ یعنی وہ مہربانی وبھلائی جونفع ، ترقی ، کامیابی اوربہتری کے دروازے اورراہیں کھولے۔

جوبات قرآن واضح کرتاہے ۔اورجوساری حیات طیّبہ میں نمایاں ہے ۔ وہ یہ کہ پہلے پہلوسے آپؐکی مہربانی اس حد تک بڑھی ہوئی تھی کہ ہروہ چیزجوآپؐکے ساتھیوں کے لئے کسی طرح بھی نقصان کاباعث ہوسکتی تھی ، وہ آپؐ کو اس درجہ شاق تھی کہ اس میں آپؐ کے دل کی کیفیت اورعملی برتاؤکے لئے عزیزکالفظ استعمال ہواہے ۔ یعنی جوہرچیزپرغالب ہو۔ جس میں نہ صرف یہ بات شامل ہے کہ آپؐ کے کسی قول اورکسی فعل سے کبھی کسی کوکسی قسم کی کوئی ایذانہیں پہنچی ۔آپؐ نے کسی کوبُرابھلانہیں کہا، کسی کی تحقیرنہیں کی، کسی پربہتان نہیں لگایا، کسی کی غیبت نہیں کی، کسی کی عزّت کونقصان نہیں پہنچایا۔ کسی پرہاتھ نہیں اُٹھایا۔ وہاں یہ بھی شامل ہے کہ دین کے مطالبات ، تحریک کی ذمہ داریوں اورشریعت کے احکام میں بھی آپؐ نے کسی ایسی چیزکامطالبہ نہیں کیاکہ جومشقت اورتکلیف میں ڈالنے والی ہو۔ ظاہرہے کہ اس میں ان قربانیوں کی دعوت شامل نہیں جودنیااورآخرت میں فوزوفلاح کے دروازے کھولنے والی تھیں۔

اوردوسرے پہلوسے آپؐ کی کیفیت کاجوعالم تھا، اس کی تعبیرحرص سے ہی کی جاسکتی ہے ۔ بھلائی ، خیر اورترقی کے لئے ہربات کہنااورہرکام کرنا، یہاں تک کہ کسی طرح دل نہ بھرے ، کوئی چیزچھوٹ نہ جائے ۔زیادہ سے زیادہ حاصل ہو، ہرلمحہ فیض جاری رہے ، ہروقت اس کی دھن تھی ۔ ہروقت آپؐ اس کی فکر میں رہتے تھے ، یہی لالچ کی کیفیت ہوتی ہے ۔ یہی آپؐ کی کیفیت تھی۔

ان دونوں صفات کے سانچہ میں دل بھی ڈھلاہواتھا،اورعمل بھی ۔ یہ پھوٹ کرجن صورتوں میں ظاہرہوئیں، جو برگ وبارلائیں، ان کاشمارممکن نہیں ۔ لیکن چنداہم صورتوں سے جوروشنی پھوٹ رہی ہے اس سے اپنے دل اوراپنی راہیں منورکرناضروری ہیں۔ہرساتھی قیمتی تھااورآپؐ نے دنیاکی ساری زینت سے نگاہ ہٹاکرخودکوصرف ان کے ساتھ باندھ لیاتھا۔ان کی تعلیم اورتزکیہ میں ہمہ دم مشغول رہتے تھے ۔ ان کے ساتھ نرمی وشفقت کابرتاؤتھا۔ ہرساتھی سے اس کی استعدادکے مطابق معاملہ کرتے تھے ۔ مشورہ میں وہ پورے شریک تھے اورغلطیوں پرچشم پوشی ، درگزراورعفوکاشیوہ تھا۔

قدروقیمت کااحساس اورربط

جوشخص بھی بندگی رب کی راہ پر آپ  کے ساتھ آیا، جس نے آپؐ  کے ہاتھ میں ہاتھ دے کرپیمانِ وفاباندھا، جوسب کوچھوڑکر آپؐ کے پیچھے چل پڑا، جس نے  آپؐ کی دعوت ایمان وجہادپرلبیک کہا، وہ آپؐ کے لئے سب سے قیمتی سرمایہ تھا۔ اس کی جگہ آپؐ کے دل میں تھی ۔اس کے ساتھ آپؐ کارشتہ محبت کاتھا۔ اس کے ساتھ آپؐ نے اپنے کوجوڑلیاتھا۔اس میں نہ کوئی غرض تھی نہ کوئی ہوائے نفس کہ ان سے آپؐ کادل بالکل پاک تھا۔ یہ ساتھ آپؐ کودنیاکی ہرچیزسے زیادہ عزیزتھے۔اورکبھی ایسانہیں ہواکہ اُن کوچھوڑکریانظراندازکرکے آپؐ نے دنیاکی کسی زینت کی طرف ، کسی نفع اورفائدہ کی طرف ، کسی جاہ اورشہرت کی طرف نگاہ اُٹھاکربھی دیکھا۔

’’اوراپنے دل کوان لوگوں کی معیت پرمطمئن کروجواپنے رب کی رضاکے طلب گاربن کرصبح وشام اُسے پکارتے ہیں اوران سے ہرگزنگاہ نہ پھیرو۔ کیاتم دنیاکی زینت پسندکرتے ہو۔  ‘‘   (الکہف۔  ۱۸  :  ۲۸)

وجہ صاف اورظاہرہے ۔ ان کے ساتھ رشتہ اس ذات کی خاطرتھاجس کی رضااورتوجہ آپؐ کامقصدزندگی تھی ۔ اِس رشتے کے آگے دنیاکی ہرشے ہیچ تھی۔ یہ تعلق ایک وقتی ضرورت نہ تھاکہ جب چاہاقائم کرلیا، جب چاہاتوڑدیا، جب چاہاسرآنکھوں پربٹھایا، جب چاہااُٹھاکرنیچے پھینک دیااورپامال کردیا۔ یہ بندھ جانااوریہ قدروقیمت کااحساس ہی آپؐ کی نرمی اورشفقت کاایک بڑاسرچشمہ تھا۔

یہ تعلق رب کے نام کی وجہ سے اپنی جگہ خودہی بیش بہاتھا۔ لیکن آپؐ کویہ بھی معلوم تھاکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کاسب سے بڑاذریعہ مومنین کی وہ جماعت ہی ہے ٗ جوآپؐ کے ہمراہ تھی ۔ وہ جتنی مضبوطی سے الفت کے سیمنٹ میں جڑی ہوگی، اتنی ہی آپؐ کے مقصدکی کامیابی یقینی ہوگی اوران کی باہمی الفت ، اس الفت کامظہرہوگی جوان کے قائد کوان کے ساتھ ہوگی ۔ آپؐ کو مومنین کی جماعت کایہ درجہ بھی معلوم تھاکہ اللہ تعالیٰ ان کی رفاقت کے ذریعہ ہی آپؐ کوکامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ اوریہ وہ انعامِ خداوندی ہے جواس کے فضل سے ہی حاصل ہوسکتاہے۔ کسی انسان کے بس سے باہرہے ۔

’’وہی توہے جس نے اپنی مددسے اورمومنوں کے ذریعہ سے تمہاری تائیدکی اورمومنوں کے دل ایک دوسرے کے ساتھ جوڑدیئے ۔ تم روئے زمین کی ساری دولت بھی خرچ کرڈالتے توان لوگوں کے دل نہ جوڑسکتے تھے ۔مگروہ اللہ ہے جس نے ان لوگوں کے دل جوڑے ۔ یقیناوہ بڑازبردست اورداناہے۔اے نبیؐ، تمہارے لئے اورتمہارے پیرواہل ایمان کے لئے توبس اللہ کافی ہے۔ ‘‘     (الانفال ۔ ۸  :  ۶۲-۶۴)

آپؐ کے اسی تعلق کانتیجہ تھاکہ عرب کے قبایلی نظام میں ٗرنگ ونسل اورحسب ونسب کے سارے بت توڑکرآپؐ نے تاریخ انسانی کایہ حیرت انگیزکارنامہ سرانجام دیاکہ عقیدہ اورعمل کی بنیادپرایک برادری اوراُمت پیداکردی ، ایسی برادری اورامت جس کو۱۴۰۰ سال میں بھی مٹایانہیں جاسکاہے ۔اوراسی کانتیجہ یہ معجزہ بھی ہے کہ ان لاتعدادافرادمیں سے جوآپؐ کے ساتھ آئے ، کوئی آپؐ کا مخالف نہیں ہوگیا۔ کسی نے آپؐ پر الزام تراشی کاسلسلہ شروع نہیں کیا۔

آپؐ نے سب کواپنی محبت کے سائے میں اس طرح سمیٹ لیاجس طرح ایک پرندہ سمیٹ لیتاہے ۔ ان کی حفاظت کی ۔ان کوپروان چڑھایا۔بالآخران کوپروازکے لائق بنادیا۔

’’اورایمان والوں میں سے جولوگ تمہاری پیروی اختیارکریں، ان کے ساتھ تواضع سے پیش آؤ۔ ‘‘   (الشعراء  ۲۶  :  ۲۱۵)

(جاری)

موبائل: 9831439068azizabdul03@gmail.com

تبصرے بند ہیں۔