قصّہ موسیٰ کی غرض وغایت – قرآن مجید کی روشنی میں

تحریر: اخلاق حسین

ترتیب: عبدالعزیز

قرآن کریم میں فرعون وکلیمؑ کی آویزش باربارمختلف اندازمیں بیان کی گئی ہے ۔ انبیاء سابقین میں سے کسی نبی کے حالات اتنی تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کیے گئے جتنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے۔ اس کے متعددوجوہ ہیںجن میں سے چندہم یہاں بیان کرتے ہیں۔

نبی ﷺسے پہلے آخری شریعت کے حامل

(۱) نبی ﷺسے قبل موسیٰ علیہ السلام ہی وہ آخری نبی تھے جوشریعتِ خداوندی لے کرآئے تھے ۔ آپؐ سے پہلے تورات ہی وہ آخری ضابطہ ٔحیات تھاجو خداوندعالم کی جانب سے اقوامِ عالم کوعطاکیاگیاتھااوراُممِ سابقہ کوحکم دیاگیاتھاکہ وہ اس ضابطۂ شریعت پرعمل کریں۔

حضورﷺکے حالات سے مماثلت

(۲) نبی ﷺکے حالات کوموسیٰ علیہ السلام کے حالات سے جتنی زیادہ مماثلت ہے ، اتنی کسی دوسرے نبی سے نہیں۔ابتدامیں دعوت وغربت کی اجنبیت ، حالات کی ناسازگاری، مخالفت کی یکسانیت، مخالفین ومعاندین کے یکساں ہتھکنڈے ، اغراض کے بندوں(vested interests) کی مزاحمت، غضبناک برسرِ اقتدارگروہ کاتشدّد، ہٹ دھرم ، کٹ حجّت اورضدّی مخالفین کاسامنا، طاقتوراورمتکبّراربابِ اقتدارسے کش مکش ، ہجرت اورپھرکامیابی یہ سب مراحلے اتنے ملتے جلتے تھے کہ فرعون وکلیمؑ کی کش مکش کے واقعات سُنتے ہی مکّے کے حالات آنکھوں میں پھرنے لگتے تھے اورہرشخص بہ آسانی سمجھ لیتاتھاکہ حدیث دیگراں میں اُن ہی کی آپ بیتی بیان ہورہی ہے ۔

قریب ترین زمانہ

(۳) نبی ﷺسے موسیٰ  علیہ السلام کازمانہ اتناقریبی تھاکہ اُس زمانے کی روایات وحکایات ذہنوں میں تازہ تھیںاوراِن واقعات کی شاہد قوم ہرجگہ چلتی پھرتی نظرآتی تھی۔

تاریخ کے دومثالی کردار

(۴) فرعون وموسیٰ علیہ السلام کوصرف دوافرادہی کی حیثیت سے نہ دیکھاگیا، بلکہ یہ تاریخ کے دومثالی نمونے(symbols)تھے جوپردۂ عالم پربارباراُبھرتے اورگہرے نقش چھوڑتے گئے ہیں۔

ایک طرف فرعون ظلم ، تشدد، استبداد، ہٹ دھرمی ، کٹ حجّتی اورنشۂ قوت میں بدمست اقتدارکامکمل مظہرتھاتودوسری طرف موسیٰ علیہ السلام پیغمبرانہ بصیرت ، عزیمت اورفراست ، ضعفاء کے نجات دہندے ، حق کوکامیابی سے ہمکنارکرنے کے لئے ایک کامل نمونے کے طورپرسامنے آئے ۔چنانچہ جب کبھی اورجہاں کہیں بھی باطل حق سے ٹکرایا، ظالم حکمرانوں اورمظلوم محکوموں میں کشمکش ہوئی ، بپھرے ہوئے اقتداراورنہتے ، ضعیف ، مجبورعوام میں تصادم ہوا، لوگوں نے یہی سمجھاکہ تاریخِ فرعون وکلیمؑ اپنے آپ کودہرارہی ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام کی جرأت وعزیمت ، بصیرت وفراست ، صبرواستقامت، اہل حق کے لئے مشعلِ ہدایت بن کرسامنے آئی اورفرعون کاذلّت آمیزانجام ہمیشہ ان کے اس یقین کی فراوانی وپختگی کاسبب ہی بناکہ حق کوبہرحال غالب ہوناہے اورباطل کومغلوب ۔ یہ حقیقت اتنی ظاہروباہرتھی کہ زبانِ خلق پریہ ضرب المثل عام ہوگئی کہ ’’ہرفرعونے راموسی ؑ۔‘‘

اہلِ ایمان کے ایک تازہ ولولہ

(۵) مکّے کے اہلِ ایمان کے سامنے جب بھی یہ داستانِ کشمکش پیش کی گئی ، اُن میں ایک نیاایمان ، ایک تازہ ولولہ اورایک نیاجوش پیداہوا،اورقریش کاساراظلم وجور، تشددواستبداد، اُن کے ایک لمحے کے لئے بھی حالات سے مایوسی پیدانہ کرسکا۔ ظلم جتنابڑھتا گیا، ان کایہ یقین بھی بڑھتاگیاکہ اِس ظلم کوایک نہ ایک دن غرق ہوناہے ۔ اوردنیانے دیکھ لیاکہ وہ بدرمیں ، احزاب میں، مکّے میں اورحنین میں غرق ہوکررہا۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے واقعات کوسورۂ البقرہ، یونس، الاعراف، ھود، طٰہٰ، الشعرائ، القصص، النمل، المومن، الذاریات وغیرہ میں بارباردُہرایاتاکہ اہلِ ایمان حالات کی ناسازگاری سے بد دل ہوکرکبھی ہمّت نہ ہاریں۔

آج جبکہ خدائی زمین میں ظلم واستبداددندنارہاہے ، جوروتعدّی کادوردورہ ہے ، اہلِ حق کومصائب کی گہری ظلمتوں نے چاروں طرف سے گھیررکھاہے ، اس بات کی شدیدضرورت ہے کہ اُن کے سامنے باربارفرعون وموسیٰ ؑ کی کش مکش دُہرائی جاتی رہی ہے تاکہ اُن کے پائے استقلال میں لغزش نہ آنے پائے اوروہ حالات سے مایوس ہوکرسپرنہ ڈال دیں

مومنین کے لئے بشارت

خودقرآن مجیدنے قصہ ٔ  فرعون وموسیٰ  ؑبیان کرنے کی جوغرض وغایت اوراہمیت بتائی ہے وہ اُس کے اپنے الفاظ میں یہ ہے  :

’’طٰ۔س۔م۔ یہ کتاب مُبین کی آیات ہیں۔ ہم موسیٰ  ؑاورفرعون کاکچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سُناتے ہیں ایسے لوگوں کے فائدے کے لئے جوایمان لائیں۔‘‘         (القصص  :  ۱  تا  ۳)

یعنی یہ واقعات جو بتائے جارہے ہیں ، یہ کسی شوقِ داستان گوئی کوپوراکرنے کے لئے نہیں بتائے جارہے ہیں کہ لوگ سنیں اورسردھنیں اورنہ اس سے یہ مقصودہے کہ تاریخ کے کچھ باب بیان کردیئے جائیں کہ لوگوں کے علم تاریخ میں اضافہ ہو۔ بلکہ ان واقعات کی اہمیت یہ ہے کہ یہ کتاب اللہ کاایک حصہ ہیں اوران کواللہ کی نشانیوں کی حیثیت سے پیش کیاجارہاہے اوران کی غرض وغایت یہ ہے کہ اِن کے سننے سے ’’مومنین‘‘ کوفائدہ پہنچے۔

یہاں لفظ ’’مومنین‘‘ خاص طورپرقابلِ غورہے ۔اس کے دوپہلو ہیں۔ ایک تویہ کہ اِن واقعات سے ان لوگوں کوکچھ حاصل نہیں ہوسکتاہے جواللہ اورکتاب ُاللہ پرایمان نہیں رکھتے ۔ وہ نہ توعزم وہمت کاسبق سیکھ سکتے ہیں اورنہ عبرت ہی حاصل کرسکتے ہیں ۔ اِس سے روحانی ، اخلاقی فائدہ جوکچھ پہنچ سکتاہے وہ صرف اُن لوگوں کو، جواِس کتاب پراوراِس کتاب کوبھیجنے والی ذات پرایمان رکھتے ہیں۔

اس کادوسراپہلوسمجھنے کے لئے ہمیں اس پس منظرکودیکھناچاہئے جس میں یہ آیات نازل کی گئی تھیں اوراُس ماحول کوسمجھنے کی کوشش کرناچاہئے جس میں اہل ایمان اُس وقت گھِرے ہوئے تھے۔

اُس وقت مکّے میں علمبردارانِ حق اوربندگانِ باطل کے درمیان ایک سخت کش مکش برپاتھی۔بظاہرحالات اہلِ ایمان کے سخت خلاف نظرآتے تھے ۔ کفارتعدادکے لحاظ سے اکثریت میں تھے، مال ودولت کے لحاظ سے خوشحال تھے، مادّی قوت وشوکت کے لحاظ سے مومنین کسی شمارہی میں نہ تھے۔ مسلمان ہرجگہ مارے اورکھدیڑے جارہے تھے ،ان کااعلانِ ایمان ہی ان کوہرقسم کی اذیت وعقوبت کاسزاواربنادیتاتھا۔ وہ ہرجگہ مظلوم ومقہوراورمجبورومغلوب تھے، اوریہ دشمنانِ اسلام اِن تمام مظالم کے باوجوددندناتے پھررہے تھے ۔ بظاہرنظرآرہاتھاکہ یہ نئی اُبھرتی ہوئی تحریک کچھ دنوں کی مہمان ہے اورچنددنوں میں فریقِ مخالف کی تاب نہ لاکردم توڑدے گی۔ اہلِ ایمان کے کامیاب ، غالب ہونے کاتوسوال ہی نہیں ، وہ اگرباقی بھی رہ جائے تویہ ایک معجزہ تھا۔ تمام ظاہربین یہ سمجھ رہے تھے کہ کوئی دن جاتاہے کہ اِ ن مسلمانوں کاکام تمام ہواجاتاہے ۔خودمسلمانوں کی نظرمیں دنیااندھیرتھی، کوئی جائے پناہ نظرنہ آرہی تھی۔ چاروں طرف مایوسیوں اورناکامیوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ کہیں ان کے لئے انگاروں کے بسترسجائے جاتے توکہیں گلوںمیں پھندے ڈال کرگھسیٹاجاتا، کہیں جلتی ہوئی ریت پرلٹایاجاتاتوکہیں پتھرکی سلوں کے نیچے دبادیاجاتا۔ ان کی مظلومیت پرکوئی آنکھ رونے والی نہ تھی، ان کے لئے کوئی سینہ سردآہیں بھرنے والانہ تھا۔ ہرگلی کوچے میں خندہ ہائے استہزائ، طعنوں تشنوں اورگالیوں سے نوازاجاتا   ؎

سوبلائیں ایک جانِ ناتواں کے واسطے

اِ ن مایوس کن حالا ت میں باری تعالیٰ کی طرف سے یہ مژدۂ جانفزاملتاہے کہ یہ سب ظالم مخالفین ، فرعون کے انجام سے دوچارہوںگے اوریہ پہلے دبے ہوئے ایمان والے موسیٰ  ؑ کی طرح کامیاب وکامران اُبھریںگے ۔ اس بشارتِ عظمیٰ سے وہی لوگ اطمینان وسکون حاصل کرسکتے تھے جنھیں دولتِ ایمانی کی فراوانی سے ملی تھی ۔ وہ بدنصیب جواِس دولتِ یقین سے بے بہرہ تھے کہاں سے بشارت پاسکتے تھے ؟ وہ تویہی سمجھ سکتے تھے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔جس کے پاس تخت وتاج ہے اس کاہی اقتداردوامی ہے اورجوبے زوردبے اقتدارہے اس کی ذلّت ومغلوبیت بھی دوامی ہے ۔انھوں نے بارہافرعونیت کوغرق ہوتے دیکھاتھالیکن ہرفرعون کووہ یہی سمجھتے رہے کہ یہ اقتدارِ دوام کاٹھیکیدارہے۔

موبائل: [email protected]

تبصرے بند ہیں۔