آوارہ ادب!

تحریر: سید قطب شہیدؒ ۔ ترتیب:عبدالعزیز

 (یہ گفتگو 10 اگست 1952ء ، 8بجے رات کو مصری ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہونا تھی لیکن اس وقت فضا اتنی ابر آلود تھی کہ اسے نشر کیا جانا ممکن نہ ہوسکا۔ بہت سے لوگ ہیں جو ’’غلام‘‘ سے مراد اپنی ذات کو لیتے ہیں ۔ اسی طرح ایسی آوازوں کو اب بھی تحفظ حاصل ہے جو لوگوں سے کہتی ہیں کہ ’’دنیا جام و مینا کا نام ہے‘‘)۔

آوارہ ادب عام طور پر غلاموں کا ادب ہوتا ہے … خواہ وہ ظلم و جارحیت کے غلام ہوں یا خواہشات نفس کے … جب انسان روئے زمین کے کسی ظالم و سرکش حکمراں یا نفس کی کسی خواہش کا غلام  بن جاتا ہے تو وہ آزادی کی کھلی فضا میں پرواز نہیں کرسکتا۔ یہی نہیں بلکہ وہ زمین کی پستیوں میں جاپہنچتا ہے اور شہوت یا غلامی کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔

 اس طور پر آوارہ ادب غلامی کا ادب ہے۔ وہ اس وقت رواج پاتا ہے جب قومیں اعلیٰ و ارفع اقدار و روایات کے راستے میں جدوجہد سے دست کش ہوجاتی ہیں حتیٰ کہ ان کے دلوں میں اس کی ادنی سی بھی خواہش پیدا نہیں ہوتی۔ جب وہ خواہشات نفس کے پیچھے دوڑنے لگتی ہیں اور گھٹیا مقصد اور حقیر غرض کے حصول کیلئے سرکش حکمرانوں کی چاپلوسی میں لگ جاتی ہیں یعنی جب دنیا کی حیثیت ’’جام و مینا‘‘ کی ہوجاتی ہے اور سرکش حکمرانوں کا تقرب حاصل کرنے کی تمنا کی جانے لگتی ہے۔

 اس وقت قوم میں کچھ ادباء، شعراء اور فن کار نمودار ہوتے ہیں جو اعلیٰ روایات کے فقدان کو لبیک کہتے ہیں اور شہوتِ نفس یا غلامی کے دلدل میں پھنسے رہنے کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ اس وقت قوم کے افراد ان ادباء، شعراء اور فن کاروں کی تخلیقات کوبڑے غور سے سنتے ہیں اس لئے کہ وہ ان کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ ان کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر بناتے ہیں اور ان کیلئے آرام طلبی، تن آسانی، بے کاری اور سستی کی زندگی کو خوب صورت اور مزین بناکر پیش کرتے ہیں ۔

 یہ ادباء ، شعراء اور فن کار اس وقت قوموں کو مدہوش کرنے اورمیٹھی نیند سلانے کا کام انجام دیتے ہیں ، خواہ سرکش حکمرانوں کی مدح سرائی کرکے یا خواہشات نفس کی پیروی کرکے پہلی صورت میں یہ لوگ قوموں کے سامنے حقیقت کو مسخ کرکے بیان کرتے ہیں ۔ ان کے سامنے ظلم و زیادتی اور سرکشی کی شناعت کو کم کرکے دکھاتے ہیں ۔ ان کو حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے اور ان کا مقابلہ کرنے سے باز رکھتے ہیں … دوسری صورت میں یہ ادباء و شعراء قوموں کو بے حس بنا دیتے ہیں ، ان کی طاقت کو برے افعال اور گندے افکار میں صرف کرکے ان کیلئے تفریح طبع کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ چنانچہ وہ قومیں اسی میں مشغول اور محو رہتی ہیں ۔ انھیں اس کے علاوہ کسی چیز کی فکر نہیں رہتی۔ ظلم کا احساس ختم ہوجاتا ہے اور ان میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ کسی ظالم و سرکش حکمراں کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے اسے اس کی زیادتیوں سے باز رکھیں ۔ پوری قوم ’’لذتوں ‘‘ میں مستغرق اور مدہوش رہتی ہے۔

 تاریخ شاہد ہے کہ سرکش حکمرانوں نے ہمیشہ اس قسم کے ادباء، شعراء اور فن کاروں کو ڈھیل دی ہے۔ ان کیلئے وسائل و ذرائع فراہم کئے ہیں اور سستی و تن آسانی اور عیش و عشرت کا ایسا ماحول پیدا کیا ہے جس میں یہ لوگ کام کرسکیں ۔

 جب اموی حکمرانوں نے چاہا کہ اہل حجاز کی بغاوتوں کو فرو کرکے اپنی حکومت و اقتدار کو مستحکم کرلیں اور انھیں عام زندگی سے دور کر دیں تو ان کے امراء و شرفاء میں دولت کی ریل پیل کر دی۔ انھیں جاگیروں اور عطیوں سے نوازا۔ ان کیلئے گانے والوں ، تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے والوں اور لونڈیوں کا انتظام کیا۔ ان کے سامنے عیش و آرام اور تن آسانی کی زندگی کو مزین کرکے پیش کیا اور اور شعراء کو کھلی چھوٹ دے دی کہ ان کے محلوں میں شہوت انگیز نغموں کے ذریعے خواہشات کی تسکین اور تفریح طبع کا سامان بہم پہنچائیں ۔ دوسری طرف شعراء نے ان سرکش حکمرانوں کی مدح سرائی شروع کردی۔ ان کی تسبیح و تقدیس بیان کرنے لگے اور ان کے ارد گرد عظمت و تقدس کے ہالے بنانے لگے۔

تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا رہی ہے … عصر حاضر میں بھی ایسا ہی ہوا، مصر میں ایک چھوٹا سا سرکش حکمراں تھا جو خود اپنے آپ کی پرستش کرتا تھا اور اپنی خواہشات کی تقدیس بیان کرتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مصری عوام کو دو کروڑ ’’غلاموں ‘‘ میں تبدیل کر دے۔

 چنانچہ کچھ ادباء، شعراء اور فن کار اس کی اس خواہش کی تعمیل کیلئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کرنے لگے۔ اللہ کو چھوڑ کر اس کے آگے سر بسجود ہونے لگے۔ اسے صفاتِ الٰہی سے متصف قرار دینے لگے اور اس کی طرف ایسی ایسی باتیں منسوب کرنے لگے جسے کوئی مسلمان یا عیسائی زبان سے ادا کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔

 اس وقت کچھ ادباء، شعراء اور فن کار اٹھ کھڑے ہوئے، خواہشات نفس کی پیروی کرنے لگے اور لذت پرستی میں محو ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں ’’دنیا جام و مینا کا نام ہے‘‘ جیسے نغمے اور اسی طرح کے دیگر واہیانہ خیالات اور افکار گونجنے لگے۔

 سرکش حکمرانوں کی تسبیح و تقدیس اور خواہشات نفس کی پیروی، دونوں الگ چیزیں ہیں نہ ایک دوسرے کیلئے اجنبی ہیں … غلامی خواہ خواہشات نفس کی ہو یا سرکشی کی دونوں کا مزاج ایک ہی ہے۔

٭اب اگر ہم آوارہ ادب کے خلاف جنگ کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ پہلے اس کے اس کے ان اسباب کا خاتمہ کر دیں جو افراد اور قوموں کی زندگی میں پائے جاتے ہیں ۔ ضروری ہے کہ انسانی ضمیر میں پائی جانے والی غلامی کی روح فنا کر دیں ۔ شہوت کی غلامی سے مصروف پیکار ہوں اور انسانی ضمیر کو اس سے آزاد دلائیں ۔ انسان اسی لئے ’’انسان‘‘ ہے کیونکہ وہ حیوانی سرشت سے بلند ہے۔ دینی تربیت ہی روح انسانی کو تقویت پہنچانے اور حیوانی سرشت سے بلند کرنے کا کامیاب اور آسان ترین طریقہ ہے۔

 ضروری ہے کہ ہم ظلم و سرکشی کی غلامی کے خلاف جنگ کریں ، سرکشی ہمیشہ تن آسانی، عیش پرستی اور آرام طلبی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تاکہ اس کا تسلط قائم رہے اور لوگ عزت و آزادی حاصل کرنے اور ظلم و زیادتی اور سرکشی سے نجات پانے کیلئے بیدار نہ ہوسکیں ۔

 اس وقت ہمارے سامنے ایک دوسری صورت حال ہے۔ وہ لوگ جو کبھی چھوٹے سرکش حکمراں کی تقدیس کیا کرتے تھے، اسے سرکشی اور ظلم و زیادتی میں ڈھیل دیتے تھے۔ اس کی حد درجہ تعظیم کیا کرتے تھے اور اسے خدائے واحد و قہار کی صفات سے متصف قرار دیتے تھے… اب وہی لوگ اس سرکش حکمران پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ اس کی ہزاروں برائیاں گناتے ہیں اور اس کی جھوٹی عظمت کی ردا … کو جسے کبھی خود انھوں نے اسے پہنایا تھا … تار تار کرتے ہیں ۔

 یہ بھی آوارگی کی ایک قسم اور آوارہ ادب کی ایک تصویر ہے۔ یہ لوگ پہلے بھی غلام تھے اور اب بھی غلام ہیں ۔ ایسے غلام جو آقا کے سامنے جھکے رہتے ہیں تاکہ وہ ان پر کوڑے برساتا رہے۔ یہاں تک کہ جب کوڑا آقا کے ہاتھ سے گرجاتا ہے تو اسے یہ غلام اٹھا لیتے ہیں اور اسے لے کر دوسرے آقا کی تلاش شروع کر دیتے ہیں ۔ ایسے آقا کی جو ان پر کوڑے برساتا رہے اور وہ ا س کے سامنے دھونی دیتے رہیں اور اس پر پھولوں کی بارش کرتے رہیں ۔

 یہ ہیں آوارہ ادب کے نمائندے۔ ضروری ہے کہ قوم اس نئے عہد میں جو حقیقت میں عزت، قوت، سربلندی اور سرکشی اور خواہشات نفس کی غلامی سے آزادی کا زمانہ ہے، انہیں اس کے ترانے گانے سے روک دے۔

 جی ہاں ! ضروری ہے کہ ہم نئے عہد میں ان غلاموں کو قوم کا ترانہ گانے کی اجازت نہ دیں اور ادب و شعر اور فن کی پیشانی کو گندے گڑھے میں رگڑنے پر انھیں معاف نہ کریں ۔ اس لئے کہ ان لوگوں کو معاف کرنے کا مطلب جدید انقلاب کے اصول و مبادی سے دست کش ہونا ہے اور ان کی باتوں کی طرف دھیان دینا نئی روایات کے ساتھ خیانت ہے۔

 کوئی شخص یہ نہ کہے کہ یہ لوگ ادب و فن اور شعر اور انسانیت کو اس دلدل میں پھنسانے میں معذور تھے۔ اس لئے کہ اگر ان کی مردانگی انھیں معرکہ آرائی پر آمادہ نہ کرسکتی تھی تو خاموش رہنا تو ضرور ان کے اختیار میں تھا۔

 ان کیلئے اس قسم کا عذر تلاش کرنا در اصل جرم کیلئے وجہ جواز فراہم کرنے کے مثل ہے۔ ایسا جرم اگر تاجروں اور سوداگروں سے سر زد ہو تو قابل معافی ہے، لیکن اگر یہ رہ نمایان فکر، زعمائے ادب، قلم کاروں ، شاعروں اور فن کاروں سے ظاہر ہو تو ہر گز معاف نہیں کیا جاسکتا۔

 اگر ان کی یہ بغاوت ہمارے خلاف تھی تو اس کا تقاضا ہے کہ ہم اسے یاد رکھیں اور کبھی فراموش نہ کریں اور اس جرم کی شناعت کو ہر وقت اپنے ذہنوں میں مستحضر رکھیں ۔

  تالاب میں عرصہ تک رہنے والے کیڑے اور حشرات ہر پاک و صاف چیز کو گندا کر دینے کے ذمہ دار ہیں ۔ اگر ہم نے پاک سر زمین میں انھیں دوبارہ زندہ رہنے اور پنپنے کا موقع دیا تو وہ پھر اسے گندا کر ڈالیں گے۔  (اگر چہ سید قطب شہیدؒ نے مسلم دنیا کے پس منظر میں خاص طور سے مصر کے پس منظر میں ’آوارہ ادب‘ کے سلسلے میں باتیں لکھی ہیں مگر ان کی باتیں ہر ملک اور خطہ اور ہر زمانہ میں صادق آتی ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ درباری شاعروں اور ادیبوں کے انداز بدلتے رہتے ہیں )۔

تبصرے بند ہیں۔